
انیسویں صدی کے آغاز میں دنیا ایک ایسے مقام پر کھڑی تھی جہاں سائنس، فن اور جستجو مل کر ایک نئی حقیقت کو جنم دینے والے تھے۔ انسان نے ہزاروں برسوں تک تصویریں تو بنائیں، غاروں کی دیواروں پر، پتھر کے تختوں پر، کاغذ پر، لیکن روشنی کو خود اس کا نقش کھینچنے کے قابل بنانے کا خیال ایک خواب کی طرح تھا، جسے شرمندہ تعبیر ہونے میں کئی صدیاں لگیں۔
آج ہم موبائل فون نکالتے ہیں، ایک کلک کرتے ہیں اور تصویر بن جاتی ہے۔ نہ کیمرا سیدھا کرنے کی فکر، نہ روشنی کے زاویے پر گھنٹوں غور کی ضرورت۔۔ لیکن کیا کبھی آپ نے سوچا ہے کہ پہلی تصویر کب اور کیسے بنی تھی؟ یہ جاننے کے لیے چلیں آج ذرا فوٹوگرافی کے سفر پر چلتے ہیں اور پہلی تصویر، پہلی انسانی موجودگی والی تصویر، پہلی سیلفی اور پہلی رنگین سفر کے بارے میں جانتے ہیں۔
وہ لمحہ جب کیمیرا کے ذریعے پہلی بار تصویر کھینچی گئی!
تصور کیجیے: تاریخ کے ابتدائی صفحات میں، جہاں کیمرے کا نام و نشان بھی نہیں تھا۔ جب فوٹوگرافی کی بات آتی ہے، تو ہر کوئی فوراً لوئس ڈاگیئر Louis Daguerre کا نام لیتا ہے، بالکل، وہی جنہوں نے مشہور ’ڈاگیئر ٹائپ‘ ایجاد کیا اور دنیا کو ابراہم لنکن اور ایڈگر ایلن پو جیسی شخصیات کی تصویریں دکھائیں۔ ڈاگیئر نے تقریباً دو دہائیوں تک فوٹوگرافی پر راج کیا اور خوب شہرت کمائی۔
لیکن ذرا ٹھہریں! کہانی میں ایک اور شخص ہے جس کا نام لینے میں تھوڑی زبان لڑکھڑاتی ہے: ’جوزف نیسیفور نیپس‘ Nicéphore Niépce۔ جی ہاں، یہی وہ ”شریف“ موجد تھے جنہوں نے دراصل ڈاگیئر سے بھی پہلے، 1826 میں، دنیا کی پہلی معلوم تصویر کھینچ کر تاریخ رقم کی۔
نیپس نے 1816 میں قدیم ”کیمرا آبسکیورا“ کے ساتھ لیتھوگرافی کے تجربات شروع کیے تھے۔ کئی سالوں کی محنت، ناکامیوں اور کوششوں کے بعد، انہوں نے اپنا ایک خاص جادوئی عمل ایجاد کیا، جسے انہوں نے ”سورج کی مدد سے بنائی گئی تصویر“ یعنی ”ہیلیوگرافی“ کا نام دیا۔
نیپس نے ایک فلیٹ پیٹر کی پلیٹ لی، اس پر خاص کیمیکلز کا مرکب لگایا، اور اسے اپنے کیمرے میں رکھ دیا۔ پھر شروع ہوا انتظار! سورج کی روشنی میں یہ پلیٹ آٹھ گھنٹے تک بے نقاب رہی! جب نیپس نے پلیٹ کو دھویا، تو ایک دھندلا سا عکس ابھرا۔ یہ تصویر ان کی دیہی جاگیر پر ان کے کام کرنے والے کمرے کی کھڑکی سے باہر کا منظر تھا، جو آج ٹیکساس میں ہیری رینسم سینٹر کی زینت ہے۔ یہ تصویر کسی معجزے سے کم نہیں تھی!
نیپس کی یہ تاریخی پلیٹ 1952 میں دوبارہ دریافت ہوئی! بعد میں ایسٹ مین کوڈک کمپنی نے اس کی ایک نقل تیار کی، جسے ماہرین نے تھوڑا سا رنگوں سے سنوارا تاکہ ہم جان سکیں کہ یہ اصلی تصویر اس وقت کیسی نظر آتی ہوگی جب نیپس نے اسے پہلی بار دیکھا تھا۔
بدقسمتی سے، نیپس کی قسمت نے وفا نہ کی۔ جب وہ یہ عظیم ایجاد لے کر رائل سوسائٹی کے پاس گئے، تو انہوں نے اپنی ترکیب خفیہ رکھی (شاید پیسے کمانے کی امید میں)، اور اسی وجہ سے ان کی ایجاد کو مسترد کر دیا گیا۔ مایوس ہو کر، انہوں نے بعد میں 1829 میں ڈاگیئر کے ساتھ شراکت داری کر لی۔
افسوس کی بات ہے کہ نیپس 1833 میں انتقال کر گئے اور اپنی ہیلیوگرافی کو کامیاب ہوتا نہیں دیکھ پائے۔ ڈاگیئر آگے بڑھے، اپنی مشہور ’ڈاگیئر ٹائپ‘ کو 1839 میں مکمل کیا اور سارا کریڈٹ لے گئے۔
لیکن ہمیں نیپس کو نہیں بھولنا چاہیے! وہ ایک ایسے شخص تھے جنہوں نے محدود وسائل، بغیر کسی تربیت یا مثال کے، محض اپنے سائنسی جنون سے تصویر کھینچنے کی بنیاد رکھی۔ ڈاگیئر کو شہرت ملی، مگر فوٹوگرافی کی کہانی کا آغاز نیپس اور ان کی انقلابی ہیلیوگرافی سے ہی ہوا تھا۔
انسانی وجود کی پہلی تصویر
آئیے اب دیکھتے ہیں کہ وہ لمحہ کون سا تھا جب فوٹوگرافی کے ابتدائی دھندلے منظرنامے میں ایک انسانی وجود پہلی بار ہمیشہ کے لیے قید ہوا؟
یہ کہانی ہمیں لے جاتی ہے 1838ء کے پیرس میں، جہاں لوئی ڈاگیئر نے وہ تصویر بنائی جو دنیا کی تاریخ میں انسان کی پہلی فوٹوگراف کہلائی۔
اس کہانی میں ایک دلچسپ سوال بھی ابھرتا ہے کہ پرانی تصویروں میں لوگ مسکراتے کیوں نہیں تھے؟
فوٹوگرافی کی ابتدا نہایت مشکل اور صبر آزما تھی۔ تصویریں بننے میں چند سیکنڈ نہیں، چند منٹ سے لے کر کئی گھنٹے لگ جاتے تھے۔ مسکراہٹ تو دو منٹ میں تھک جاتی ہے اور پندرہ منٹ تک چہرے کو جما کر رکھنا تقریباً ناممکن تھا۔ ذرا سا ہل جانا تصویر خراب کر دیتا۔ یہی وجہ ہے کہ پرانی تصویروں میں زیادہ تر چہرے سنجیدہ، سخت یا سپاٹ نظر آتے ہیں۔
فوٹوگرافی کے موجد نیپس نے 1826ء میں اپنی کھڑکی سے باہر کے منظر کی جو پہلی کامیاب تصویر بنائی تھی، جسے ہیلیوگراف کہا جاتا ہے، اسے بننے میں آٹھ گھنٹے لگے! سورج دن بھر حرکت کرتا رہا، اور اسی وجہ سے تصویریں عجیب و غریب دھندلے خطوط میں ڈھل گئیں۔
نیپس کے بعد ان کے ساتھی ڈاگیئر نے تجربات جاری رکھے۔ وہ ایک آرٹسٹ تھے، اس لیے تصویر میں روشنی، ساخت اور منظر کو سمجھنے کا ملکہ رکھتے تھے۔ 1833ء میں نیپس کے انتقال کے بعد انہوں نے اس ٹیکنالوجی کو بہتر بنایا، لیکن 1839ء سے پہلے ایک بڑا حادثہ پیش آیا، ان کی لیبارٹری میں آگ لگ گئی جس میں ان کی کئی نوٹ بکس جل گئیں، مگر حیرت انگیز طور پر ڈیگیریوٹائپ پروسس بچ گیا۔
1839ء میں جب ڈاگیئر نے اپنی ایجاد دنیا کے سامنے رکھی تو فوٹوگرافی ایک ”عجوبہ“ سمجھا گیا۔ فرانسیسی سائنس اکادمی نے حکومت سے سفارش کی کہ یہ ایجاد انسانیت کے نام کر دی جائے۔
انسان کی پہلی تصویر، ایک حادثہ جو تاریخ بن گیا
1838ء میں ڈاگیئر نے پیرس کے بلیوارڈ دو ٹیمپل Boulevard du Temple کی ایک تصویر کھینچی۔ گلی میں لوگوں اور گھوڑا گاڑیوں کی بھیڑ تھی، لیکن دس منٹ کی لمبی ایکسپوژر میں سب کچھ دھندلا کر غائب ہو گیا، کیونکہ کوئی بھی اتنی دیر خاموش کھڑا نہیں رہ سکتا تھا۔
این پی آر کے رابرٹ کرولویچ لکھتے ہیں کہ ڈاگیئر نے ”کیمیکل سے تیار کی گئی دھاتی پلیٹ کو دس منٹ تک ایکسپوز کیا۔ اُس روز اس مصروف گلی میں بہت سے لوگ چل رہے تھے یا گھوڑا گاڑیوں میں جا رہے تھے، لیکن چونکہ وہ حرکت میں تھے، اس لیے تصویر میں نظر نہ آئے۔“
تصویر کے نچلے بائیں کونے میں ایک آدمی دکھائی دیتا ہے۔ وہ اپنے جوتے پالش کروا رہا تھا۔ کیونکہ وہ کئی منٹ تک تقریباً ایک ہی حالت میں کھڑا رہا، اس لیے اس کا عکس فوٹوگرافک پلیٹ پر ثبت ہو گیا۔
یوں بے ارادہ، بغیر کسی خاص ارادے کے، انسان پہلی بار تصویر میں آیا۔
بعد ازاں تصویر کے باریک بینی سے جائزے میں کچھ اور مدھم پیکر بھی پہچانے گئے، مثلاً دو عورتیں جن کے ساتھ کوئی ٹھیلہ یا پرام ہے، ایک کھڑکی میں کسی بچے کا چہرہ، اور چند دیگر راہگیر۔ یہ فوٹوگراف، فوٹوگرافی کی تاریخ میں ایک نہایت اہم لمحے کی نمائندگی کرتا ہے، وہ لمحہ جب یہ فن ایک دلچسپ تجسس سے نکل کر فنونِ لطیفہ اور سائنس دونوں کے لیے انقلابی ٹیکنالوجی بننے لگا۔
یہ نہ صرف فوٹوگرافی میں انسان کی پہلی موجودگی ہے بلکہ اس لمحے سے انسانی زندگی کا ایک نیا باب شروع ہوا، وقت کو روک کر اسے محفوظ کرنے کا باب۔
فوٹوگرافی کیسے ایک سائنسی حیرت سے سماجی انقلاب بنی؟
ڈاگیئر کے ابتدائی فوٹوگرافس زیادہ تر چیزوں کے تھے، پلاسٹر کے مجسمے، شیل، فوسلز وغیرہ تاکہ ثابت ہو سکے کہ کیمرا سائنسی کام میں بھی مددگار ہے۔
لیکن جلد ہی دنیا کو سمجھ آ گیا کہ فوٹوگرافی کی سب سے بڑی طلب چہرے ہیں۔ 1840ء تک فوٹو اسٹوڈیوز کھلنے لگے جہاں لوگ گھنٹوں بیٹھ کر تصویریں بنواتے تھے۔ ان تصویروں کو ”مینیچرز“ کی جگہ استعمال کیا جانے لگا۔
مگر اس زمانے میں روزمرہ زندگی کے مناظر لینا تقریباً ناممکن تھا۔ چلتی ہوئی چیزیں ثبت ہی نہیں ہوتیں تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ انسان کی ”قدرتی حالت“ میں پہلی واضح تصویر 1848ء میں اوہائیو کے کنارے کھڑے دو مردوں کی بنی، جو غالباً کافی دیر تک بالکل جامد کھڑے رہے۔
وقت کو روکنے کا جادو اور حرکت کی سائنس
فوٹوگرافی کے آغاز نے وقت کے بارے میں انسان کا تصور بدل دیا۔ لوگ پہلی بار دیکھنے لگے کہ ایک لمحہ کیسا ہوتا ہے جب اسے ہمیشہ کے لیے روک لیا جائے۔
بعد میں ایڈورڈ مائبرج (Eadweard Muybridge) نے حرکت کو فریم بہ فریم دکھانے کے تجربات کیے، جس نے فلم، سنیما اور موشن پکچر کے لیے بنیاد رکھی۔ یہ سلسلہ براہِ راست اسی جگہ سے شروع ہوا جہاں ڈیگیرے نے پہلی بار ایک ساکن انسان کی جھلک محفوظ کی تھی۔
1838ء کی وہ دھندلی سی تصویر ایک تاریخی سنگِ میل ہے۔ آج دنیا میں روزانہ تقریباً پانچ ارب تصاویر بنتی ہیں، لیکن اس سارے سفر کی ابتدا اسی ایک خاموش سی گلی سے ہوئی تھی، جہاں ایک شخص بے خبر کھڑا جوتے پالش کروا رہا تھا، اور تاریخ اسے ہمیشہ کے لیے محفوظ کر رہی تھی۔
اس ایک تصویر نے ثابت کیا کہ انسان ہمیشہ اپنی موجودگی کو محفوظ کرنے کی خواہش رکھتا ہے، خواہ ٹیکنالوجی کتنی ہی ناپختہ کیوں نہ ہو۔
جب ’سیلفی‘ نے جنم لیا
کیا آپ جانتے ہیں کہ جس سیلفی نے آج کل سوشل میڈیا پر دھوم مچا رکھی ہے، اس کی کہانی کتنی پرانی ہے؟ یہ قصہ اسمارٹ فونز یا لفظ ’سیلفی‘ کے 2013 کے ”ورڈ آف دی ائیر“ بننے سے بھی بہت پہلے کا ہے۔
اگرچہ، 2002 میں کسی آسٹریلوی نے اسے مذاق میں ”سیلفی“ کا نام دے کر انٹرنیٹ پر ضرور مشہور کیا ہو، لیکن اپنی تصویر خود لینے کا یہ شوق فوٹوگرافی کی پیدائش کے ساتھ ہی شروع ہو گیا تھا۔
ہم بات کر رہے ہیں 1839 کی! فلاڈیلفیا میں رابرٹ کارنیلیئس نام کا ایک نوجوان کیمیا دان تھا۔ ایک دن وہ اپنی خاندانی دکان سے باہر نکلا اور ایک حیرت انگیز تجربہ کرنے کا فیصلہ کیا۔
اس نے کیمرے کی لینس پر لگی ٹوپی ہٹائی، پھر دوڑ کر فریم کے اندر آیا اور تقریباً ایک منٹ تک ساکت بیٹھا رہا، اس کے بعد دوبارہ دوڑ کر گیا اور لینس کو ڈھانپ دیا۔
جب تصویر مکمل ہوئی تو وہ دنیا کی پہلی ممکنہ فوٹوگرافک پورٹریٹ بن چکی تھی۔ کارنیلیئس نے فخر سے اس کے پیچھے لکھا: ”یہ اب تک لی گئی پہلی روشنی کی تصویر ہے۔ 1839“ ۔ یہ تصویر محض ایک تصویر نہیں، بلکہ دنیا کی پہلی سیلفی تھی۔
کارنیلیئس نے ثابت کر دیا کہ وہ صرف کیمیا دان نہیں، بلکہ ایک فطری فوٹوگرافر ہے۔ اس وقت کے مشہور رسالے ’گوڈی کی لیڈیز بُک‘ نے 1840 میں ان کی دل کھول کر تعریف کی: ”ایک ڈگیوریوٹائپسٹ (فوٹوگرافر) کے طور پر، ان کے نمونے ملک میں دیکھے گئے بہترین نمونے ہیں۔ ہم نے انہیں خود لاجواب پایا ہے۔“
اگلی بار جب آپ کوئی ‘سیلفی’ لیں، تو یاد رکھیے کہ آپ صرف ایک تصویر نہیں لے رہے، بلکہ آپ 1839 میں رابرٹ کارنیلیئس کے شروع کیے گئے فنکارانہ ورثے کو آگے بڑھا رہے ہیں۔
سب سے پہلی رنگین تصویر کی دلچسپ کہانی!
فوٹو کھینچنے والا کیمرہ ہمیشہ سے ہماری آنکھ کی نقل کرتا آیا ہے۔ قدیم زمانے میں، جب کیمرہ نہیں تھا تو ”کیمرہ اوبسکورا“ نام کا ایک سادہ سا ڈبہ ہوتا تھا جس میں چھوٹے سوراخ سے روشنی اندر آتی تھی اور دیوار پر تصویر الٹی بن جاتی تھی۔ پرانے زمانے کے مصور اسی ڈبے کو دیکھ کر پینٹنگز بناتے تھے تاکہ ان کی تصویریں زیادہ حقیقت کے قریب ہوں۔
لیکن جب فوٹوگرافی ایجاد ہوئی، یعنی تصویر کو محفوظ کرنے کا فن آیا، تو اس سادہ سی ”مصنوعی آنکھ“ میں بھی ہماری اصلی آنکھ جیسے بہترین پرزے لگنا شروع ہو گئے، جیسا کہ تیز لینس، روشنی کنٹرول کرنے والے سوراخ، تیز شٹر، فوکس سیٹنگز
جب فنکاروں کو لگا کہ یہ کیمرہ بھی پینٹنگز کی طرح ایک بڑا فن بن سکتا ہے، تو کیمرے کی ٹیکنالوجی میں جیسے پر لگ گئے اور یہ بڑی تیزی سے آگے بڑھی!
جوزف نیسیفور نیپس نے 1826 میں دنیا کی پہلی تصویر کھینچی۔ اس کے صرف 35 سال بعد، یعنی 1861 میں، ایک بہت ہی ذہین سائنس دان، جیمز کلرک میکسویل (جو اپنے عجیب و غریب سائنسی تجربوں کے لیے مشہور تھے)، نے ایک کمال کر دیا!
انہوں نے دنیا کی پہلی ایسی رنگین تصویر بنائی جو فوراً پھیکی نہیں پڑی اور نہ ہی اسے ہاتھ سے رنگ بھرنے کی ضرورت پڑی!
یہ تصویر ایک ٹارٹن فیتے کی تھی۔ میکسویل نے یہ رنگ کیسے بنائے؟ انہوں نے فیتے کی تین بار تصویر کھینچی۔ ہر بار ایک الگ رنگ کا شیشہ (فلٹر) استعمال کیا: سرخ، نیلا، اور پیلا۔ پھر ان تینوں تصاویر کو آپس میں ملا دیا اور یوں ایک مکمل رنگین تصویر تیار ہو گئی!
ان کا یہ طریقہ کار ہماری آنکھ کے اصولوں پر مبنی تھا، کہ آنکھ بھی ایسے ہی رنگوں کو دیکھتی اور پہچانتی ہے۔
میکسویل ایک ایسے آدمی تھے جنہوں نے سائنس میں بہت کچھ کیا، اس لیے ان کی رنگین فوٹوگرافی کا یہ کارنامہ اکثر نظرانداز ہو جاتا ہے۔ لیکن آج بھی، ہم اسی اصول پر چل رہے ہیں!
پرانے زمانے میں خبر رساں ایجنسیاں بھی تصویریں بھیجنے کے لیے رنگوں کو الگ الگ کر کے بھیجتی تھیں۔ یہاں تک کہ آپ کے ہاتھ میں موجود جدید ڈیجیٹل کیمرے بھی روشنی کو پکڑنے کے لیے آج بھی اسی ”رنگوں کو الگ کرنے“ کے پرانے اصول پر انحصار کرتے ہیں جو میکسویل نے دریافت کیا تھا۔
میکسویل نے یہ تصویر ایک کیمرہ ایجاد کرنے والے فوٹوگرافر تھامس سٹّن کی مدد سے کھینچی، لیکن ان کی دلچسپی صرف اپنے ”رنگین نظریے کو ثابت کرنے“ میں تھی، فوٹوگرافی کو بہتر بنانے میں نہیں۔
ویسے تو میکسویل نے آغاز کر دیا تھا، لیکن رنگین تصویروں کو واقعی شاندار بننے میں کچھ وقت لگا۔ 1877 میں بھی کچھ تصاویر بنیں، لیکن ان میں وہ چمک دمک اور زندگی نہیں تھی جو ہاتھ سے رنگی ہوئی پرانی تصاویر میں ہوتی تھی۔ یہاں تک کہ 1860 کی دہائی میں ہاتھ سے رنگی گئی جاپانی سامورائی (Samurai) کی تصاویر، چاہے وہ مصنوعی لگیں، اپنے کرداروں کو ایک حیرت انگیز فوری پن دیتی تھیں جو شروع کی رنگین فوٹوگرافی نہیں دے پائی۔
آخرکار، بیسویں صدی کے اوائل میں، دو مزید موجدوں نے میکسویل کے فارمولے کو بہتر کیا اور اسے کامیاب بنا دیا۔ اب اصلی رنگین تصاویر آ گئیں۔ لیو ٹالسٹائی جیسے لوگ شاندار رنگوں میں نظر آئے۔ پہلی جنگ عظیم کے دوران پیرس شہر رنگین تصاویر میں زندہ ہو اٹھا۔
سینجر شیپرڈ کمپنی نے میکسویل کے اصول کو لے کر اسے مکمل طور پر بہتر کر دیا، لیکن بنیادی بات وہی رہی: سرخ، سبز اور نیلی تصاویر کو ملا کر ایک مکمل رنگین تصویر بنانا۔
یہ طویل اور شگفتہ سفر ہمیں یاد دلاتا ہے کہ فوٹوگرافی محض تصویر بنانے کا فن نہیں، بلکہ وقت، روشنی اور انسانی تخیل کا حسین امتزاج ہے۔ نیپس کی ابتدائی دھندلی تصویر سے لے کر ڈاگیئر کی تاریخی گلی کی جھلک، کارنیلیئس کی پہلی سیلفی اور جیمز کلرک میکسویل کی رنگین ایجادات تک، ہر قدم نے انسان کی خواہش کو ظاہر کیا، وقت کو محفوظ کرنے، لمحوں کو ہمیشہ کے لیے جکڑنے اور دنیا کو اپنی نگاہ سے دیکھنے کی خواہش۔ آج ہم صرف ایک کلک سے تصویر بناتے ہیں، لیکن یہ ہر کلک ایک صدیوں پر محیط تحقیق، جستجو اور جدت کی داستان کا حصہ ہے۔ ہر تصویر، ہر سیلفی اور ہر رنگین لمحہ ہمیں اس انسانی شوق کی یاد دلاتا ہے جو پہلی بار نیپس کی کھڑکی سے نظر آنے والے منظر سے شروع ہوا تھا اور آج رنگوں کا ایک جہان بن چکا ہے۔
نوٹ: اس فیچر کی تیاری میں اوپن کلچر ڈاٹ کام کے مختلف آرٹیکلز سے مدد لی گئی ہے۔ امر گل




