
ایک تباہی ہے جو کراچی سے شروع ہو کر کھیرتھر نیشنل پارک کی حدود تک پھیلی ہوئی ہے۔ یہ صرف ماحولیاتی تباہی نہیں بلکہ اسمبلی کے قوانین اور عدالتوں کے احکامات کی کھلی توہین بھی ہے۔ سوال یہ ہے کہ فریاد کس سے کریں، جب سب کچھ ریاستی سرپرستی اور سرکاری اداروں کے تعاون سے ہو رہا ہے؟
کھیرتھر نیشنل پارک کو 1974 کے گزٹ نوٹیفیکیشن کے تحت نیشنل پارک قرار دیا گیا۔ اس کے اپنے قوانین ہیں جو نافذ العمل ہیں۔ ملیر سے لے کر کھیرتھر رینج کے پہاڑوں تک جتنی ندیاں اور نالے ہیں ان پر 2003 میں سندھ اسمبلی کا منظور شدہ ریت بجری مائیننگ ایکٹ موجود ہے، جو شہید عبداللّٰہ مراد نے اپوزیشن میں ہوتے ہوئے بھی پاس کرایا تھا۔ یہ قانون آج بھی لاگو ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے سخت احکامات بھی ریت بجری مائیننگ کے خلاف موجود ہیں۔ ان قوانین اور عدالتی احکامات کی رو سے ملیر دریا سے لے کر کیرتھر نیشنل پارک اور اس سے نکلنے والے تمام ندی نالوں میں ریت بجری مائیننگ پر مکمل پابندی ہے۔
قانونی طور پر ملیر ایک زرعی خطہ ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ ملیر کو تیزی سے کنکریٹ کے جنگل میں بدلا جا رہا ہے۔ زرعی زمینوں پر غیر قانونی کمرشل ہاؤسنگ اسکیمیں کھڑی کی جا رہی ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ صرف ہمارا الزام نہیں، بلکہ سرکاری ادارے خود تسلیم کر چکے ہیں کہ ان میں اکثریت غیر قانونی ہے، ان کی فہرستیں اخبارات میں بھی شائع ہو چکی ہیں۔ اس کے باوجود یہ دھندا آج بھی جاری ہے۔
مزید یہ کہ ملیر کی زرعی زمینوں اور ندیاں نالوں میں، خصوصاً سُکن ندی کے اندر فیکٹریاں تعمیر کی گئیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ سب کس قانون کے تحت ہوا؟ کوئی ادارہ جواب دینے کو تیار نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ سب کچھ کرپٹ سسٹم اور اس کے ماتحت اداروں کے تعاون سے ہو رہا ہے۔ حالیہ دنوں میں اس پر کئی رپورٹس شائع ہوئیں اور یوٹیوب پر تفصیلی پروگرام بھی نشر ہو چکے ہیں، مگر نتیجہ کچھ نہیں نکلا۔ ہم پچھلے دس سال سے چیخ رہے ہیں، لیکن یہ گورکھ دھندا بدستور جاری ہے۔ ”گندا ہے مگر دھندا ہے“ کے مصداق، ملیر سے کیرتھر نیشنل پارک تک یہ تباہی تیز رفتاری سے بڑھتی جا رہی ہے۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ ریاست، اس کے ادارے، منتخب نمائندے، سردار اور وڈیرے سب اس دھندے میں بلواسطہ یا بلاواسطہ ملوث ہیں۔ سندھ کی سیاستدان برادری شاید کھیرتھر نیشنل پارک کی تباہی کو سندھ کے قومی وجود سے منسلک نہیں سمجھتی، یا شاید انہوں نے جامشورو سے لے کر کراچی تک کے پہاڑوں، ندیوں، جنگلات اور انڈیجینس لوگوں سے خود کو لاتعلق کر لیا ہے۔
اسی طرح کراچی کی وہ سیاسی قیادت جو کراچی کی ”ملکیّت“ کے دعویدار ہیں، ان کی نظر میں کراچی صرف ان کے انتخابی حلقوں تک محدود ہے۔ اس لیے وہ لکیر کے فقیر بنے ہوئے ہیں اور شہر کے مضافاتی اور دیہی علاقوں میں جاری ماحولیاتی و سماجی تباہی سے بے پروا ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ تباہی صرف ملیر اور جامشورو کے مقامی لوگوں کے لیے نہیں، بلکہ اس کے اثرات پورے خطے پر پڑیں گے۔ اس کے نتائج سے صرف ہم نہیں مریں گے، بلکہ یہ پورا خطہ اس مکافاتِ عمل کی لپیٹ میں آئے گا۔ یہ لکھ کر رکھ لیجیے: اگر یہ تباہی نہ روکی گئی تو آنے والے وقت میں نہ کراچی بچے گا نہ کھیرتھر۔