
سحر کی گود میں سورج ابھی نیند سے جاگنے کے لیے اپنی آنکھیں مَل رہا تھا۔ فضا میں اذان کی نرم آواز مصری کی ڈلی کی طرح گُھل کر تحلیل ہو رہی تھی۔ پرندے چہچہا کر آہستہ آہستہ اپنے پر تول رہے تھے۔ ’پہوارو‘ کے پہاڑوں پر قائم ایک بڑے ہاؤسنگ پروجیکٹ کی ہوا میں رات کی خنکی کا ایک ٹکڑا اب بھی معلق تھا، جیسے رات کے کسی خاموش لمحے میں دبی کسی مظلوم کی سسکیوں میں لپٹی ہوئی سرد آہ نے کچھ دیر کے لیے وقت کا دامن تھام کر اسے روک لیا ہو۔
جب کرنیں، سورج کے کندھوں پر سوار ہو کر زمین پر اجالا پھیلانے لگیں، تو اکبر گبول اپنی پرانی سائیکل پر سوار، ’ارباب گبول گوٹھ‘ سے نکل کر کاٹھوڑ بازار کی طرف روانہ ہوا۔ پیڈل چلاتے ہوئے اکبر کی پرانی سائیکل کے گِھسے ہوئے ٹائروں سے زیادہ ہوا، اس کے بوڑھے پھیپھڑوں میں بھر جاتی تھی۔ سائیکل کی چَین ذرا سا آگے چل کر اس کی طرح کراہنے لگتی تھی، جیسے یہ بھی اس کی مقبوضہ زمین کی چیخ ہو، اور یاد دلاتی ہو کہ اسے بھی اکبر کے دل کی طرح مرمت کی ضرورت ہے۔ سائیکل کی ہر چیخ پر اکبر کا دل بھی جیسے ایک لمحے کے لیے اردگرد کی خامشی میں سانس لینا بھول جاتا، لیکن وہ کبھی نہ رکتا۔ اس کی سائیکل کی وہ چَین اس کے دل کی دھڑکن کی مانند تھی، جو اب تک پوری طرح ٹوٹی نہیں تھی۔
سائیکل پر سوار حاجی ارباب گبول کا بیٹا اکبر گبول، اپنی زمین کی کوکھ سے جنما وہ شخص تھا، جس کی جڑیں پہوارو کی سنگلاخ زمین میں گہری اتری ہوئی تھیں۔ اس کے ہاتھ کھردرے تھے، کمر جھکی ہوئی، لیکن آنکھوں میں وہ روشنی تھی جو سچ بولنے والوں کو خاموش کرا دیے جانے کے باوجود بھی بجھائی نہیں جا سکتی۔
اکبر گبول، اپنے والد کے نام سے موسوم جس ارباب گبول گوٹھ سے نکلا تھا، یہ وہی گوٹھ تھا جو اب کاغذوں میں بحریہ پیراڈائز کے کسی بلاک کے نمبر والے خانے کا حصہ بن چکا ہے، جیسے کوئی پرانی بستی خواب بن کر کسی خواب فروش کے محل میں قید ہو گئی ہو۔
راستے میں ہر طرف چمکتے اشتہارات کے بل بورڈز تھے، جنت نظیر وادی میں واقع پیراڈائز میں خوابوں کا گھر۔۔ وقار اور عبادت کا امتزاج۔۔۔ گرینڈ مسجد۔۔۔۔
اکبر ان چمکتے بورڈز کو دیکھتا ضرور تھا، مگر اس کے چہرے پر نہ کوئی فخر ابھرتا، نہ آنکھوں میں حیرت۔ بس بےبسی میں لپٹی ایک تلخ مسکراہٹ اس کے سوکھے اور پِپڑی جمے ہونٹوں پر پھیل جاتی، جیسے کوئی غریب، سونے کے تاج پہنے ہوئے لوگوں کو دیکھ کر کہے، ”تمہارے پاس چمکتے تخت ہیں، میرے پاس بوسیدہ تقدیر اور اجڑا بخت… مگر میری روح تمہارے تعمیر کیے گئے محلوں کی قیدی نہیں۔“
اس کے چہرے کی کتاب میں لکھی جهریوں میں زمانے کے نشیب و فراز کی، آواز سے محروم کہانیاں چُھپی تھیں۔۔ ایسی کہانیاں، جو تھیں تو اُسی کی، مگر ان میں اس کا کردار شاید کہیں بھی موجود نہ تھا۔ اس نے زمانے کے اتنے بدلتے رنگ دیکھے تھے کہ اب اس نے حیران ہونا چھوڑ ہی دیا تھا۔ وہ اپنی گرگر کرتی چَین والی سائیکل پر تقریباً روزانہ اس مسجد کے سائے تلے گزرتا، جس کی بنیادوں میں اس کے آباؤ اجداد کی زمین کے حق کا ناحق لہو جما ہوا تھا، اور اس کے گنبد و مینار اسی حق کے انکار پر تعمیر کیے گئے تھے۔
ایک دن وہاں سے گزرتے ہوئے وہ مسجد کے سامنے ٹھہر گیا۔ یہی وہ عظیم الشان مسجد تھی جو اس قطعہ زمین پر اُبھری تھی، جہاں کبھی اس کے دادا کے کھیت ہوا کرتے تھے، جس کی اینٹیں اس کی ماں کے قدموں تلے بسی جنت کی مٹی سے بنی تھیں، لیکن اس شاندار ہاؤسنگ پروجیکٹ میں رہنے والوں، تعمیر کے اس پُر شکوہ نمونے کا نظارہ کرنے کے لیے آنے والوں اور اس کے سنگ مرمر کے فرش پر ماتھا ٹیکنے والوں میں سے کوئی بھی یہ نہ جانتا تھا کہ اس سنگ مرمر کی کہانی کا ایک کردار، ایک ایسا پتھر جیسا مضبوط شخص بھی ہے، جس کے سینے میں پانی سے بھی نرم دل دھڑکتا ہے، کہ یہاں کسی تختی پر اس کا نام کندہ نہ تھا، نہ اس کے گاؤں کا ہی کوئی ذکر وہاں کسی در و دیوار پر موجود تھا۔
لوگ یہاں آتے تھے، عبادت کرتے تھے، وی لاگ اور ٹک ٹاک کے لیے ویڈیوز اور تصاویر بناتے تھے، تعریفیں کرتے اور چلے جاتے تھے۔ گُن گاتے عش عش کرتے ان لوگوں میں سے کوئی یہ نہیں جانتا تھا کہ اس کے فرش کے نیچے ایک غریب کسان کی بے بسی بھی دفن ہے۔ کسی کو یہ معلوم نہیں تھا کہ ایک مزدور روز اپنا حق لیے بغیر اس محراب کے سائے سے گزر جاتا ہے۔
اکبر، موسیٰ، اور روزی، مرحوم حاجی ارباب گبول کے بیٹے۔ ایک باپ کی وراثت، ایک گاؤں کی مٹی، ایک تاریخ کے آخری نشانات۔
بحریہ پیراڈائز کے بنگلوں کے قریب وہ جگہ، جہاں کبھی ارباب گبول گاؤں ہوا کرتا تھا، اب غزہ کی طرح محاصرے میں ہے۔ وہ گاؤں جو اب دستاویزات میں محض ایک ’بلاک‘ ہے۔ نقشوں میں نام مٹا دیے گئے، رنگ بھر دیے گئے۔ جن کے آباؤ اجداد نے وہ مٹی سنبھالی، وہ اب اونچے دروازوں کے باہر کھڑے ہیں، جیسے کسی کو اس کی اپنی قبر میں دفن ہونے سے روک دیا گیا ہو، اور اس کی روح وہیں کہیں کھو گئی ہو۔
تینوں بھائیوں کے حصے میں ایک بڑا المیہ آیا۔ اکبر کے نام لیز پر موجود زمین پر ایک عالی شان مسجد بنا دی گئی۔ نہ کسی نے پوچھا، نہ بتایا۔ بس تختی بدل دی گئی۔ مٹی کی گراں مایہ عزت کو سنگ مرمر کی بےقیمت چمک سے تول دیا گیا، اور اکبر کے حصے میں تہی دستی کے علاوہ کچھ بھی نہ آیا۔
اب وہ تینوں، یا یوں کہیے کہ جو بچ گئے ہیں، کاٹھوڑ میں اپنے مرحوم والد کی چھوڑی گئی دکانوں کے کرائے پر گزارا کرتے ہیں۔ اکبر، جس نے سبزی کا ایک چھوٹا سا ٹھیّا لگایا تھا، اب بیمار ہے۔ دکان بھی کرائے پر دے دی۔ موسیٰ ایک چھوٹا سا ہوٹل چلاتا ہے۔ اور روزی۔۔۔ روزی اب اس دنیا میں نہیں رہا۔ زندگی کے جیل میں اپنے حصے کی عمر قید کاٹ کر رہا ہو گیا، اور جیسے اپنی زمین کے تار تار لباس کا پیوند بن گیا۔
اکبر کے خاندان سے صرف زمین ہی نہیں چھینی گئی، بلکہ امیدیں بھی۔۔۔ اور سازش صرف باہر والوں کی نہ تھی، ان کے اپنے لوگ اور وڈیرے بھی اس میں شامل تھے، جنہوں نے بحریہ والوں کے ساتھ مل کر اس زمین کو ہتھیانے میں حصہ لیا۔
اکبر ان باتوں کا ذکر کم ہی کرتا ہے، مگر اس کی آنکھوں میں سب کچھ ثبت ہے۔ نقشے، دستخط، مہریں، نوٹس، لالچ، دھوکے، دھونس دھمکیاں اور اس سب پر اپنوں کی خاموشی۔۔۔ اب وہ بیماری کے باعث زیادہ کام نہیں کر سکتا، لیکن اس کا ٹوٹا ہوا دل اب بھی دھڑکنے کے نام پر ہانپتا ہے اور اس کے تھکے ہوئے پاؤں چلنے کے نام پر گھسٹتے ہیں۔ اس کی سائیکل، جس کی چَین گرگر کی آواز میں چیختی ہے اور آج بھی روزانہ اسے اس مسجد کے سامنے لے آتی ہے۔
اسی طرح ایک دن، جب اکبر اس مسجد کے سامنے سے گزر رہا تھا، تو اس کا دل بھر آیا۔ اس کے ذہن میں ان بااثر اور طاقتور ”شرفاء“ کے چہرے ابھرنے لگے، جو اس کی زمین پر قبضے کے ظلم اور بدمعاشی میں شریک تھے۔ اس نے اپنی بے بسی کو ان چہروں کے درمیان لٹے پٹے اور اجڑے حال میں فریاد کرتے دیکھا، اور اس کی آنکھوں میں آنسو اترنے لگے۔ تبھی اس کے تصور کی سماعتوں میں جمعہ کے خطبے کے دوران سنا ہوا وہ واقعہ گونجنے لگا، جس میں امام صاحب نے رسول اللہ ﷺ کی ہجرت کے بعد مسجد نبوی کی تعمیر کا تذکرہ کیا تھا۔
جب مدینہ کی فضاؤں میں ہجرت کے سفر کی گرد ابھی بیٹھی نہ تھی، تو رسولِ خدا ﷺ نے انصار کے اُس مقام کا معائنہ فرمایا، جہاں وہ باجماعت نماز ادا کیا کرتے تھے۔ آپ ﷺ اپنی اونٹنی پر سوار تھے، جس کی لگام ڈھیلی چھوڑ دی گئی تھی، جیسے تقدیر کو خود اپنی راہ چننے کی آزادی دے دی گئی ہو۔ اونٹنی چلی، رکی اور بیٹھ گئی۔۔۔ وہی جگہ بعد میں مسجدِ نبوی ﷺ کا مقدر ٹھہری۔
وہ زمین دو یتیم بچوں، سہل اور سہیل کی ملکیت تھی، جن کے سرپرست حضرت اسعد بن زرارہؓ یا حضرت معاذ بن غفراءؓ تھے۔ نبی کریم ﷺ نے اس جگہ کو مسجد کے لیے پسند فرمایا۔ یتیم بچوں نے محبت سے وہ زمین ہدیے میں پیش کرنے پر اصرار کیا، مگر آپ ﷺ نے وہ تحفہ بغیر قیمت قبول نہ فرمایا۔ پھر وہ زمین قیمت دے کر خریدی گئی اور رقم حضرت ابوبکر صدیقؓ نے اپنے مال سے ادا کی۔
پھر مسجد کی تعمیر شروع ہوئی۔ اینٹیں، گارا اور ایمان سے لبریز ہاتھ۔۔ پہلی اینٹ نبی کریم ﷺ نے خود رکھی۔ پھر یکے بعد دیگرے حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ نے باری باری ایک ایک اینٹ رکھی۔۔ پھر دیگر مسلمانوں کو بلایا گیا۔ کھجور کے تنوں سے ستون، پتوں سے چھت اور فرش کچی مٹی کا۔۔ یہ تھی پہلی مسجد کی شان۔ بارش میں پانی ٹپکتا، مٹی میں کیچڑ بنتا، صحابہؓ نے چھت مزید مضبوط بنانے کی اجازت چاہی، تو نبی ﷺ نے منع فرما دیا۔۔ یہ سادگی اور ادائیگیِ حق بہ حقدار ہی تو اس مسجد کی روح تھی۔
پھر روشنی کی باری آئی۔ پہلے کھجور کی خشک شاخیں جلائی گئیں۔ پھر حضرت تمیم داریؓ قندیلیں، رسیاں اور زیتون کا تیل لے کر آئے۔ جب رات میں قندیلیں روشن ہوئیں، تو نبی کریم ﷺ کی مبارک دعا نے ان لمحوں کو ابدی روشنی عطا کر دی۔
یہ سب یاد کر کے، سائیکل کے ہینڈل پر جھکے ہوئے اکبر کی آنکھوں سے آنسو یوں بے اختیار بہنے لگے، جیسے پہوارو پر بارش برسنے کے بعد اس کی گھاٹیوں میں جھرنے بہنے لگتے تھے۔۔ اس کا سر جھکا ہوا تھا، لیکن دل مسجد کے گنبدوں سے سوال کر رہا تھا، ”میری زمین کے حق کی اذان کب پہوارو کے پہاڑوں میں گونجے گی؟“
وہ ہونکوں کی طرح وہاں کھڑا تھا، پاس سے گزرتی ایک فیملی نے اس پر ایک اچٹتی سی نگاہ ڈالی۔ اکبر نے انہیں آپس میں پھسپھساتے ہوئے اور خود پر ہنستے ہوئے دیکھا اور ایک خوش لباس شخص کے الفاظ کا تیزاب اسے کے کانوں میں اتر گیا، ’پتہ نہیں کہاں سے آ جاتے ہیں یہ جاہل لوگ۔۔۔‘
اس کی آنکھوں میں نہ حسد تھا، نہ نفرت، نہ فخر۔۔ بس سوال تھے اور تھکن۔ وہ تھکن جو وہ برسوں سے اپنے دل کے کندھوں پر اٹھائے پھر رہا تھا، زمین زبردستی چھن جانے کی تھکن، آواز اور فریاد نہ سنے جانے کی تھکن، اپنے وجود کے مٹتے چلے جانے کی تھکن۔۔۔ اور اس حقیقت کی تھکن کہ اب اس کا نام صرف پرانے کاغذوں میں کہیں دفن ہو چکا ہے۔
”یہی وہ مسجد ہے،“ ایک آواز نے اکبر کو چونکا دیا۔
اکبر نے مڑ کر دیکھا تو ایک گاڑی سے دو افراد اتر رہے تھے۔ ایک شخص مسجد کی بلند دیواروں کو دیکھ کر ساکت کھڑا تھا۔
دوسرے شخص کو اکبر نے پہچان لیا۔ وہ اس کا پرانا شناسا، حنیف کاچھیلو تھا، جو کوئٹہ سے آئے اپنے رشتہ دار کو وہ مسجد دکھانے لایا تھا۔ اکبر پر نظر پڑتے ہی حنیف، مسجد کی طرف جانے کے بجائے سڑک پر دکھ کی سانس لیتی تصویر کی صورت کھڑے اکبر کے پاس چلا آیا اور اپنے ساتھی سے کہا، ”یہ ہے اکبر گبول، جس کے بارے میں تمہیں بتا رہا تھا۔“
”میں یہاں نفل پڑھنے کی نیت سے آیا تھا،“ مہمان نے اکبر سے مصافحہ کرتے ہوئے لرزتی آواز میں کہا، ”لیکن اب۔۔۔ دل نہیں مانتا۔“
اکبر خاموش رہا، مگر اس کی آنکھوں میں تشکر کے جذبات امڈ آئے۔ اس نے دل ہی دل میں شکر ادا کیا کہ کم از کم کسی نے تو اس کی خاموشی کو سنا۔
”اکبر، تم نے احتجاج کیوں نہ کیا؟“ مہمان نے پوچھا۔
اکبر نے سفید سنگِ مرمر کی مسجد سے نظریں ہٹا کر اُس خاک کو دیکھا، جہاں کبھی اس کی ماں مویشیوں کو چارہ ڈالتی تھی، جہاں اس کا باپ نماز سے پہلے بکریاں چَرا کر لوٹتا تھا۔
”آواز تو اٹھائی تھی، لیکن یہاں نہ صرف زمین کا حق، بلکہ آواز بھی دبائی جاتی ہے۔ میری آواز کسی رجسٹری آفس کی دراز میں بند پڑی ہے، اور اس کی چابی شاید کسی نوٹوں کی تھیلی میں گم ہو گئی ہے۔“
مہمان کچھ کہنا چاہتا تھا، مگر اسے الفاظ نہ ملے۔ اگر ملے بھی تو انہیں آواز کا روپ نہ مل سکا۔ وہ خاموش رہ گیا۔ تب شاید اسے اکبر کی بات سمجھ آ گئی۔۔ وہ سمجھ گیا کہ صحرا کے بیچ ایک درخت کیسے زندہ رہتا ہے۔۔ اس نے مسجد کے مینار سے اذان کی آواز سنی، مگر اب وہ اسے عبادت کی صدا نہیں، بلکہ گم شدہ حق کی چیخ محسوس ہونے لگی۔ اس کے دل میں مسجد کے تقدس کے ساتھ ساتھ اس قبضہ شدہ زمین کی آہ بھی گونجنے لگی۔
اکبر اب بھی زندہ ہے۔ کبھی کاٹھوڑ بازار میں محنت مزدوری کرتا ہے، کبھی اپنی سائیکل کے پنکچر خود مرمت کرتا ہے۔ نہ اسے زمین کا کوئی معاوضہ ملا، نہ اجرت، نہ اس کی فریاد کو کوئی سماعت نصیب ہوئی۔
ان فریادوں، سسکیوں، آہوں کے بعد اب اس کے پاس صرف اس کی خاموشی ہے۔ اب اس کی جگہ، پیڈل مارتے وقت اس کی سائیکل کی چَین گرگر کرتے ہوئے چیخ اُٹھتی ہے، جو ہر دن اسے اس زمین کی طرف لے جاتی ہے، جس کا وہ اب بھی مالک ہے، دل میں، خواب میں، حق میں، حقیقت میں۔۔۔ مگر کاغذوں اور دستاویزات میں نہیں!
وہ اپنی آنکھوں میں بے بسی کے آنسو لیے سوچتا ہے: ”یہ ایوان، یہ عدالتیں اگرچہ انصاف نہ دے سکیں… لیکن جیسے موت کا ایک دن معیّن ہے، ویسے ہی انصاف کا بھی ایک دن مقرر ہے۔۔۔ ہاں، انصاف کے راستے بحریہ کے مین گیٹ سے نہیں گزرتے۔ اس کی گزرگاہ کوئی اور ہے۔“
یہاں تو بڑی چمکتی دمکتی گاڑیوں میں نخوت سے بیٹھے لوگ عدالتوں کی بازار سے تَھوک کے بھاؤ فیصلے خرید لیتے ہیں، لیکن ایک عدالت ایسی بھی ہے، جہاں یہ سب نہیں دیکھا جاتا۔۔ جہاں بڑی چمکتی دمکتی گاڑی اور چیختی چین والی کھٹارا سائیکل میں کوئی فرق نہیں ہے۔