ڈی این اے نے کرسٹوفر کولمبس کے بارے میں حیران کن انکشاف کیا ہے!

ویب ڈیسک

تاریخ کے پردے پر ایک بادبانی جہاز اُبھرتا ہے۔ ہوا میں صلیب کا پرچم لہرا رہا ہے، اور کرسٹوفر کولمبس کے چہرے پر اُس شخص کی بے یقینی جھلک رہی ہے جسے معلوم نہیں کہ وہ غلط سمت جا کر بھی دنیا کی سمت بدل دے گا۔

1492 کا وہ لمحہ جب کولمبس کی نگاہ کیریبیئن کے نیلے پانیوں سے جزیرے کے سرسبز کنارے پر پڑی، یورپی دنیا کے لیے ایک ’نئی دنیا‘ کا دروازہ کھل گیا۔ لیکن… کیا واقعی یہی وہ پہلا قدم تھا جو انسان نے امریکہ کی زمین پر رکھا؟ شاید نہیں۔

کہا جاتا ہے کہ کولمبس سے پانچ سو برس پہلے، برف میں لپٹے ناروے کے ساحل سے لیف ایرکسن نامی ملاح ایک لمبے سفر پر نکلا تھا۔ کینیڈا کے مقام نیو فاؤنڈ لینڈ میں ’وین لینڈ‘ کے نام سے ایک بستی کی بنیاد رکھی، جہاں آج بھی وائی کنگ دور کی باقیات مٹی کے نیچے سو رہی ہیں۔

یورپ نے اسے بھلا دیا، مگر تاریخ نے نہیں۔

ایک اور نظریہ دوسرے امکان پر بات کرتا ہے، جس کے مطابق چین کے عظیم بحری جہازوں کے بیڑے، جن کی کمان ژینگ ہی کے ہاتھ میں تھی، افریقہ تک پہنچے، تو کچھ مؤرخین کا دعویٰ ہے کہ وہ امریکہ بھی جا پہنچے۔
کتابیں کہتی ہیں ”1421 میں چین نے امریکہ دریافت کیا“ … مگر ثبوت؟ وہ دھند میں لپٹے ہوئے ہیں، جیسے ژینگ ہی کا راستہ۔

تیسری بازگشت کے مطابق کچھ محققین کہتے ہیں کولمبس کی اصل شناخت یہودی یا مسلمان نژاد ہسپانوی کی تھی۔ اس کی وصیت کے جملے، خطوط میں عربی اندازِ تحریر اور سوانحی خلاء یہ سوال اُٹھاتے ہیں: کیا کولمبس واقعی اٹلی کے جینوا کا بیٹا تھا؟ یا وہ اسپین میں مذہبی ظلم سے بچ نکلنے والا کوئی پوشیدہ مسافر تھا؟

اور سب سے اہم سوال یہ کہ:
جس زمین پر لاکھوں مقامی قبائل صدیوں سے آباد ہوں، جہاں زبانیں، روایات، اور تہذیبیں سانس لیتی ہوں،
کیا اُس زمین کو دریافت کہنا، خود ایک نوآبادیاتی مغالطہ نہیں؟

برف، بادبانی جہاز، نقشے، اور خواب۔۔ سب نے کسی نہ کسی طور امریکہ کو ’دریافت‘ کیا،
مگر جو کہانی تاریخ نے ہمیں سنائی، اُس میں فاتح کا جھنڈا تو ہے، مگر مقامی انسانوں کی آواز کہیں نہیں۔

کولمبس ایک علامت ہے، جرات کی، غلطی کی، اور ایک ایسے دور کی جو اپنی ہی دریافتوں سے حیران بھی تھا اور بے رحم بھی۔ مگر حقیقت ہمیشہ ایک چہرہ نہیں رکھتی۔ امریکہ کی دریافت، شاید ایک کہانی نہیں… کئی کہانیوں کا سنگم ہے۔

مختلف نظریات کی روشنی میں یہ تو اپنی جگہ ایک معمہ ہے ہی کہ امریکہ اصل میں کس نے ’دریافت‘ کیا تھا،
لیکن ایک معمہ یہ بھی ہے کہ اس حوالے سے سب سے معروف نام کرسٹوفر کولمبس اصل میں تھا کون؟

22 فروری 1498 کو، تقریباً پینتالیس برس کے عمر رسیدہ کرسٹوفر کولمبس نے تحریری طور پر یہ وصیت کی کہ اٹلی کے بندرگاہی شہر جنوآ Genoa میں واقع اس کی جائیداد اس کے خاندان کے لیے محفوظ رکھی جائے، ”کیونکہ میں وہیں سے آیا ہوں اور وہیں پیدا ہوا تھا۔“

اگرچہ زیادہ تر مؤرخین اس دستاویز کو مشہور مہم جو کی جائے پیدائش کا ایک واضح ثبوت مانتے ہیں، لیکن کچھ محققین نے اس کی صداقت پر سوال اٹھایا ہے اور خیال ظاہر کیا ہے کہ شاید اس کے پیچھے کوئی اور کہانی چھپی ہو۔

گزشتہ سال، اسپین کی یونیورسٹی آف غرناطہ سے تعلق رکھنے والے فرانزک سائنسدان خوسے انتونیو لورینتے کی سربراہی میں کی گئی کئی دہائیوں پر محیط ایک تحقیق نے اس دعوے کی حمایت کی کہ کولمبس ممکنہ طور پر اطالوی النسل نہیں تھا، بلکہ وہ دراصل اسپین میں پیدا ہوا تھا اور اس کے والدین کا تعلق یہودی نسل سے تھا۔

یہ انکشاف اکتوبر میں ایک خصوصی پروگرام کے دوران کیا گیا جو اسپین میں کولمبس کی 12 اکتوبر 1492 کو نئی دنیا (امریکہ) میں آمد کی یاد میں نشر کیا گیا۔

تاہم یہ ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ میڈیا کے ذریعے پیش کی جانے والی سائنس کو احتیاط سے دیکھنا چاہیے، خاص طور پر جب اس پر کوئی نظرثانی شدہ سائنسی اشاعت موجود نہ ہو۔

اسپین کے نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ٹاکسی کولوجی اینڈ فرانزک سائنسز کے سابق ڈائریکٹر، انتونیو الونسو نے ہسپانوی خبر رساں ادارے ال پائیس سے گفتگو کرتے ہوئے کہا: ”بدقسمتی سے سائنسی نقطۂ نظر سے ہم اس ڈاکیومنٹری کا جائزہ نہیں لے سکتے کیونکہ اس میں کیے گئے تجزیے کے کوئی اعداد و شمار پیش نہیں کیے گئے۔“

ان کا مزید کہنا تھا ”میرا نتیجہ یہ ہے کہ ڈاکیومنٹری میں کولمبس کے ڈی این اے کو کبھی دکھایا ہی نہیں گیا، اور بطور سائنسدان ہم نہیں جانتے کہ اصل میں کس قسم کا تجزیہ کیا گیا۔“

اس کے باوجود، تاریخی دستاویزات کو اب تیزی سے فرانزک حیاتیاتی تجزیوں کے ذریعے چیلنج بھی کیا جا رہا ہے اور تقویت بھی دی جا رہی ہے، جس سے یہ امکان پیدا ہوتا ہے کہ خود کولمبس کا ڈی این اے اس کے خاندانی پسِ منظر کے بارے میں اہم معلومات فراہم کر سکتا ہے۔

بالغ عمر میں لکھی گئی دستاویزات کی بنیاد پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ مغربی دنیا میں کرسٹوفر کولمبس کے نام سے مشہور یہ شخص، اصل میں ’کرسٹوفورو کولومبو‘ کے نام سے جانا جاتا تھا اور وہ اگست کے آخر سے اکتوبر کے آخر کے درمیان 1451 میں جنوآ میں پیدا ہوا تھا، جو اٹلی کے شمال مغربی خطے لیگوریا کا مصروف دارالحکومت ہے۔

یہ صرف بعد کی بات ہے، جب کولمبس اپنی بیس کی دہائی میں ایک نوجوان تھا، کہ وہ مغرب کی سمت پرتگال کے شہر لزبن پہنچا۔ اس کا مقصد ایسے مالدار سرپرستوں کی تلاش تھا جو اس کے دلیرانہ منصوبے، مشرق تک پہنچنے کے لیے مکمل الٹی سمت میں جانے کے شارٹ کٹ، کے لیے مالی معاونت فراہم کریں۔

اگرچہ زیادہ تر مؤرخین عدالت کے ان دستاویزات کو درست تسلیم کرتے ہیں جن کے مطابق کولمبس کی جائے پیدائش جنوآ ہے، لیکن ایک متبادل نسب یا ورثے کی قیاس آرائیاں کئی دہائیوں سے گردش میں ہیں۔

ایک پائیدار افواہ یہ ہے کہ کولمبس خفیہ طور پر یہودی تھا، جو اسپین میں ایک ایسے دور میں پیدا ہوا تھا جب مذہبی انتہا پسندی اور نسلی صفائی اپنے عروج پر تھی۔ اس دعوے کے حامی اس کی وصیت میں موجود غیرمعمولی نکات اور اس کے خطوط کی زبان و بیان کی مخصوص ساخت کی تشریحات کو بطور ثبوت پیش کرتے ہیں۔

اب ایسا لگتا ہے کہ خود اس کا جینیاتی مواد (ڈی این اے) اس بحث میں ایک نیا رخ دے سکتا ہے۔

لورینتے اور ان کے محققین کی ٹیم نے اس خصوصی ٹیلی وژن پروگرام میں دعویٰ کیا کہ کولمبس کے بیٹے فرڈیننڈ اور بھائی ڈیئیگو کی باقیات سے حاصل کیے گئے وائی کروموسوم اور مائٹوکونڈریل ڈی این اے کے تجزیے کے نتائج اسپینی یا سفاردی یہودی نسل سے مطابقت رکھتے ہیں۔

یقیناً، یہ تحقیق جنوآ کو بطور جائے پیدائش مکمل طور پر مسترد نہیں کرتی، اور نہ ہی یورپ میں کسی ایک مخصوص مقام کو حتمی طور پر طے کرتی ہے۔

کہا جاتا ہے کہ پندرہویں صدی کے اختتام پر، جب کولمبس نے اپنا یادگار سفر کیا، اسپین سے جلا وطن کیے گئے یہودی بڑی تعداد میں اٹلی کے شہروں میں پناہ کی تلاش میں آئے، جن میں جنوآ بھی شامل تھا، اگرچہ بہت کم کو وہاں مستقل رہائش مل سکی۔

لیکن اگر لورینتے کی تحقیق کو درست مانا جائے، تو کولمبس کا اطالوی نسب ثابت کرنا مزید مشکل ہو جاتا ہے، اور یہ سوال جنم لیتا ہے کہ اگر وہ واقعی سفاردی یہودی نسل سے تھا، تو وہ 1450 کی دہائی میں جنوآ میں کیسے پیدا ہوا؟

اگر ان نتائج کو وسیع پیمانے پر قبولیت حاصل کرنی ہے تو ان کا باریک بینی سے تجزیہ کیا جانا ضروری ہے یا بہتر یہ ہوگا کہ انہیں مکمل تفصیل کے ساتھ دوبارہ دہرایا جائے تاکہ نتائج کی تصدیق ہو سکے۔

تاہم، ایک فرد کی کہانی صرف اس کے جینیاتی ورثے تک محدود نہیں ہوتی—یہ سوال باقی رہتا ہے کہ ایک اقلیت کا فرد کس طرح اسپین کی توسیع پسندی کا علامتی چہرہ بن گیا۔

فی الحال کولمبس کی کہانی وہی ہے جو صدیوں سے بیان کی جا رہی ہے: ایک اطالوی ملاح، جس پر اسپین کی شاہی نگاہ پڑی، اور جس نے اپنی مہمات کے ذریعے تاریخ پر ایک ایسا نشان چھوڑا جسے بعض سراہتے ہیں اور بعض ملامت کا نشانہ بناتے ہیں، یہ سب کچھ اس کے اُس ’سمندر کنارے عظیم اور طاقتور شہر‘ جنوآ سے بہت دور پیش آیا، جسے وہ اپنا گھر کہتا تھا۔

اس فیچر کے لیے سائنس الرٹ پر شائع مائیک مکریے لے آرٹیکل سے مدد لی گئی ہے۔ امر گل

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button