
ہزاروں برس پہلے، جب دریائے سندھ کے کنارے اینٹوں سے بنے منظم شہر آباد تھے، نکاسیِ آب کے شاندار نظام کام کر رہے تھے اور شہری زندگی اپنے عروج پر تھی، تب کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ یہ عظیم تہذیب کسی جنگ، حملے یا اچانک قدرتی آفت کے بغیر، خاموشی سے ماند پڑ جائے گی۔ آج جدید سائنس نے بالآخر اس خاموش زوال کے پس پردہ چھپی ایک بڑی وجہ کو بے نقاب کر دیا ہے: صدیوں پر محیط خشک سالیاں اور بدلتا ہوا موسم۔
اسپرنگر نیچر سے وابستہ سائنسی جریدے ’کمیونیکیشنز ارتھ اینڈ انوائرمنٹ‘ میں شائع ہونے والی ایک تازہ تحقیق کے مطابق، وادیٔ سندھ کی تہذیب کسی ایک تباہ کن واقعے کا شکار نہیں ہوئی، بلکہ یہ ایک طویل، بتدریج اور غیر ہموار عمل کے تحت زوال پذیر ہوئی، ایسا عمل جس کی جڑیں مسلسل ماحولیاتی دباؤ میں پیوست تھیں۔
محققین کا خیال ہے کہ یہ حالات، دیگر سماجی اور اقتصادی عوامل کے ساتھ، ممکنہ طور پر تہذیب کے زوال میں معاون ہیں۔
وادیٔ سندھ کی تہذیب (Indus Valley Civilization) انسانی تاریخ کی قدیم ترین شہری ثقافتوں میں شمار ہوتی ہے۔ یہ تہذیب تقریباً 5,000 سے 3,500 سال قبل دریائے سندھ اور اس کے معاون دریاؤں کے کنارے، موجودہ پاکستان اور شمال مغربی بھارت میں پروان چڑھی۔ موئن جو دڑو، ہڑپا اور دیگر شہر اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ یہ معاشرہ منصوبہ بندی، شہری نظم، انجینئرنگ اور پانی کے مؤثر انتظام میں اپنے زمانے سے کہیں آگے تھا۔
ماہرین وادی سندھ کی تہذیب کو قدیم مصر اور میسوپوٹیمیا کے ساتھ ساتھ اپنے وقت کے سب سے اہم معاشروں میں سے ایک قرار دیتے ہیں۔ اس تہذیب کے پاس پانی کے انتظام کے جدید نظام، ایک تحریری رسم الخط اور زراعت اور تجارت کے ارد گرد ایک پھلتی پھولتی معیشت کے ساتھ بڑے شہر تھے۔ اپنے عروج، یعنی 4,500 سے 3,900 سال قبل کے دوران، یہ تہذیب وسیع سڑکوں، نکاسیٔ آب کے مربوط نظام، پکے گھروں اور شہری سہولیات کے باعث ممتاز تھی۔ مگر سوال یہ تھا کہ اتنی مضبوط بنیادوں والی تہذیب آخر کیوں آہستہ آہستہ کمزور پڑ گئی؟
اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لیے انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی گاندھی نگر کے ایک سول انجینئر، نیو سائنٹسٹ وِمل مشرا اور ان کے ساتھی محققین نے جدید موسمیاتی ماڈلز کی مدد سے 5,000 سے 3,000 سال قبل (یعنی 3000 سے 1000 قبل مسیح) کے موسمی حالات کی تشکیلِ نو کی۔ یہ کوئی معمولی کام نہ تھا۔ ماضی کے موسم کو جانچنے کے لیے انہوں نے قدرت کے محفوظ کردہ ”ریکارڈز“ کا سہارا لیا۔
3000 سے 2475 قبل مسیح تک، تجزیہ سے پتہ چلتا ہے کہ اس علاقے میں بہت زیادہ بارش ہوئی، کیونکہ اس عرصے کے دوران ٹراپیکل بحر الکاہل نسبتاً ٹھنڈا تھا۔ لیکن اس کے بعد کی صدیوں میں سمندر گرم ہونا شروع ہوا جس کی وجہ سے بارش میں کمی اور درجہ حرارت میں اضافہ ہوا۔
وِمل مشرا اور ان کے ساتھیوں نے 5,000 سے 3,000 سال قبل کے عرصے میں خطے کے موسمیاتی نمونوں کی تشکیلِ نو کی۔ ان کے تجزیے میں موسمیاتی ماڈلنگ کے ساتھ ساتھ قدیم ماحولیاتی تبدیلی کے متعدد بالواسطہ اشاریے شامل تھے۔ ان میں بھارت کی دو غاروں میں موجود اسٹالیکٹائٹس اور اسٹالاگمائٹس میں محفوظ کیمیائی نشانیاں، اور شمال مغربی بھارت کی پانچ جھیلوں میں درج پانی کی سطح کی تاریخیں شامل تھیں۔
ان تمام شواہد کو یکجا کرنے کے بعد ایک واضح تصویر سامنے آئی۔ تحقیق کے مطابق اس طویل عرصے میں خطے کا اوسط درجۂ حرارت تقریباً 0.5 ڈگری سیلسیس بڑھا، جبکہ سالانہ بارش میں 10 سے 20 فیصد تک کمی واقع ہوئی۔ یہ تبدیلی معمولی دکھائی دے سکتی ہے، مگر زراعت پر انحصار کرنے والی قدیم تہذیبوں کے لیے یہ ایک سنگین چیلنج تھی۔
اس سے بھی زیادہ تشویش ناک انکشاف یہ تھا کہ اس عرصے میں چار طویل اور شدید خشک سالیاں آئیں: یہ خشک سالیاں 4,450 سے 3,400 سال قبل کے درمیان واقع ہوئیں۔ ہر خشک سالی کی مدت 85 برس سے زیادہ تھی۔ وادیٔ سندھ کی تہذیب سے وابستہ 65 سے 91 فیصد علاقے ان سے متاثر ہوئے، جس سے پانی کی دستیابی پر وسیع اور دیرپا اثرات پڑے۔ یعنی یہ کوئی مقامی یا وقتی مسئلہ نہیں تھا، بلکہ پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لینے والا ایک مسلسل بحران تھا۔
ماحولیاتی دباؤ نے صرف فصلوں اور پانی کو متاثر نہیں کیا، بلکہ انسانی آباد کاری کے نقشے بھی بدل ڈالے۔ تحقیق کے مطابق، 5,000 سے 4,500 سال قبل تک زیادہ تر آبادیاں اُن علاقوں میں تھیں جہاں بارش نسبتاً زیادہ ہوتی تھی۔ 4,500 سال قبل کے بعد حالات بدلنے لگے۔ لوگ بتدریج دریائے سندھ کے قریب آباد ہونے لگے
یہ تبدیلی اس بات کی علامت تھی کہ جیسے جیسے بارش غیر یقینی ہوتی گئی، انسان زیادہ قابلِ اعتماد آبی وسائل کی طرف رخ کرنے پر مجبور ہو گئے۔ یہ ایک خاموش مگر فیصلہ کن جغرافیائی تبدیلی تھی۔
تحقیق میں ایک خاص طور پر طویل خشک سالی کی نشاندہی کی گئی، جو 3,531 سے 3,418 سال قبل تک، یعنی 113 برس جاری رہی۔ یہی وہ دور ہے جسے ماہرین آثارِ قدیمہ خطے میں وسیع پیمانے پر شہری زندگی کے خاتمے (Deurbanization) سے جوڑتے ہیں۔
شہر چھوٹے ہونے لگے، بستیاں بکھر گئیں، اور وہ پیچیدہ شہری ڈھانچہ جو کبھی وادیٔ سندھ کی شناخت تھا، آہستہ آہستہ تحلیل ہونے لگا۔
اس سائنسی تحقیق کا سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ وادیٔ سندھ کی تہذیب کسی ایک موسمی سانحے یا قدرتی آفت کے باعث اچانک ختم نہیں ہوئی۔ اس کے برعکس، یہ ایک طویل، غیر مساوی اور تدریجی زوال تھا، جس میں بار بار آنے والی خشک سالیوں نے بنیادی کردار ادا کیا۔
یہ تحقیق ہمیں یہ بھی یاد دلاتی ہے کہ ماحولیاتی دباؤ خاموش ہوتا ہے، مگر اس کے اثرات دور رس اور فیصلہ کن ہوتے ہیں۔ قدیم تہذیبوں کی طرح، آج کی دنیا بھی موسمیاتی تبدیلیوں کے نازک دور سے گزر رہی ہے اور اس تناظر میں وادیٔ سندھ کی داستان ہمارے لیے ایک گہرا سبق رکھتی ہے۔
سائنس کی تازہ روشنی میں اب یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ تہذیبیں صرف تلواروں یا زلزلوں سے نہیں گرتیں، بعض اوقات وہ بارش کے رک جانے سے بھی آہستہ آہستہ مٹ جاتی ہیں۔
نوٹ: اس فیچر کی تیاری میں ”اسپرنگر نیچر“ میں شائع ہونے والے طویل تحقیقی مقالے سے مدد لی گئی ہے۔ امر گل




