اگر کبھی کششِ ثقل ایک سیکنڈ کے لیے رُک جائے تو؟

ویب ڈیسک

دنیا میں کچھ سوالات محض خیالات نہیں ہوتے، وہ تصور کی سرحدوں کو چھو کر انسان کی عقل کو چیلنج کر دیتے ہیں۔ ”اگر کبھی کششِ ثقل ایک سیکنڈ کے لیے رُک جائے تو کیا ہوگا؟“ ایسا ہی ایک سوال ہے۔ سننے میں دلچسپ مگر معنی میں لرزہ خیز۔

یقیناً، ایک سیکنڈ کچھ نہیں لگتا، مگر طبیعیات (Physics) کی دنیا میں ایک سیکنڈ تباہی لا سکتا ہے۔ یہ لمحہ بظاہر چھوٹا ضرور ہوگا، مگر اس کے اثرات بہت بڑے ہوں گے۔

کششِ ثقل وہ قوت ہے جو ہمیں زمین سے جوڑے رکھتی ہے، جو سمندروں کو قابو میں رکھتی ہے اور چاند کو مدار میں تھامتی ہے۔ اگر یہ صرف ایک لمحے کے لیے غائب ہو جائے تو کیا ہم زندہ رہیں گے؟ زمین اپنی جگہ پر قائم رہے گی؟ یا یہ سب کچھ ایک ثانیے میں بکھر جائے گا؟ آئیے، سائنسی انداز میں مگر تخیلاتی روشنی کے ساتھ دیکھتے ہیں کہ اگر واقعی ایسا ہو جائے تو کیا کچھ ممکن ہے۔

 کششِ ثقل کیا ہے؟

کششِ ثقل (Gravity) دراصل وہ غیر مرئی قوت ہے جو ہر شے کو ایک دوسرے کی طرف کھینچتی ہے۔ یہ نہ صرف زمین پر موجود ہر چیز کو اپنے مرکز کی طرف کھینچتی ہے بلکہ پوری کائنات میں مادّے کو نظم اور ساخت دیتی ہے۔ جب آپ ایک گیند نیچے گراتے ہیں تو وہ زمین پر گرتی ہے، یہ محض عادت نہیں بلکہ کششِ ثقل کا عمل ہے۔ اگر یہ قوت نہ ہو تو انسان، عمارتیں، سمندر، حتیٰ کہ ہوا بھی زمین پر قائم نہ رہ سکے۔ کائنات میں کہکشائیں، ستارے اور سیارے سب اسی طاقت سے بندھے ہیں۔ اگر کششِ ثقل نہ ہو، تو سب کچھ خلا میں بکھر جائے۔ گو یہ قوت بظاہر کمزور دکھائی دیتی ہے، لیکن یہی کائنات کے بڑے ڈھانچوں کو تھامے ہوئے ہے۔

 اگر پوری کائنات میں کششِ ثقل ایک سیکنڈ کے لیے رُک جائے؟

اگر لمحہ بھر کے لیے کششِ ثقل پورے کائناتی نظام سے غائب ہو جائے تو تمام اجسام سیدھی لکیر میں اپنی موجودہ سمت میں حرکت کرنے لگیں گے۔ زمین اب سورج کے گرد نہیں گھومے گی، بلکہ اپنی راہ پر خلا میں نکل جائے گی۔ ستارے، سیارے اور کہکشائیں بکھرنے لگیں گے، جیسے کسی نے صدیوں پرانی ترتیب کو اچانک توڑ دیا ہو۔ جب کششِ ثقل واپس لوٹے گی، تب تک سب اپنی اصل سمتوں سے بہت دور جا چکے ہوں گے۔ کچھ سیارے سورج سے ہمیشہ کے لیے بچھڑ جائیں گے، کچھ کسی نئے نظام میں جا بسیں گے۔ ممکن ہے زمین سرد خلا میں جم جائے یا کسی نئے ستارے کے قریب جا کر جل اٹھے۔ یوں یہ صرف ایک سیکنڈ اپنا اثر ہمیشہ کے لیے چھوڑ جائے گا۔

 اگر صرف زمین پر کششِ ثقل رُک جائے؟

اب تصور کریں کہ کائنات میں نہیں، صرف زمین پر کششِ ثقل ایک لمحے کے لیے رُک جائے۔ یہ بھی کسی بھیانک خواب سے کم نہیں ہوگا۔

یہ ایسا لگے گا جیسے کوئی جادو کا کھیل بُری طرح ناکام ہو گیا ہو۔ ایک سیکنڈ کم ضرور ہے، مگر اس دوران ہر چیز تیرنے لگے گی۔ اور جیسے ہی کششِ ثقل واپس آئے گی، سب کچھ تیزی سے اور شدت کے ساتھ زمین پر آ گرے گا۔

جو چیز زمین سے جڑی نہیں – انسان، پانی، ہوا، مٹی – سب فضا میں تیرنے لگیں گے۔ گرد و غبار فضا کو بھر دے گا، اور لوگ چھتوں، درختوں یا بجلی کی تاروں سے ٹکرا سکتے ہیں۔

ایک لمحے کے لیے دنیا بے وزن ہو جائے گی، مگر اگلے ہی لمحے جب کششِ ثقل واپس آئے گی تو یہ تمام اشیاء پوری شدت کے ساتھ زمین پر گریں گی۔ گھر ٹوٹ جائیں گے، لوگ زخمی ہوں گے، اور منظر کسی اچانک تباہی جیسا ہوگا۔ دنیا کا منظر ایسے ہوگا جیسے کسی جنگ نے اسے اجاڑ دیا ہو، بس ایک سیکنڈ میں۔

 انسانوں، جانوروں، فضا سمندر، عمارات اور سیٹلائیٹ کا کیا ہوگا؟

اگر آپ کھڑے ہیں، تو کششِ ثقل ختم ہوتے ہی آپ اوپر اُٹھ جائیں گے۔ نہیں، خلا میں نہیں، مگر چند فٹ ضرور۔ آپ کتنا اوپر جائیں گے، یہ آپ کی حرکت پر منحصر ہوگا۔ اگر آپ چل رہے ہوں یا دوڑ رہے ہوں، تو آپ زاویہ بنا کر اُڑیں گے۔ کچھ لوگ پلٹ جائیں گے، کچھ ترچھی سمت میں جائیں گے۔ یہ منظر فلموں جیسا خوبصورت نہیں ہوگا، بلکہ اچانک، بے قابو اور خوفناک ہوگا۔

آپ کا سر اور پاؤں ایک ساتھ حرکت نہیں کریں گے بلکہ آپ فضا میں مڑ سکتے ہیں یا الٹے ہو سکتے ہیں۔ گھروں کے اندر لوگ چھتوں سے ٹکرا جائیں گے، اور باہر موجود افراد زمین پر زور سے آ گریں گے، یہ صرف دو میٹر کی اونچائی سے گرنا بھی شدید چوٹ پہنچا سکتا ہے۔

جانوروں کو فزکس کا علم نہیں ہوتا، مگر وہ ماحول میں اچانک تبدیلی کو محسوس کر لیتے ہیں۔ پرندے فضا میں اڑتے ہوئے توازن کھو دیں گے اور گر پڑیں گے۔ بلیاں، کتے، اور مویشی لمحہ بھر کے لیے فضا میں تیرنے لگیں گے اور پھر زمین پر زور سے گریں گے۔ جنگلی جانور درختوں میں پھنس سکتے ہیں یا چٹانوں سے گر سکتے ہیں۔ چڑیا گھر اور فارم ہاؤسز میں بدترین افراتفری مچ جائے گی۔ کچھ جانور زندہ نہیں بچ پائیں گے، کچھ خوف میں بھاگ نکلیں گے یا چھپ جائیں گے۔ مچھلیاں کم گہرے پانی سے اچھل کر باہر جا گریں گی، اور کیڑے مکوڑے بھی سمت کھو بیٹھیں گے۔ جب کششِ ثقل واپس آئے گی، تو کئی جانور ملبے کے نیچے دب جائیں گے یا ٹکر سے زخمی ہوں گے۔

گاڑیاں معمولی طور پر فضا میں اٹھ کر واپس گرنے سے تباہ ہو جائیں گی اور ان میں بیٹھے لوگ جھٹکے سے اچھلیں گے۔ ہسپتال زخمیوں سے بھر جائیں گے۔ یہ ایک بھیانک رولر کوسٹر کی طرح ہوگا، مگر ہزار گنا زیادہ خطرناک۔

ہوا خود سے زمین کے گرد نہیں رہتی۔ اسے بھی کششِ ثقل ہی تھامتی ہے۔ پانی بھی، چاہے وہ سمندر میں ہو، جھیل میں یا دریا میں، اسی قوت کے سہارے زمین سے چمٹا ہے۔ اگر کششِ ثقل رُک جائے تو ہوا فوراً اوپر اڑ جائے گی۔ سانس لینا ناممکن ہو جائے گا، کیونکہ اردگرد کی فضا غائب ہو چکی ہوگی۔ اگر ایک سیکنڈ بعد کششِ ثقل واپس بھی آجائے، تو یہ اچانک تبدیلی تیز ہواؤں اور تباہ کن جھٹکوں کو جنم دے گی۔

پانی بھی فضا میں اچھلے گا، سمندر ایک دیو ہیکل چھپاکے کی طرح اوپر اُٹھیں گے،
بادلوں کی بارش بکھر جائے گی، ندیوں کا بہاؤ پل بھر کو اُلٹا ہو جائے گا اور بادل خلا کی سمت رُخ کر جائیں گے۔

فضا میں اُڑتے جہاز اچانک توازن کھو دیں گے، کم گہرے پانی میں موجود مچھلیاں فضا میں اچھل جائیں گی۔ اور جیسے ہی کششِ ثقل واپس آئے گی، یہ تمام پانی اور ملبہ زمین پر جا گرے گا، یوں جیسے پوری دنیا پر پانی کا ایک زبردست بم پھٹا ہو۔ یوں دنیا ایک عجیب شور اور خوف سے بھر جائے گی۔

بلند عمارتوں کی چھتیں، سائن بورڈ، اور کھڑکیاں لمحے بھر کو فضا میں معلق ہوں گی اور پھر زمین سے ٹکرا کر تباہ ہو جائیں گی۔ اینٹیں، اوزار، اور ملبہ، سب خطرناک ہتھیار بن جائیں گے۔ اور جیسے ہی کششِ ثقل واپس آئے گی، سب چیزیں تیزی سے زمین پر گریں گی۔ کئی عمارتوں کے حصے اس جھٹکے کو برداشت نہیں کر سکیں گے۔ پل اپنی جگہ سے ہٹ جائیں گے، بجلی کے کھمبے گر جائیں گے اور گاڑیاں مڑ جائیں گی۔

سمندر کی بات کریں تو سمندر زمین کے کل پانی کا تقریباً 97 فیصد اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہیں۔ اگر کششِ ثقل ایک سیکنڈ کے لیے بھی رک جائے، تو یہ سارا پانی اوپر کی سمت حرکت کرنے لگے گا۔ لہریں اپنی جگہ قائم نہیں رہیں گی، وہ اوپر اچھلیں گی، اور پھر زمین پر شدید طاقت سے گریں گی۔

ساحلی علاقے ڈوب جائیں گے، جزیرے تباہ ہو سکتے ہیں، اور جہاز شدید جھٹکوں سے اُچھل جائیں گے۔ سمندری جاندار گھبراہٹ میں مبتلا ہو جائیں گے۔

آبدوزیں قابو کھو بیٹھیں گی، اور تیرتے ہوئے پلیٹ فارم یا بندرگاہیں اوپر اُٹھ کر واپس دھماکے سے گریں گی۔ سطح کے قریب موجود پانی کی پائپ لائنیں پھٹ سکتی ہیں۔

پانی آہستگی سے واپس نہیں آئے گا، یہ ایک تباہ کن سونامی کی طرح زمین سے ٹکرائے گا۔ صرف ایک سیکنڈ میں ہونے والا یہ عمل بڑے زلزلے جیسی تباہی مچا سکتا ہے۔

سیٹلائٹس دراصل کششِ ثقل کی بدولت مدار میں رہتی ہیں۔ وہ بس خلا میں معلق نہیں ہوتیں، بلکہ زمین کی طرف گرتی رہتی ہیں، مگر اتنی تیزی سے آگے بڑھتی ہیں کہ زمین سے ٹکراتی نہیں۔ اگر کششِ ثقل ایک سیکنڈ کے لیے بھی رک جائے تو یہ توازن ٹوٹ جائے گا۔ سیٹلائٹس مڑے ہوئے راستوں کے بجائے سیدھی لکیر میں حرکت کرنے لگیں گی۔ کچھ ہمیشہ کے لیے مدار سے باہر نکل جائیں گی،
کچھ زمین کی طرف گرنے لگیں گی، اور کچھ خلا میں گم ہو جائیں گی۔

صرف ایک سیکنڈ میں پورا نظام بگڑ جائے گا۔ جی پی ایس سیٹلائٹس کام کرنا چھوڑ دیں گی، موسم کی معلومات دینے والے سیٹلائٹس طوفانوں کو ٹریک نہیں کر پائیں گے، اور مواصلاتی نظام بیٹھ جائے گا۔ انٹرنیٹ، فون، اور نیویگیشن جیسے نظام دنوں یا مہینوں کے لیے بند ہو جائیں گے۔ کچھ سیٹلائٹس شاید دوبارہ قابو میں آ جائیں، مگر باقی ہمیشہ کے لیے ضائع ہو جائیں گی۔

 کیا انسان بچ جائیں گے؟

زیادہ تر لوگ زندہ ضرور رہیں گے، مگر محفوظ نہیں، کیونکہ اصل خطرہ تباہی اور افراتفری سے ہوگا، گرتی عمارتیں، ٹکراتی گاڑیاں، اڑتی ہوئی اشیاء، اور اچانک زوردار جھٹکے کے حادثات میں ہزاروں لوگ زخمی یا موت کا شکار ہو سکتے ہیں۔ عمارتیں گرنے سے آگ لگ سکتی ہے، بجلی کے نظام ناکام ہو جائیں گے، اور خوف کا عالم ایسا ہوگا کہ لوگ دوبارہ زمین پر قدم رکھنے سے بھی ڈریں گے۔ ذہنی اثرات طویل ہوں گے، بالکل زلزلے کے بعد کے صدمے کی طرح۔ وہ ایک سیکنڈ تاریخ پر اور انسانوں کی زندگیوں پر ہمیشہ کے لیے نشان چھوڑ جائے گا۔

کیا ایسا ممکن ہے؟

سائنس کہتی ہے، نہیں۔ کششِ ثقل کوئی مشین نہیں جسے بند یا چلایا جا سکے۔ یہ کائنات کے بنیادی ڈھانچے کا حصہ ہے۔ یہ مادّے سے پیدا ہوتی ہے اور مادّہ خود کائنات کی اساس ہے۔ اس لیے کششِ ثقل کو ختم کرنے کے لیے طبیعیات کے بنیادی قوانین کو بدلنا پڑے گا، جو انسانی تصور کے اعتبار سے فی الحال ناممکن ہے۔ البتہ سائنس دان کششِ ثقل پر تجربات ضرور کر رہے ہیں، مثلاً روشنی کو سست کرنا یا خلا میں معمولی خم پیدا کرنا، مگر کششِ ثقل کو مکمل طور پر بند کرنا ہماری موجودہ سائنس کے دائرے سے باہر ہے۔

کششِ ثقل وہ طاقت ہے جو ہر شے کو اپنے دائرے میں قائم رکھتی ہے۔ یہ ہمیں ہوا میں اُڑنے سے روکتی ہے، سمندروں کو زمین سے باندھے رکھتی ہے، اور چاند کو مدار میں تھامے ہوئے ہے۔ یہی وہ خاموش قوت ہے جو نظامِ کائنات کو نظم میں رکھتی ہے، اور بدن کے ہر ذرے کو زمین سے جوڑتی ہے۔

اگر کبھی یہ ایک سیکنڈ کے لیے رک جائے تو یہ وہ لمحہ ہوگا جب ہمیں احساس ہوگا کہ ہم نے زندگی بھر زمین کو تھاما نہیں، بلکہ زمین نے ہمیں تھام رکھا تھا۔ ہم نے کبھی اس قوت کا شکریہ ادا نہیں کیا، جو نظر نہیں آتی مگر سب کچھ جوڑے رکھتی ہے۔

یہ خیال سننے میں افسانوی لگتا ہے، مگر اس سے ہمیں ایک گہرا سبق ملتا ہے، کہ ہم کس حد تک غیر محسوس قوتوں پر انحصار کرتے ہیں۔ ہم زمین پر کھڑے ہیں، سانس لیتے ہیں، پانی پیتے ہیں، مگر شاذ ہی سوچتے ہیں کہ یہ سب کششِ ثقل کے بغیر ممکن نہیں۔ یہ خاموش قوت ہر لمحہ ہمارا توازن قائم رکھتی ہے، ہماری دنیا کو منظم رکھتی ہے اور کائنات کو جڑے رہنے دیتی ہے۔ شاید ہم اسے دیکھ نہیں سکتے، مگر یہ ہمیشہ ہمارے اردگرد ہے، بالکل اسی طرح جیسے زندگی خود، جو نظر نہیں آتی مگر سب کچھ تھامے ہوئے ہے۔ اس میں صرف ایک سیکنڈ کی خرابی لاکھوں سال کے توازن کو برباد کر سکتی ہے۔

نوٹ: اس فیچر کی تیاری میں کیوریس میٹرکس پر شایع ایک آرٹیکل سے مدد لی گئی ہے۔ امر گل

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button