
کیا زندگی کے بیج زمین پر ہی پیدا ہوئے تھے، یا وہ کسی اور سیاروی جسم سے یہاں پہنچے؟ یہ سوال ہمیشہ سے سائنسدانوں کو متجسس رکھتا آیا ہے۔
یہ تو ہم جانتے ہی ہیں کہ زمین پر زندگی کی ان گنت اقسام ہیں جو نباتات اور حیوانات کی شکل میں اپنا وجود رکھتی ہیں۔ کرہ ارض ہمیشہ سے ایسا نہیں تھا، اس کا آغاز ایک ویران سیارے کے طور ہوا۔
ایک نئی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ زندگی کا جنم زمین پر نہیں ہوا بلکہ یہ کہیں باہر سے آئی تھی اور پھلنے پھولنے کے لیے اسے یہاں ایک سازگار ماحول ملا۔
حالیہ تحقیق میں، ناسا کے اوسائرس ریکس OSIRIS-REx مشن کے ذریعے سیارچے بینو (Bennu) سے حاصل کردہ نمونوں میں وہ بنیادی کیمیائی اجزا دریافت ہوئے ہیں جو زندگی کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ حیران کن طور پر، یہ اجزا زمین کے قدیم نمکین جھیلوں جیسے ماحول میں بنے لگتے ہیں۔ لیکن اگر بینو پر زندگی کے بنیادی اجزا موجود تھے، تو وہاں زندگی کیوں نہ پیدا ہو سکی؟ کیا خلا میں کہیں اور بھی ایسے عناصر موجود ہو سکتے ہیں؟ یہ تحقیق نہ صرف زمین پر زندگی کے ممکنہ ماخذ کو ایک نیا رخ دیتی ہے بلکہ ہمیں یہ سوچنے پر بھی مجبور کرتی ہے کہ شاید ہم کائنات میں تنہا نہیں! آئیے کہانی کے اندر جھانکتے ہیں۔۔
سن 2016 میں ناسا نے ایک خلائی جہاز او سائرس ریکس سورج کے مدار میں گردش کرنے والے ایک سیارچے بینو کی جانب روانہ کیا تھا جس نے 2020 میں وہاں سے مٹی اور چٹان کے کچھ نمونے حاصل کیے، جو زمین پر 2023 میں پہنچے۔
ان نمونوں کا وزن 112 گرام تھا۔یہ مقدار خلا سے زمین پر لائے جانے والے نمونوں میں چاند کے بعد سب سے زیادہ ہے۔
ان نمونوں کے سائنسی تجزیے سے معلوم ہوا کہ ان میں وہ بنیادی اجزا موجود ہیں، جن سے زندگی شروع ہوتی ہے۔
نئی سائنسی تحقیق کے مطابق ان نمونوں میں زندگی کے ابتدائی کیمیائی اجزا پائے جاتے ہیں جو کسی آبی ماحول میں تشکیل پائے—ایسے ہی آبی ماحول میں، جو زمین پر تقریباً چار ارب سال قبل زندگی کے آغاز سے پہلے موجود تھا۔
سائنسی جریدے نیچر میں شائع تحقیق کے مطابق یہ دریافت ہوا کہ ان نمونوں میں نمکین پانی کے آثار موجود ہیں، جو غالباً اس وقت باقی رہ گئے جب ایسا کھارا پانی بخارات بن کر ختم ہوا جو نامیاتی مرکبات کی تشکیل میں مددگار ہو سکتا تھا۔ یہ کیمیائی ساخت سرلز لیک (Searles Lake) سے مشابہہ ہے، جو کیلیفورنیا کے موجاوی صحرا میں ایک قدیم اور خشک جھیل کا کنارہ ہے۔ دوسری تحقیق، جو نیچر ایسٹرونومی میں شائع ہوئی، اس سے بھی زیادہ حیران کن تھی۔ اس میں بتایا گیا کہ بینو کے نمونوں میں ڈی این اے اور آر این اے کے بنیادی اجزا—ایڈینین، گوانین، سائیٹوسین، تھائمین، اور یوراسل—پائے گئے ہیں۔
یہ دریافت اس نظریے کو تقویت دیتی ہے کہ یا تو یہ کیمیائی اجزا زمین اور بینو دونوں پر وجود میں آئے، یا پھر زمین پر زندگی کے آغاز کے لیے ضروری کیمیائی اجزا دیگر اسی نوعیت کے سیارچوں نے مہیا کیے جب اربوں سال قبل وہ زمین سے ٹکرائے۔
ناسا کے سائنس مشن ڈائریکٹوریٹ کے ایسوسی ایٹ ایڈمنسٹریٹر نکی فاکس نے اس تحقیق کے بعد ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ تحقیق کے نتائج اس نظریے کی تائید کرتے ہیں کہ بینو جیسے سیارچے ان ذرائع میں شامل تھے، جنہوں نے زمین پر زندگی کے لیے پانی اور کیمیائی تبدیلیوں کے ٹکڑے فراہم کیے۔ یہ واقعی ایک اہم سائنسی دریافت ہے۔
اس تحقیق کے مرکزی مصنف اور اسمتھ سونین نیشنل میوزیم آف نیچرل ہسٹری میں شہابیوں (Meteorites) کے نگران ٹم میک کوئے نے کہا، ”اب ہم بینو سے جان چکے ہیں کہ زندگی کے ابتدائی اجزا بینو کے اصل سیاروی جسم پر انتہائی دلچسپ اور پیچیدہ انداز میں آپس میں جُڑ رہے تھے۔ وہاں اس قسم کا ماحول موجود تھا جو زندگی کی بنیاد کے لیے ساز گار تھا۔ ہم نے زندگی کے سفر میں ایک نیا قدم دریافت کر لیا ہے۔”
سائنس دانوں کے مطابق زندگی کے آغاز کے لیے جن چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے ان میں پانی، کیمیائی تبدیلی کے لیے سازگار اجزا اور توانائی شامل ہیں۔ یہ چیزیں بینو پر موجود تھیں ۔
بینو: بیک وقت ایک قدیم اور نیا سیارچہ
بینو سورج کے گرد گردش کرنے والا ایک سیارچہ (asteroid) ہے جو بیک وقت قدیم اور نیا ہے اور اپنی گردش کے دوران زمین کے قریب سے بھی گزرتا ہے۔ اپنی ساخت کی وجہ سے وہ ایک طویل عرصے سے سائنس دانوں کی توجہ کا مرکز ہے۔
فلکیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ بینو ساڑھے چار ارب سال پہلے اس وقت وجود میں آیا تھا، جب ہمارا نظام شمسی بن رہا تھا۔ بینو کی ساخت یہ ظاہر کرتی ہے کہ وہ ماضی میں کسی بہت بڑے سیارے کا حصہ تھا جو کسی وجہ سے کروڑوں سال پہلے اس سے ٹوٹ کر الگ ہو گیا تھا۔
سیارچہ بینو پر بظاہر کوئی زندگی موجود نہیں، کیونکہ یہ ایک بےہوا، 1,614 فٹ بلند پتھریلا ٹکڑا ہے جو زمین سے تقریباً 40.2 ملین میل دور سورج کے گرد گردش کر رہا ہے۔ لیکن اب نئی تحقیق نے ایک دلچسپ سوال کھڑا کر دیا ہے کہ اس کا مطلب یہ نہیں کہ بینو اچانک نظام شمسی کی حیاتیاتی لحاظ سے سب سے دلچسپ اشیاء میں سے ایک نہ بن گیا ہو۔
بینو کو زمین پر نمونے لانے کے لیے منتخب کرنے کی کئی وجوہات تھیں۔ سب سے پہلے، یہ ہماری زمین کے قریب تھا، جس کی وجہ سے اس تک پہنچنا نسبتاً آسان تھا۔ دوسرا، اس کی حرکت اتنی سست تھی کہ اس کی سطح کی مٹی خلا میں بکھرنے کے بجائے جمی رہی، جس سے اسے اکٹھا کرنا ممکن ہوا۔ اور تیسرا، بینو میں کاربن کی زیادہ مقدار موجودگی، جو نامیاتی اجزا کی تلاش کے لیے ایک سنہری موقع فراہم کرتی تھی۔
اوسائریس-ریکس (OSIRIS-REx) مشن نے 2016 میں اپنی خلائی پرواز کا آغاز کیا اور 2020 میں بینو پر پہنچا۔ وہاں سے اس نے تقریباً 121.6 گرام مواد جمع کیا،جو ایک صابن کی ٹکیہ کے وزن کے برابر تھا، اور اسے زمین پر واپس بھیجا۔ یہ قیمتی نمونے زمین کی فضا میں داخل ہونے کے بعد پیراشوٹ کے ذریعے یوٹاہ کے صحرا میں محفوظ طریقے سے اترے، جہاں امریکی محکمہ دفاع کے ماہرین نے انہیں بازیافت کیا۔
اس کے بعد، یہ نمونے ناسا کے جانسن اسپیس سینٹر (JSC)، ہیوسٹن پہنچائے گئے، جہاں انہیں نائٹروجن سے بھرے ایئرٹائٹ باکسز میں رکھا گیا تاکہ وہ زمین کے ماحول یا پانی سے آلودہ نہ ہوں۔ کچھ نمونے اسمتھ سونین انسٹیٹیوشن کے سائنسدانوں کو بھی دیے گئے، جنہوں نے جدید الیکٹران مائکروسکوپ کے ذریعے ان کا تجزیہ کیا۔ حیران کن طور پر، اس خردبینی تحقیق نے انکشاف کیا کہ بینو کے اجزا کیمیائی طور پر بہت زرخیز ہیں۔
سب سے بڑی دریافت سوڈیم کاربونیٹ تھی، جو زمین پر عام طور پر خشک، نمکین جھیلوں میں پایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ، سائنسدانوں کو بینو میں فاسفیٹ، سلفائیڈ، کلورائیڈ، اور فلورائیڈ جیسے اجزا بھی ملے، جو بخارات بن جانے والی جھیلوں میں عام ہوتے ہیں۔ بینو کے اصل سیارے میں کوئی فضائی ماحول تو نہیں تھا، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہاں کبھی پانی موجود نہیں تھا۔
پریس کانفرنس میں ٹم میک کوئے نے اس حوالے سے کہا، ”چار ارب پچاس کروڑ سال پہلے، اس قدیم سیارچے کی سطح پر کیچڑ جیسی تہہ موجود تھی، جس کے نیچے پانی کے ننھے ذخائر یا باریک سیال رگیں بہتی ہوں گی۔ انہی دراڑوں میں پانی بخارات میں تبدیل ہوا اور سطح پر اڑ گیا، مگر اس کے پیچھے یہ قیمتی معدنیات باقی رہ گئیں۔“
بینو پر جو ہو رہا ہے، وہ کہیں اور بھی ہو سکتا ہے!
یہ دریافت صرف بینو تک محدود نہیں بلکہ خلا میں زندگی کے ممکنہ آثار کی جانب بھی ایک اہم اشارہ بھی ہے!
بینو پر جو کچھ ہو رہا ہے، وہ شاید خلا میں اور بھی کئی جگہوں پر ہو رہا ہے۔ سیارچوں کے پٹّے (Asteroid Belt) میں سب سے بڑا جسم سیریس (Ceres) ہے، جو برف سے ڈھکا ایک بونا سیارہ ہے۔ اس کا قطر تقریباً 592 میل ہے، اور ناسا کے مطابق اس کا 25 فیصد حصہ پانی پر مشتمل ہے، یعنی یہ خلا میں ایک برفانی دنیا ہے!
اسی طرح، زحل کا چاند انسلیڈس (Enceladus) بھی ایک دلچسپ دنیا ہے۔ اس کا قطر 313 میل ہے، اور اس کی سطح کے نیچے چھپے سمندروں سے وقتاً فوقتاً برفانی چشمے (Icy Geysers) پھوٹتے ہیں، جو زحل کی کشش ثقل کے دباؤ سے پیدا ہوتے ہیں۔ کاسینی (Cassini) خلائی جہاز، جو 2004 سے 2017 تک زحل کے گرد چکر لگاتا رہا، نے ان برفانی پھواروں کا کیمیائی تجزیہ کیا اور اس میں سوڈیم کاربونیٹ دریافت کیا، بالکل وہی معدنیات جو بینو پر ملی تھیں!
ٹم میک کوئے نے اس دریافت کی وضاحت کرتے ہوئے کہا، ”یہ معدنیات صرف بینو کی قدیم تاریخ تک محدود نہیں۔ یہی عناصر آج بھی بیرونی نظامِ شمسی کے برفانی چاندوں پر بن رہے ہیں!“
نیچر ایسٹرونومی (Nature Astronomy) میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق سائنسدانوں کو بینو سے ملنے والے نمونوں میں RNA اور DNA کے پانچ بنیادی اجزا ملے ہیں، جو زندگی کے لیے ضروری ہیں۔ اس کے ساتھ ایک اور حیرت انگیز دریافت امونیا کی وافر مقدار ہے، جو حیاتیاتی کیمیا میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔
ناسا کے محقق ڈینیئل گلیون نے اس دریافت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا، ”ہم نے امونیا کی اتنی زیادہ مقدار دیکھی جو تقریباً 230 پارٹس پر ملین ہے—یہ زمین کی مٹی میں قدرتی طور پر پائے جانے والے امونیا سے 100 گنا زیادہ ہے!“
یہ حیران کن مقدار اس بات کا اشارہ دیتی ہے کہ یہ اجزا نظام شمسی کے سرد اور دور دراز علاقوں میں بنے ہوں گے، جہاں امونیا برف کی شکل میں مستحکم رہ سکتا تھا۔ اس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ RNA اور DNA جیسے حیاتیاتی عمل نظام شمسی کے دوسرے برفانی اجسام پر بھی ممکن ہو سکتے ہیں!
کیا بینو جیسے سیارچوں پر کبھی زندگی پنپ سکتی تھی؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب سائنسدان آنے والے برسوں میں تلاش کریں گے!
بینو پر زندگی کیوں نہ پنپ سکی؟
نئی تحقیقات کے بعد بھی ایک سوال کا جواب نہیں مل سکا: بینو اور اس کے اصل سیاروی جسم پر زندگی کیوں نہ پیدا ہو سکی؟ آخر یہ حیاتیاتی ارتقا کے ابتدائی اجزا پر ہی کیوں رک گئی؟ کیا اس کی وجہ درجہ حرارت تھا؟ یا پھر فضائی ماحول کی عدم موجودگی؟ یا کوئی اور ضروری کیمیائی اجزا کی کمی؟
یہ دو نئی تحقیقیں اس سوال کا جواب نہیں دیتیں، اور فی الحال دے بھی نہیں سکتیں۔
ناسا کے جیسن ڈورکن (Jason Dworkin)، جو اوسائریس ریکس مشن کے پروجیکٹ سائنسدان ہیں، کہتے ہیں، ”ہم خود سے یہ سوال کر سکتے ہیں: اگر بینو کا ماحول اتنا سازگار تھا، اس میں الکلائن معدنیات اور نمکین پانی (Brine) موجود تھا، تو وہاں زندگی کیوں نہ پیدا ہوئی؟ آخر بینو میں وہ کیا چیز نہیں تھی جو زمین پر موجود تھی؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس پر ماہرینِ فلکی حیاتیات (Astrobiologists) کو مستقبل میں غور کرنا ہوگا۔“
مستقبل کے ماہرین فلکی حیاتیات کو یہ موقع ضرور ملے گا، کیونکہ بینو کے نمونوں کا صرف 25 فیصد حصہ حالیہ تحقیق میں استعمال ہوا ہے۔ باقی مواد کو اپالو چاندی مشن (Apollo Lunar Mission) کے نمونوں کی طرح اپنی اصل حالت میں محفوظ رکھا جائے گا تاکہ مستقبل میں مزید تحقیق کی جا سکے۔
جیسن ڈورکن مزید کہتے ہیں، ”شاید آنے والے وقتوں میں ایسے سائنسدان، جو ابھی پیدا بھی نہیں ہوئے، ایسے طریقے استعمال کریں، جو ابھی ایجاد بھی نہیں ہوئے، اور وہ دریافت کریں جو ہم تصور بھی نہیں کر سکتے۔“
بینو سے حاصل کردہ نمونے صرف ایک سائنسی کامیابی نہیں، بلکہ ایک نئے سوال کی بنیاد بھی ہیں: کیا کائنات میں زندگی کے بیج ہر جگہ بکھرے ہوئے ہیں؟ اگر بینو پر وہ تمام بنیادی اجزا موجود تھے جو زندگی کے لیے ضروری سمجھے جاتے ہیں، تو پھر زندگی نے وہاں جڑ کیوں نہ پکڑی؟ کیا زمین کوئی منفرد جگہ ہے، یا پھر کہیں اور بھی یہ کہانی لکھی جا رہی ہے؟ شاید کائنات خود ہم سے یہ کہہ رہی ہے کہ تلاش جاری رکھو، جوابات تمہارے انتظار میں ہیں!
نوٹ: اس فیچر کی تیاری میں اے پی، ناسا، سائنسی جریدے نیچر اور ٹائم میگزین میں شائع آرٹیکلز سے مدد لی گئی سے لی گئی۔ امر گل