
ہمارے گورنمنٹ اسکول میں ایک نیا ٹیچر، سر جمیل، ٹرانسفر ہو کر آیا۔ جوائننگ کے فوراً بعد ہیڈ ماسٹر صاحب نے حسبِ روایت اُنہیں اسکول کے واٹس ایپ گروپ میں شامل کر لیا۔
شام کو سر جمیل نے پہلا ہی پیغام گروپ میں بھیج دیا، ایک اشتہار: ”کراچی والوں کے مشہور اچار! گھر بیٹھے آرڈر کریں، 50 فی صد ڈسکاؤنٹ۔ لہسن اچار 1400 فی کلو، ہری مرچ اچار 1500، فی کلو، گاجر اچار 1600 روپے فی کلو۔ آم اچار رعایتی قیمت پر 1700 روپے فی کلو۔“
واٹس اپ گروپ میں یہ اشتہار دیکھ کر سب کو اندازہ ہوا کہ موصوف اسکول کے ساتھ پارٹ ٹائم بھی کرتے ہیں!
اشتہار دیکھ کر دیگر اساتذہ نے شرارتی طور تبصرے شروع کر دیے۔ یہ صورتحال دیکھ کر ہیڈ ماسٹر صاحب نے فوراً تنبیہ کی: ”یہ گروپ صرف اسکول کی معلومات کے لیے ہے، ذاتی اشتہارات اور اچار کے ذائقوں کے لیے نہیں!“
مگر اگلے ہی دن، وقفے کے دوران، اساتذہ نے شرارتاً پروگرام بنایا کہ کیوں نہ کل اسکول میں ’چٹنی پارٹی‘ رکھی جائے۔ سب نے متفق ہو کر سر جمیل کو مختلف ذائقوں کے اچار لانے کو کہا، پیسے بھی جمع کر لیے گئے۔
اگلے دن آف ٹائم سے ذرا پہلے چپراسی نے اسٹاف روم میں پلیٹیں سجا دیں۔ بیل بجتے ہی سارے اساتذہ پلیٹوں میں سجے اچار خوشبو سے کھنچے چلے آئے۔
ہیڈ ماسٹر صاحب کو جب چپراسی نے خبر دی تو وہ بھی فوراً پہنچے۔ دروازے سے اندر آتے ہی ہیڈ ماسٹر نے بھنویں چڑھائیں اور بولے، ”یہ کیا ہو رہا ہے؟ اسکول میں اچار پارٹی؟“
مگر ان کی آنکھیں آم کی چٹنی والی پلیٹ پر جمی ہوٸیں تھیں اور منہ میں پانی بھر آ رہا تھا۔
یہ دیکھ کر بایولوجی کے ٹیچر سر امتیاز نے پورے وقار سے جواب دیا، ”سر، دراصل یہ کلچرل ایکٹیویٹی ہے۔ ہم طلبہ کو بتانا چاہتے ہیں کہ ہمارے دیسی ذائقے بھی علم کا حصہ ہیں۔ اپ بھی آئیں اور شریک ہوں۔“
ہیڈماسٹر صاحب کا منہ پہلے ہی پانی ہو رہا تھا، یہ سن کر وہ اندر سے خوش ہوئے مگر بناوٹی جذبات دکھا کر بھڑکی ماری اور کہا، ”واہ سر امتیاز! آپ کا فلسفہ تو قورمے سے بھی گاڑھا ہے! مگر اگلی بار یہ تجربہ اسٹاف روم کے بجائے کینٹین میں کریں۔“
یہ سن کر سب اساتذہ قہقہوں میں پھوٹ پڑے۔ سر امتیاز مسکرا کر بولے، ”سر! یاد رکھیں، جس اسکول میں علم کے ساتھ ذائقہ بھی ہو، وہاں دل کبھی بور نہیں ہوتا!”
واقعی، اس دن کے بعد اسٹاف روم میں اکثر اچار کی خوشبو آنے لگی، بس فرق یہ تھا کہ اب سب اسے ’ادبی ذائقہ‘ کہہ کر فخر محسوس کرتے تھے۔




