غزوۂ ہند یا ہندوؤں کا قتلِ عام ہمارا ایجنڈا نہیں: پاپولر فرنٹ آف انڈیا کے رہنما کا انٹرویو

ویب ڈیسک

پاپولر فرنٹ آف انڈیا یا پی ایف آئی کے جنرل سکریٹری انیس احمد نے برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ ان کی تنظیم ”حکومت کی مسلم مخالف پالیسیوں کی پُرزور مخالفت کرتی رہی ہے اور مسلمانوں میں اپنے آئینی حقوق کا مطالبہ کرنے کے لیے طاقت پیدا کرنے کی کوشش کر رہی ہے اس لیے ہمیں ایک مجرِم اور دہشت گرد تنظیم قرار دینے کی کوشش کی جا رہی ہے“

واضح رہے کہ حال ہی میں پٹنہ پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ شہر میں چھاپے کے دوران اسے پی ایف آئی کی دستاویز ملی ہے، جس کا عنوان ہے ’انڈیا 2047، اسلامی حکومت کی جانب‘

پولیس کے دعویٰ کے مطابق ’اس میں مسلمانوں کے ایک گروہ کی مدد سے اکثریتی برادری کو کچلنے اور بھارت میں اسلام کی شان کو بحال کرنے کی بات کی گئی ہے‘

پٹنہ پولیس کی ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ دستاویز میں اس بات کا بھی ذکر ہے کہ ضرورت پڑنے پر ترکی اور دیگر اسلامی ممالک سے مدد لی جائے گی

اس حوالے سے بات کرتے ہوئے انیس احمد کا کہنا تھا ”نہ تو ہمارے پاس غزوۂ ہند کا کوئی تصور ہے، نہ ہم بھارت کو ایک اسلامی ملک بنانا چاہتے ہیں اور نہ ہی ہندوؤں کا قتل ہمارے ایجنڈے کا حصہ ہے۔ ’انڈیا 1947، لوگوں کو با اختیار بنانا’ اس عنوان سے ایک دستاویز ہے، جسے ‘امپاور انڈیا فاؤنڈیشن’ نے تیار کیا تھا، اسے بھارت کی آزادی کی پچاسویں سالگرہ کے موقع پر ممتاز جج جسٹس راجندر سچر نے دہلی میں ریلیز کیا تھا“

جنوبی بھارت میں شروع ہوئی اور اب بھارت کی تیئیس ریاستوں میں پھیل چکی اِس اسلامی تنظیم کی فنڈنگ اور بیرونی ممالک سے اس کے روابط کے بارے میں بار بار کئی سوالات اٹھائے جاتے رہے ہیں اور پی ایف آئی ان الزامات کی تردید کرتی رہی ہے

دہشت گرد تنظیم کہلائے جانے پر انیس احمد کہتے ہیں، ”دہشت گرد تنظیم ہونے کے لیے دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے ثبوت ہونے چاہئیں۔ پی ایف آئی پر جو الزامات ثابت ہوئے ہیں ان میں سے کسی کا بھی دہشت گردانہ سرگرمی سے کوئی تعلق نہیں ہے“

انیس احمد کا کہنا تھا ”اجمیر میں درگاہ میں دھماکہ ہوا تھا جس میں آر ایس ایس کے سینئر رہنما اندریش کمار کے خلاف تحقیقات ہو رہی تھیں، چارج شیٹ میں نام بھی تھا، مالیگاؤں کیس کی بھی تحقیقات ہوئی، ایسی تنظیموں اور افراد کو دہشت گرد نہیں کہا جاتا لیکن اگر کسی مقامی مجرمانہ سرگرمی میں پی ایف آئی سے وابستہ کسی شخص کا نام سامنے آیا تو دہشت گرد تنظیم کہا جا رہا ہے، یہ تودرست نہیں ہے“

2010 میں، ملیالم پروفیسر ٹی جے جوزف کے ہاتھ کو کلہاڑی سے کاٹ دیا گیا، جن پر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کا الزام تھا۔ بعد میں جن لوگوں کو اس کیس میں عدالت نے سزا سنائی ان میں پی ایف آئی کے لوگ بھی شامل تھے

کچھ سال قبل کیرالہ کے ایرناکولم میں بائیں بازو کے طالب علم رہنما ابھیمنیو کے قتل میں پی ایف آئی کے کئی عہدیداروں کے خلاف چارج شیٹ بھی داخل کی گئی تھی

انیس احمد نے اعتراف کیا کہ پروفیسر جوزف پر حملے میں پی ایف آئی کے کچھ کارکن ملوث تھے لیکن ان کے مطابق یہ مقامی واقعہ تھا، جس کے فوراً بعد پی ایف آئی کی اس وقت کی اعلیٰ قیادت نے دہلی میں ایک پریس کانفرنس کر کے واضح کر دیا تھا کہ تنظیم کا اس واقعے سے کوئی تعلق نہیں ہے

ابھیمنیو قتل کیس کے بارے میں پوچھے جانے پر انہوں نے کہا ‘کیرالہ میں بائیں بازو کے 240 کارکنوں کے قتل میں آر ایس ایس کے لوگوں کا نام لیا جاتا ہے، اسی طرح آر ایس ایس_بی جے پی کے کارکنوں کے قتل میں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے لوگ ملوث ہیں، لیکن ان تنظیموں کو مجرم نہیں کہا جاتا۔ لیکن اگر کسی مقامی معاملے میں بھی پاپولر فرنٹ کا نام آتا ہے تو پوری پی ایف آئی ایک مجرمانہ تنظیم بن جاتی ہے۔ ترنمول کانگریس، بائیں بازو یا دیگر جماعتوں کے ساتھ یہی پیمانہ نہیں اپنایا جاتا۔ ایسا لگتا ہے کہ کسی طرح پی ایف آئی کو مجرم بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ اسے دہشت گرد تنظیم قرار دیا جائے’

فریزر ٹاؤن میں پی ایف آئی کی پبلسٹی برانچ میں سفید قمیض اور چیک والی نہرو جیکٹ پہنے انیس احمد پہلی نظر میں کسی کارپوریٹ ہاؤس کے اہلکار لگ رہے تھے، نہ کہ کسی مسلم تنظم کے جنرل سکریٹری۔ اصل میں گووا سے تعلق رکھنے والے انیس احمد پیشے سے سافٹ ویئر انجینئر ہیں

واضح رہے کہ پی ایف آئی خود کو ایک سماجی تحریک کے طور پر بھی پیش کرتی ہے، اس کی ویب سائٹ یا اشاعتیں کسی خاص کمیونیٹی سے وابستگی نہیں دکھاتی ہیں۔ تنظیم ایک بین المذاہب معاشرے کے بارے میں بات کرتی ہے، جس میں ہر کسی کو آزادی، انصاف اور تحفظ کا حق حاصل ہے

جب پی ایف آئی کے یوتھ جنرل سکریٹری سے پوچھا گیا کہ جیسا کہ وہ ایک ہندو لڑکی کے اپنی پسند کے مسلمان لڑکے سے شادی کرنے کے حق کی حمایت کرتے ہیں، کیا وہ ایک مسلمان لڑکی کی ہندو نوجوان سے شادی کی حمایت کریں گے یا اس کے خلاف کھڑے ہوں گے؟

اس کے جواب میں انہوں نے کہا ”مذہبی آزادی بھارت میں ایک آئینی حق ہے۔ بھارت میں ہر شخص کو اپنی پسند اور مرضی سے کسی بھی مذہب کے لڑکے یا لڑکی سے شادی کرنے، اس کی تبلیغ کرنے اور اس کی تشہیر کرنے کا قانونی حق حاصل ہے۔ اس میں پی ایف آئی کی حمایت یا مخالفت ضروری نہیں ہے۔ ہم نے کبھی بھی کسی کے بھی آئینی حقوق کی کسی بھی طرح سے مخالفت نہیں کی“

گھنٹے بھر کی گفتگو میں بی بی سی کی جانب سے یہ سوال بھی کیا گیا کہ مسلمانوں کے مفادات کی بات کرنے والی تنظیمیں جن میں کیرالہ کی انڈین یونین مسلم لیگ سے لے کر اسد الدین اویسی کی آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین اور اتر پردیش کی ویلفیئر پارٹی شامل ہے لیکن تمام طرح کی سرگرمیوں میں پی ایف آئی کا نام ہی بار بار کیوں آتا ہے

تو انیس احمد نے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا ”اس کی وجہ ہمارے کام کرنے کا انداز ہے۔ ہم جارحانہ نہیں ہیں لیکن ہمارا طریقہ پُرزور ہے۔ اپنے حقوق کے احترام کا مطالبہ کرنے والا مسلم معاشرہ، آر ایس ایس کی حکمت عملی سے مطابقت نہیں رکھتا، وہ ایک محکوم مسلم معاشرہ چاہتے ہیں۔ اس لیے پی ایف آئی کو ختم کرنا اِس حکومت کا اہم ایجنڈا ہے۔ یہ ایک قسم کا طریقہ کار ہے کہ ملک میں کہیں کچھ بھی ہو جائے اس میں پی ایف آئی کا نام ڈال دیا جائے“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close