ڈارک سائیکالوجی

حسان خالد

انسان کے رویوں کو سائنسی بنیادوں پر جانچنے کا علم، نفسیات کہلاتا ہے۔

مختلف طرح کی صورتوں میں انسان شعوری یا غیر شعوری طور پر اچھے یا برے رویوں کا اظہار کرتا ہے۔ کچھ انسانوں میں برے رجحانات کا غلبہ ہوتا ہے: جھوٹ، مکاری، دھوکہ، خود غرضی اور مختلف طریقوں سے اپنا کام نکلوانا (manipulation) وغیرہ۔ مندرجہ بالا منفی رویوں کا سائنسی مطالعہ ’ڈارک سائیکالوجی‘ کہلاتا ہے، جس میں ان رویوں کی وجوہات اور اغراض پر تحقیق کی جاتی ہے۔

’ڈارک سائیکالوجی‘ کا علم وضاحت کرتا ہے کہ خود غرض اور مطلبی لوگ کیوں اور کیسے دوسروں کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں، اور ایسے افراد میں کون سی خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ اس علم کے ذریعے ہمیں ان منفی لوگوں کو پہچاننے میں مدد مل سکتی ہے اور ہم محتاط ہو کر کسی غلطی کے ارتکاب سے بچ سکتے ہیں۔

اس علم کا مثبت استعمال یہ ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے ’ڈارک سائیکالوجی‘ کی مدد سے مجرموں سے معلومات اگلوا لیتے ہیں۔ ماہرینِ نفسیات لوگوں کے خوف، فوبیا وغیرہ دور کرنے کے لیے بسااوقات اس کا سہارا لیتے ہیں۔ تجارتی کمپنیاں اپنی مصنوعات کی زیادہ فروخت کے لیے صارفین کی نفسیات پر اثرانداز ہونے کی کوشش کرتی ہیں۔ چنانچہ لوگوں کو اس علم سے آگاہی ہو تو وہ کسی ممکنہ صورتحال کا بہتر تجزیہ کرتے ہوئے اچھا ردعمل دے سکتے ہیں۔

2002ء میں ماہرینِ نفسیات ڈیلرائے پالھس (Delroy Paulhus) اور کیون ولیمز (Kevin Williams) نے ’دی ڈارک ٹرائیڈ‘ (تاریک تکون) کے نام سے ایک اصطلاح متعارف کرائی، جس میں تاریک نفسیات (dark Psychology) کے حامل افراد میں موجود تین خامیوں کی نشاندہی کی گئی: نرگسیت، میکاولی ازم اور سائیکوپیتھی۔

نرگسیت سے یہاں مراد ہے کہ اپنی ذات کو بہت اہم سمجھنا، دوسروں سے بہت زیادہ تعریف کی توقع رکھنا، جبکہ خود دوسروں کی مشکلات اور جذبات نہ سمجھتے ہوئے ان سے بے حسی کا رویہ اختیار کرنا۔

’میکاولی ازم‘ کا مطلب دھوکہ دہی اور دوسروں کو اپنے مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کرنا ہے۔

’سائیکو پیتھی‘ ایک دماغی خلل ہے، ایسے افراد میں دوسروں سے ہمدردی کا جذبہ اور غلطی کی صورت میں احساسِ ندامت مفقود ہوتا ہے۔ یہ غیر سماجی رویوں کے حامل ہوتے ہیں، دوسروں کے حقوق کی پروا نہیں کرتے اور کسی صورتحال میں نتیجے کے متعلق سوچے بغیر فوری ردعمل دیتے ہیں۔

’ڈارک سائیکالوجی‘ پر عمل پیرا افراد اسے ذاتی اور پیشہ ورانہ مفاد یا اپنی برتر حیثیت ثابت کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ رومانوی تعلقات میں بھی اس کا استعمال عام ہے۔ علاوہ ازیں کاروبار، جنگوں اور سیاست میں بھی ان نفسیاتی حربوں کو برتا جاتا ہے۔ ’ڈارک سائیکالوجی‘ میں مقاصد کے حصول کی خاطر کئی حربے (techniques) استعمال کیے جاتے ہیں، جن میں سے چند ایک یہ ہیں:

(1) پیار کے وفور سے اعتماد کا حصول:
انگریزی میں ایک اصطلاح ’لو بومبنگ‘ (Love Bombing) یعنی ’محبت کی بمباری‘ استعمال کی جاتی ہے۔ یہ دراصل ایک نفسیاتی حربہ ہے، جس میں کوئی شخص اپنے مفاد کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے بہت شدت سے محبت کا اظہار کرتا ہے۔

اگرچہ رومانی تعلقات میں اس کا استعمال عام ہے، لیکن عام دوستیوں، خاندانی تعلقات اور دفتری ماحول میں بھی اس کا استعمال کیا جاتا ہے۔

ایسا شخص آغاز میں توجہ حاصل کرنے اور تعلق سازی کے لیے خوشامد، مہنگے تحائف وغیرہ کا استعمال کرتا ہے، اور اس تعلق کو پروان چڑھانے کے لیے وقت صَرف کرتا ہے۔ جب اسے ایک سطح کا اعتماد اور قربت حاصل ہو جائے تو اپنی برتری قائم کرنے کے لیے وہ تنقید اور جذباتی کنٹرول جیسے حربوں کا استعمال کرنے لگتا ہے۔

(2) حد درجہ دروغ گوئی:
جھوٹ بولنا گناہ کبیرہ ہے، قرآن کریم میں جھوٹوں پر اللہ کی لعنت کی گئی ہے۔ حد درجہ دروغ گوئی سے مراد یہ ہے کہ جھوٹ اس شخص کی فطرت ثانیہ بن جائے، اور وہ اسے ڈھٹائی سے جان بوجھ کر دوسرے شخص کا نفسیاتی استحصال کرنے یا اسے نیچا دکھانے کے لیے استعمال کرے۔ علمِ نفسیات میں اس کیفیت کے لیے انگریزی کی ایک اصطلاح ’’گیس لائیٹنگ‘‘ Gaslighting استعمال کی جاتی ہے۔

اس حربے میں مکار اور دھوکے باز انسان طویل عرصے تک اس قدر دروغ گوئی سے کام لیتا ہے کہ متاثرہ شخص کو خود اپنی سچائی پر شک ہونے لگتا ہے اور اس کا اپنی ذات پر یقین ڈگمگانے لگتا ہے، حتٰی کہ آگے چل کر متاثرہ فرد مکمل طور پر اپنے استحصال کرنے والے شخص کے رحم و کرم پر ہوتا ہے۔

اس کی مثالیں انفرادی اور اجتماعی دونوں سطح پر دیکھی جا سکتی ہیں۔ اس ہتھکنڈے سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ اپنی ذات کو پہچانیں، پُراعتماد اور جذباتی طور پر مضبوط بنیں۔ نیز جھوٹے اور نفسیاتی اذیت کا باعث بننے والے افراد یا گروہوں سے کنارہ کشی اختیار کریں۔

(3) خاموش جارحیت:

تاریک نفسیات پر عمل پیرا فرد اس نفسیاتی حربے میں بظاہر اچھے رویے کا اظہار کرتا ہے لیکن اس کے حقیقی جذبات مختلف ہوتے ہیں۔

ایسا شخص اپنے منفی جذبات کا اظہار بالواسطہ طریقے سے کرتا ہے۔ نفسیات کی زبان میں اس طرز عمل کو Passive-aggressive behavior کا نام دیا گیا ہے۔

نفسیاتی استحصال کے اس طریقے کو پہچاننا مشکل ہے، کیوں کہ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ دوسرے کا رویہ معمول کے مطابق ہے۔ ایسا شخص یوں ظاہر کرتا ہے، جیسے اسے آپ کی شخصیت یا فیصلے میں کوئی خاص دلچسپی نہیں، لیکن وہ خاموشی اور باریک بینی سے آپ کے ردعمل کا جائزہ لے رہا ہوتا ہے۔

بسا اوقات آپ کو ردعمل پر اکسانے کے لیے وہ مختلف حربوں کا سہارا لیتا ہے۔ چنانچہ آپ کو کبھی شک ہو کہ کوئی آپ کا نفسیاتی استحصال کرنے کی کوشش کر رہا ہے، آپ اس احساس کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے حفاظتی اقدامات کریں۔ تعلقات کی حدود مقرر کریں، قریبی اور قابل بھروسہ افراد سے مدد لیں۔ کسی کو اجازت نہ دیں کہ وہ آپ کو نفسیاتی طور پر کنٹرول کرنے کی کوشش کرے۔

(4) جذباتی بلیک میلنگ:

جذباتی یا ایموشنل بلیک میلنگ کی اصطلاح عام فہم ہے۔ اس میں قریبی رشتے دار، دوست، آپ کو جذباتی طور پر کمزور کرتے ہوئے مجبور کرتے ہیں کہ آپ کسی معاملے میں ان کی خوشی کی خاطر، ان کی مرضی کے مطابق فیصلہ کریں یا ان کے موقف کو اپنائیں۔ بصورت دیگر وہ آپ سے پیار یا مہربانی کا رویہ ترک کر دیں گے۔

جذباتی بلیک میلنگ میں خوف یا احساسِ ندامت میں مبتلا کرنے کے ہتھکنڈے استعمال کیے جاتے ہیں۔ بات نہ ماننے کی صورت میں تعلق کے خراب ہونے اور جذباتی ناآسودگی کا امکان ہوتا ہے۔ محبت یا مہربانی کا رویہ زیادہ عرصہ کے لیے ترک کر دیا جائے تو اس سے ہونے والا جذباتی نقصان شخصیت پر اثر چھوڑتا ہے۔

اب یہ سوال ذہن میں آتا ہے کہ مندرجہ بالا منفی رویوں سے بچاؤ کیسے ممکن ہے؟ آگاہی، تعلیم، تعلقات کی حدود مقرر کرنے سے آپ ان منفی رویوں کے اثرات سے بچ سکتے ہیں۔ یا کچھ جذباتی نقصان کی صورت میں پیشہ ورانہ مدد کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔

آگاہی اور تعلیم سے مراد یہ ہے کہ آپ کو علم ہونا چاہیے کہ تاریک نفسیات کے حامل افراد میں کون سی منفی خصوصیات پائی جاتی ہیں اور وہ اپنے مقاصد کے حصول کی خاطر کن نفسیاتی حربوں کا استعمال کرتے ہیں۔ ’حدود متعین کرنا‘ کا مطلب ہے کہ ذاتی یا پیشہ ورانہ تعلقات میں واضح اور صحت مندانہ حدود مقرر کریں، دوست احباب کو علم ہونا چاہیے کہ آپ کو کس طرح کا رویہ اور باتیں پسند نہیں۔ نامعقول مطالبوں کا صاف الفاظ میں انکار کر کے آپ واضح پیغام دے سکتے ہیں کہ آپ کو کنٹرول کرنے کی کوشش نہ کی جائے۔

زندگی میں کسی مرحلے پر احساس ہو کہ آپ تاریک نفسیات کا شکار بن چکے ہیں تو ماہر نفسیات سے رجوع کر کے، اس کی پیشہ ورانہ رہنمائی میں خود کو اس جذباتی نقصان سے باہر نکالیں۔

ایکسپریس نیوز
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close