سمندر، ساحل کی سرحدوں کو ماننے سے انکار کر رہا ہے!

امر گل

ہمارے شہروں کے نیچے ایک بے چین لہر سانس لے رہی ہے۔ روزمرہ کی بھاگ دوڑ میں ہم اسے سنتے نہیں، مگر وہ ہمیں مسلسل دیکھ رہی ہے۔ سمندر جو ہمیشہ چھٹیوں، شام کی ہوا اور نمکین لہروں کا استعارہ تھا، اب ایک سخت حقیقت بن چکا ہے۔ وہ آہستہ آہستہ اپنی حدود بڑھا رہا ہے، اور اس کی ہر اگلی لہر ایک سوال بن کر واپس آتی ہے: سمندر، ساحل کی سرحدوں کو ماننے سے انکار کر رہا ہے۔۔ تو کیا آپ تیار ہیں؟

یہ سوال صرف سائنس دانوں تک محدود نہیں۔ کلفٹن کی ٹھنڈی ہوا سے لے کر کیٹی بندر کی نمک بھری مٹی تک ہر مقام پر یہ خطرہ موجود ہے۔ سمندر کا پانی چند ملی میٹر سالانہ بڑھے تو کیا ہوگا۔۔ اس کا جواب اس سوال میں ہے کہ انسانی جسم کا درجہ حرارت بھی چند ڈگری بڑھے تو کیا ہوتا ہے؟ بخار۔ سمندر کو بھی بخار ہے۔ وہ پھیل رہا ہے۔ ابل رہا ہے اور بہت قریب تک آ رہا ہے۔

ہم انسان، زمین پر اپنی جیت کے جشن میں مگن رہے۔ ہم نے آسمان چھو لینے والی عمارتیں کھڑی کر دیں، کنکریٹ کے جنگل کھڑے کر کے انہیں شہروں کا نام دیا، ساحلوں پر اپنے قدم جما کر اعلان کر دیا کہ یہ دنیا ہمارے لیے بنی ہے۔۔ سمندر نے سب کچھ خاموشی سے دیکھا اور سنا۔۔ وہ چپ رہا، مگر اب اس کے لہجے میں نمی بڑھ رہی ہے۔ اس کے قدم آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہے ہیں، اگر ہم سن سکیں تو وہ ہمیں کہہ رہا ہو، ’’اپنے قدم کھینچ لو، میں لوٹ آیا ہوں۔‘‘

یہ ایک انجانا خوف نہیں۔ سائنس دان اسے نقشوں، ریاضی اور اعداد کی زبان میں سمجھا چکے ہیں، لیکن ایک سوال ہے جس کا جواب ابھی تک کسی منصوبہ بندی کی میز پر موجود نہیں۔۔ اور وہ یہ ہے کہ اگر شہر ڈوب جائیں تو شہری کہاں جائیں گے؟ اگر ساحل پیچھے ہٹیں تو قومی معیشت کہاں کھڑی ہوگی؟ اگر سمندر اپنی پرانی حدود ماننے سے انکار کر دے تو ہماری تسلیاں کس کنارے پر آسرا ڈھونڈیں گی؟

ایک تازہ عالمی تحقیق خبردار کر رہی ہے کہ اس صدی کے دوران سمندر کی سطح میں اضافے سے ترقی پذیر دنیا کی لاکھوں عمارتیں صفحۂ ہستی سے مٹ سکتی ہیں اور کروڑوں انسانوں کی زندگیاں خطرے میں پڑ سکتی ہیں۔ یہ خطرہ صرف ساحل تک محدود نہیں۔ ہم میں سے وہ لوگ بھی محفوظ نہیں جو ساحل سے دور رہتے ہیں، کیونکہ ہماری خوراک، ایندھن اور روزمرہ استعمال کی زیادہ تر اشیا بندرگاہوں سے گزرتی ہیں۔ اگر یہ ساحلی ڈھانچہ متاثر ہوتا ہے تو پوری عالمی معیشت اور غذائی نظام ہل کر رہ جائے گا۔

کینیڈا کی میک گل یونیورسٹی کے سائنس دانوں نے ایک غیرمعمولی تحقیق کی ہے۔ انہوں نے افریقہ، جنوب مشرقی ایشیا اور وسطی و جنوبی امریکہ کے ساحلی علاقوں میں موجود 84 کروڑ عمارتوں کو جدید ترین سیٹلائٹ ڈیٹا اور مشین لرننگ کی مدد سے جانچا ہے۔ سوال صرف یہ تھا کہ سمندر کی سطح بڑھنے سے کتنی عمارتیں تباہ ہو سکتی ہیں؟

اس کے تین ممکنہ منظرنامے سامنے رکھے گئے: سمندر کی سطح میں اگر صرف 0.5 میٹر اضافہ ہوتا ہے تو اس سے تقریباً 30 لاکھ عمارتیں متاثر ہو سکتی ہیں جبکہ 5 میٹر اضافے سے تقریباً ساڑھے 4 کروڑ اور 20 میٹر اضافے سے یہ تعداد 13 کروڑ سے زیادہ تک پہنچ جائے گی۔

واضح رہے کہ ان نتائج میں طوفانی لہروں، تیز مدوجزر اور زمینی کٹاؤ کو شامل نہیں کیا گیا۔ سائنس دانوں کے مطابق اصل نقصان اس سے کہیں بڑھ کر ہو سکتا ہے۔

کبھی ایسا زمانہ بھی تھا جب پانی بڑھا تو لوگ اپنا گھر سمیٹ کر نئی جگہ چلے گئے۔ نہ کوئی کاغذی نقشہ تھا نہ تعمیراتی قانون۔ اب سمندر کی ایک لہر صرف ایک جھونپڑی نہیں بہا کر لے جائے گی بلکہ ایک شہر، ایک بندرگاہ، ایک پوری معیشت کو بہا لے جا سکتی ہے۔

سمندر کی بڑھتی ہوئی سطح کا حساب کیلکولیٹر بتا سکتا ہے، مگر اس کی قیمت انسانیت کو چکانا پڑے گی۔

ہجرت کی وجوہات میں صرف جنگ اور غربت ہی شامل نہیں ہیں۔ جب پانی رستہ روک لے تو انسان بھی راستے بدلنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ اندازے بتاتے ہیں کہ آنے والے چند عشروں میں دنیا کو سب سے زیادہ مجبور کرنے والی طاقت بندوق نہیں، پانی ہوگا۔ لاکھوں نہیں، کروڑوں انسان اپنے گھروں سے، اپنی زمین سے رخصت ہونے پر مجبور ہوں گے۔ وہ جب اپنے کندھوں پر اپنی اکھڑی ہوئی جڑوں کا بوجھ اٹھا کر شہروں کی طرف بڑھیں گے تو نئی کہانیاں جنم لیں گی اور ہر کہانی میں ایک گمشدہ ساحل کی اداسی ہوگی، بے بسی ہوگی۔

بستی چھوڑنا محض جغرافیہ بدلنا نہیں ہوتا۔ وہاں نقشے کے علاوہ یادیں، ثقافتیں، رسمیں اور بزرگوں کے قدموں کی آہٹ ہوتی ہے۔ سادہ الفاظ میں کہیں تو یہ ایسا ہی ہے جیسے درخت اپنی جڑوں سے اکھڑتا ہے۔ سمندر جب ایک بستی نگلتا ہے تو حقیقت میں کئی نسلوں کی کہانیاں نمک کی دیمک چاٹ جاتی ہے۔

ماہرین سطح سمندر میں اضافے کی باتیں کر رہے ہیں اور لوگ سمجھتے ہیں کہ ساحل پر رہنے والے ہی متاثر ہوں گے، لیکن جب بندرگاہیں ڈوبیں گی تو عالمی تجارت کا پہیہ رک کر ہچکولے کھانے لگے گا۔ خوراک کی فراہمی، تیل کی ترسیل، دوائیں، ٹیکنالوجی، سب کچھ ایک نہ نظر آنے والی زنجیر میں بندھا ہے جو ساحل سے شروع ہوتی ہے۔ اگر ان بندرگاہوں کے دروازے بند ہوں تو پوری دنیا کے چولہوں میں آگ ٹھنڈی پڑ سکتی ہے۔

یہ محض ایک ماحولیاتی بحران نہیں۔ یہ معاشی، سماجی اور سیاسی زلزلہ بھی ہے۔ کچھ ممالک بحرانی قرضوں میں ڈوب جائیں گے، کچھ اپنے شہروں کی جگہ نئی زمینیں خریدنے کے خواب دیکھیں گے اور کچھ ممالک اپنے دروازے بند کر کے نئے مہاجرین سے نظریں چرانے لگیں گے۔

سندھ میں انڈس ڈیلٹا کا دل دھڑک رہا ہے مگر کمزور ہو چکا ہے۔ مینگروز جو ساحل کی پہلی دفاعی لائن ہیں، اب لڑکھڑا رہے ہیں۔ کیٹی بندر، شاہ بندر اور ڈیلٹا کے دوسرے گاؤں میں لوگ سمندر کے بڑھتے ہوئے قدموں سے پہلے ہی ہجرت کے بوجھ میں دب رہے ہیں۔ ان کے لیے یہ خطرہ مستقبل کی تصویر نہیں بلکہ آج کا رزق اور چھت چھن جانے کی کہانی ہے۔

کراچی کا معاملہ اور بھی سنگین ہے۔ اگر یہاں پانی بڑھا تو صرف مکانات نہیں ڈوبیں گے بلکہ پورے پاکستان کی معاشی دھڑکن کھارے پانی میں دفن ہو جائے گی۔ ایک رپورٹ کہتی ہے کہ آنے والے برسوں میں لاکھوں موسمیاتی مہاجرین کراچی کا رخ کریں گے۔ اس شہر کے گنجان علاقوں پر ایک اور دباؤ۔۔ اور شہری نظام اسی دباؤ میں ٹوٹتے ہیں۔

بلوچستان کے ساحل نسبتاً تنہا مگر کمزور دیوار ہیں۔ گوادر کی چمکتی امید اور ماہی گیروں کی زندگی کے درمیان نمک کی ایک لکیر کھینچی جا چکی ہے۔ ساحلی کٹاؤ اور دریا کے کمزور بہاؤ نے یہاں کی زمین کو پہلے ہی تھکا دیا ہے۔

اصل مسئلہ شاید سمندر نہیں، اصل مسئلہ انسانی غفلت ہے۔ ہم فوسل فیول کی آگ جلائے بیٹھے ہیں، کاربن کو آسمان میں آزاد کر رہے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ زمین یہ بوجھ ہمیشہ اٹھائے رہے گی۔ ہم یہ بھول چکے ہیں کہ زمین نے اپنی طاقت ثابت کرنے میں کبھی دیر نہیں لگائی۔

ضرورت واضح ہے۔ توانائی کے نظام کو بدلنا ہوگا۔ شہروں کو دوبارہ سوچنا ہوگا۔ ساحلی زمینوں کی حفاظت اور مینگروز کی بحالی کو ملکی سلامتی کا حصہ سمجھنا ہوگا۔ سمندر میں دریا کے میٹھے پانی کے داخل ہونے کو پانی کا زیان قرار دینے کی بے وقوفانہ سوچ سے دستبردار ہونا ہوگا، بصورت دیگر سمندر کا خطرہ کسی ملک کی سرحد سے نہیں رکنے والا۔ یہ ایک عالمی بحران ہے، جس کا حل بھی عالمی ہوگا۔

سمندر صدیوں سے ہمارے لیے سخاوت کی علامت تھا، لیکن تہذیب نے پانی کے آگے دیواریں کھڑی کر دیں۔ کنکریٹ، کوئلہ، پلاسٹک، دھواں، اور بے رحم ترقی سب مل کر اپنے ساتھ ایک بدلتا ہوا موسم لے آئے۔ سمندر نے ہمیں راستے دیے، ہم نے اس میں آلودگی کا غصہ بھر دیا۔ فطرت نے سمندر کو ہماری خوراک کا ذریعہ بنایا، ہم نے سمندر کے دل میں کچرا انڈیلا، دریاؤں کی نبض کاٹ دی اور یہ سمجھ بیٹھے کہ وہ خاموش رہے گا۔

سمندر ایک استاد ہے۔ اس نے ہمیں تہذیبیں بسا کر دی ہیں، راستے دکھائے ہیں، تجارت دی ہے، لیکن جب انسان اس سبق کو بھولتا ہے تو وہ اس استاد کے غضب کا شکار ہو جاتا ہے۔

دو سینٹی میٹر کا اضافہ بھی کسی ساحلی خاندان کے لیے آدھی رات کا سونامی بن سکتا ہے۔ جس مکان کی دیوار آج قدرے گیلی ہے، وہ کل اپنا وجود کھو سکتا ہے۔

سائنس صاف کہتی ہے کہ کاربن زیادہ ہے، برف پگھل رہی ہے، پانی بڑھ رہا ہے، لیکن سیاست کہتی ہے کہ یہ سب ترقی کی قیمت ہے۔ سرمایہ داری کہتی ہے کہ وقتی نقصان کو منافع کی جیب میں چھپا لینا چاہیے۔۔ اور عام آدمی کہتا ہے کہ میرے پاس سوچنے کا وقت ہی کہاں ہے، میں تو آج کی روٹی کا قیدی ہوں۔

مگر یہ تماشا زیادہ دیر نہیں چل سکتا۔ جس دن پانی رعایت دینا چھوڑ دے گا، اسی دن حساب برابر ہو جائے گا۔

یہ کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی۔ یہ وہ موڑ ہے جہاں دنیا فیصلہ کر سکتی ہے۔ یا تو ہم سمندر کو غضب ناک کرنے کے بجائے اپنی زندگیوں کے راستے بدل لیں، یا پھر کل اخبارات میں ہماری بستیوں کے ڈوبنے کی خبریں چھپتی رہیں گی۔

دنیا کے پاس ابھی بھی وہ علم موجود ہے جو نئے بند باندھ سکتا ہے، آلودگی کو کم کر سکتا ہے، ساحلوں کو اونچا کر سکتا ہے، شہر دور لے جا سکتا ہے اور گرین انرجی کو عام بنا سکتا ہے۔ فیصلہ بس اتنا ہے کہ ہم اپنی سہولت کی کرسی سے کب اٹھیں گے۔

سمندر ہمیں یہ سکھانے آیا ہے کہ ہم زمین کے مالک نہیں، اس کے مسافر ہیں۔ یہ ہمیں ہماری غلطیوں کا آئینہ دکھانے آیا ہے۔ وہ ہمیں یہ بتانے آیا ہے کہ زمین کے ساتھ وفادار رہنے والے ہی اس کی سطح پر رہنے کے حقدار ہیں۔

سمندر کی بڑھتی ہوئی سطح اعداد کا کھیل نہیں۔ یہ آنے والی نسلوں کے دل پر لکھا جانے والا نوحہ ہے۔ ہر قدم جو ہم زمین کو تکلیف پہنچا کر اٹھاتے ہیں، سمندر اسے یاد رکھتا ہے۔ شاید اب وقت آگیا ہے کہ ہم اس کے پاؤں کے نشانوں کو پڑھیں، اس کی سرگوشیاں سمجھیں، اور خود سے پوچھیں کہ کیا ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے شہر تاریخ بن جائیں، یا ہم چاہتے ہیں کہ وہ مستقبل بھی بنے رہیں؟

اگر اس سوال کا جواب واضح ہے تو پھر عمل بھی واضح ہونا چاہیے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button