

سنہ 1937 میں کرسمس کے موقع پر بلیک اینڈ وائٹ کیمرے سے کھینچی گئی درج بالا تصویر بے حس و حرکت پڑے دو تیندووں، ان کے انگریز شکاری مسٹر جی گروسین بیچر اور اس مہم میں مدد کرنے والے مقامی شہریوں کی منظر کشی کر رہی ہے۔
ماحول کی بقا کے لیے کام کرنے والے ادارے ڈبلیو ڈبلیو ایف کے پاکستان میں تکنیکی مشیرمحمد معظم خان سنہ 1937 کے جرنل آف سندھ نیچرل ہسٹری سوسائٹی میں شائع ہونے والی اس تصویر اور اس کے ساتھ گروسین بیچر کی تحریر کی نہ صرف تصدیق کرتے ہیں بلکہ ان کا ماننا ہے کہ ساٹھ کی دہائی تک کراچی کے مغربی مضافات، مقامی اور انگریز شکاریوں کے لیے ’لیپرڈ ہنٹنگ‘ کا پسندیدہ مقام تھے۔
اس حوالے سے معظم خان کہتے ہیں کہ یہ تصویر جس برطانوی افسر کی ہے وہ چالیس کی دہائی میں کراچی میں قائم ’میسرز اینڈ سپنرز‘ نامی کمپنی میں مینیجر کے عہدے پر فائز تھے۔
گروسین بیچر نے کرسمس کے دن کی مناسبت سے لِکھا کہ ’میرے پاس چھٹی والے دن کرنے کو کچھ کام نہیں تھا، فیملی دوسرے دیس میں تھی اور میں سخت بور ہورہا تھا، لہذا شکار کھیلنے کا فیصلہ کیا۔ میں اپنی رہائش گاہ سے نکلا اور کراچی کی حدود میں شامل بند مراد خان کے علاقے کا رخ کیا۔‘ (آج کے زمانے میں حکیم محمد سعید شہید کی ہمدرد یونیورسٹی اس علاقے کی وجہ شہرت ہے)۔
’میں نے وہاں مقامی لوگوں کی مدد سے اپنی بارہ بور کی بندوق سے جلد ہی ایک نہیں بلکہ دو تیندوے شکار کر لیے۔ یہ بہت کمال کا دن تھا، کرسمس کی یہ شام ہمیشہ میرے شکار کے ناقابلِ فراموش تجربات میں شامل رہے گی۔ دو تیندوؤں کو شکار کرتے دیکھنا ایک ایسا منظر تھا جو کبھی نہیں بھلایا جا سکتا۔‘
کراچی کے معروف ماہر امراض چشم شکاری

24 اپریل 1965 کو روزنامہ جنگ کراچی میں چھپنے والی اس تصویر میں کراچی سے تعلق رکھنے والے معروف ماہر امراض چشم ڈاکٹر ایچ ایم رضوی اپنے شکار کردہ تیندوے کے ساتھ نظر آ رہے ہیں۔
یہ تیندوا انھوں نے تصویر شائع ہونے سے ایک ہفتے پہلے شہر سے تقریباً 40 میل کے فاصلے پر حب ندی کے نزدیک شکار کیا تھا۔
سنہ 1977 میں چھپنے والی کتاب ’پاکستان کے ممالیہ‘ کے مصنف ڈاکٹر تھامس جونز رابرٹس نے بھی اس واقعے کی تصدیق کی۔
یہ وہی ڈاکٹر ایس ایم ایچ رضوی ہیں جو مشہور ماہر امراض چشم ہونے کے علاوہ ماحولیاتی تحفظ کے حوالے سے بھی سرگرم تھے۔
ڈاکٹر ایس ایم ایچ رضوی کے اس وقت کے مغربی پاکستان کے گورنر لیفٹیننٹ جنرل عتیق الرحمن سے خاندانی تعلقات تھے۔ انھوں نے کراچی میں سفاری پارک کے قیام کے لیے جگہ مختص کرنے پر اس وقت کے حکام کو قائل کیا جو جنگلی حیات کے ماہرین کے نزدیک ایک قابل قدر اور تاریخی کارنامہ ہے۔
جب کراچی سے آوارہ کتے پراسرار طور پر غائب ہونے لگے

1943 میں جرنل آف بومبے نیچرل ہسٹری سوسائٹی میں چھپنے والے ایک مقالے کے مطابق 1939 کے اوائل میں، ابراہیم حیدری میں، جو کراچی کے جنوب مشرق میں تقریباً نو میل کے فاصلے پر ایک بڑی ماہی گیر بستی ہے، آوارہ کتے پراسرار طور پر غائب ہونے لگے۔
گاؤں والوں کا خیال تھا کہ اِس کا ذمہ دار کوئی جانور ہے، چنانچہ انھوں نے تیاری کے ساتھ پنجوں کے نشانات کا پیچھا کیا اور ریڑھی کے قریب ایک غار تک جا پہنچے۔ انھیں لگا کہ وہ لگڑبگڑ کے ٹھکانے پر پہنچ گئے ہیں۔
مقالہ میں نام تک درج ہے کہ اُس وقت ایک ماہی گیر سُلیمان نے رضاکارانہ طور پر غار میں داخل ہونے کی پیشکش کی۔‘
’وہ ایک لالٹین اور ایک رسی کے ساتھ اندر گیا، جو سندھ میں لگڑبگڑ کو زندہ پکڑنے کے لیے عام طریقہ کار تھا لیکن جیسے ہی وہ اندر پہنچا، وہاں محصور خونخوار تیندوے نے اس پر حملہ کر دیا۔ سلیمان کو زخمی حالت میں ہسپتال لے جایا گیا مگر زخم خراب ہو گئے اور زہر پھیلنے کے باعث وہ چل بسا۔‘

اس واقعے سے پورے علاقے میں سنسنی پھیل گئی، تیندوے کے منہ کو انسانی خون لگ چکا تھا اور ماہی گیر پریشان تھے کہ کتّوں کے بعد اگلا نوالہ وہ خود یا ان کے بچے بھی ہوسکتے ہیں، لہذا انھوں نے مل کر ماہی گیری میں استعمال ہونے والے جال جمع کیے اور غار کے منہ پر باندھ دیے۔
اس دوران ملیر پولیس اسٹیشن کو، جو وہاں سے تقریباً چھ میل دور تھا، اطلاع دی گئی۔ جب پولیس وہاں پہنچی تو ماہی گیروں اور بڑی تعداد میں مقامی افراد نے، جو بندوقوں، بھالوں اور لاٹھیوں سے لیس تھے، تیندوے کو غار سے باہر نکالا اور اتنا مارا گیا کہ وہ تقریباً چیتھڑے چیتھڑے ہو گیا۔ غار کے اندر سے پرانی ہڈیوں کے ساتھ ساتھ ایک تازہ ہلاک شدہ کتے کی باقیات بھی ملیں۔
اُس زمانے کے سندھ ڈسٹرکٹ گزٹیئرز کے مطابق سنہ 1896 سے 1915 کے درمیان سندھ میں 21 تیندوے مارے گئے، جن میں سے صرف دو کے علاوہ باقی تمام کراچی ضلع میں شکار کیے گئے، جو اس علاقے میں تیندوے کی کثرت کی نشاندہی کرتا ہے۔
سنہ 1920 کے بعد سے پب پہاڑی سلسلے (لسبیلہ میں کراچی سے تقریباً 30 میل دور) میں بھی کئی تیندوے شکار کیے گئے۔
جرنل آف بمبئی نیچرل ہسٹری سوسائٹی کے مطابق 1939 ہی میں ایک بالغ نر بلیک پینتھر ریڑھی گوٹھ کے قریب شکار کیا گیا، جو کراچی کے جنوب مشرق میں تقریباً 18 میل کے فاصلے پر واقع ایک ساحلی ماہی گیر گاؤں ہے۔
اس علاقے میں سیاہ پینتھر کا پایا جانا حیران کن تھا کیونکہ یہاں کے ماحول میں میلانزم (کالے رنگ کی جینیاتی خصوصیت) کے فروغ کے لیے کوئی سازگار حالات نہیں تھے۔ لہٰذا یہ ایک نایاب اور غیر معمولی واقعہ تھا۔

تیندووں کی شہری علاقوں میں آنے کی وجہ گِدھوں کی تعداد میں کمی
گزشتہ سال جنوری میں ایک نر تیندوے کو کیرتھر پہاڑی سلسلے کے ایک گاؤں بچل سونھیرو میں گولی مار کر ہلاک کیا گیا تھا۔
یہ گاؤں ایم نائن موٹروے سے 70 کلومیٹر دور ہے۔ کیرتھر نیشنل پارک کراچی، جام شورو، دادو اور بلوچستان کے حب کے پہاڑی علاقوں پر پھیلا ہوا کیرتھر پہاڑی سلسلے پر مشتمل ہے جو 3,087 مربع کلومیٹروں پر محیط ہے۔
ہنگول نیشنل پارک کے بعد یہ پاکستان کا دوسرا بڑا قومی پارک ہے۔ اس علاقے میں انسانی آبادی محدود ہے اور بچل سونھیرو جیسے چھوٹے چھوٹے گاؤں ہیں جبکہ روڈ نیٹ ورک بھی دستیاب نہیں۔

محکمۂ جنگلی حیات کے چیف کنزرویٹر جاوید مہر کے بقول ’ڈاکٹر رضوی کے بعد کیرتھر میں تیندوے کے شکار کا یہ دوسرا واقعہ ہے جبکہ پچھلے برسوں میں ریکارڈ پر ایسا کوئی اور واقعہ نہیں۔‘
دوسری طرف معظم خان نے خدشہ ظاہر کیا کہ کیرتھر نیشنل پارک، دوریجی اور دیگر ملحقہ علاقوں سے تیندوے شہری آبادی کی جانب رخ کر سکتے ہیں۔
’آپ انڈین ریاستوں اتر پردیش اور راجھستان کی مثال اٹھا کر دیکھ لیجیے، جہاں آئے روز کسی نہ کسی جنگلی حیوان کا آبادی والے علاقوں میں آ کر دہشت مچانے کا واقعہ میڈیا پر رپورٹ ہوتا نظر آ رہا ہے، کتّے دراصل تیندووں کی مرغوب ترین غذا ہیں اور اگر اُن کا بس چلے تو وہ گھر کے پنجروں میں قید کتّوں کو بھی کھینچ کر اپنا نوالا بنا لیں۔‘
ماہرین کا ماننا ہے کہ تیندووں کے شہری علاقوں میں رخ کرنے کی ایک بڑی وجہ پاکستان میں گِدھوں کی تعداد میں تیزی سے کمی ہے۔
معظم خان اس بارے میں کہتے ہیں کہ ’گِدھوں کی تعداد میں کمی کی وجہ سے ایکو سسٹم میں گڑبڑ پیدا ہوئی اور آوارہ کتوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا گیا اور چونکہ کتاّ تیندوے کی پسندیدہ غذا ہے اس لیے شہری علاقوں میں اُن کی بڑھتی تعداد کے پیشِ نظر تیندووں کا اس جانب رخ کرنا فطری ہے۔‘
بشکریہ بی بی سی اردو و مصنف