آرمینیا کے قدیم ’ڈریگن اسٹونز‘: چھ ہزار سال پرانے آبی فرقے کی یادگاریں

فیچر

ماہرینِ آثارِ قدیمہ کا کہنا ہے کہ وہ بالآخر آرمینیا کے مشہور مگر پراسرار ’’ڈریگن اسٹونز‘‘ (Vishaps) کی چھ ہزار سال پرانی گتھی سلجھانے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ یہ دیوہیکل تراشیدہ پتھر آتش فشانی پہاڑی ڈھلوانوں اور بلند چراگاہوں میں بکھرے ہوئے ہیں، جہاں کسی قدیم مستقل آبادی کے آثار کبھی نہیں ملے۔

یریوان اسٹیٹ یونیورسٹی (YSU) اور انسٹیٹیوٹ آف آرکیالوجی اینڈ ایتھنولوجی کی نئی تحقیق پہلی جامع شماریاتی اور جغرافیائی تجزیاتی کاوش ہے، جس میں 115 معروف ڈریگن اسٹونز کا مطالعہ کیا گیا۔ اس تحقیق کے مطابق یہ یادگاریں نہ تو سرحدی نشان تھیں اور نہ ہی محض اساطیری علامتیں، بلکہ ایک قدیم ’’آبی فرقے‘‘ کے مقدس توتم تھے، جن کی رسومات پگھلتی برف کے پانی، قدرتی چشموں اور پہاڑی علاقوں میں چرواہوں کی موسمی نقل و حرکت سے جڑی ہوئی تھیں۔

’ڈریگن اسٹونز‘ گزشتہ صدی سے سائنس دانوں کے لیے بحث کا موضوع رہے ہیں۔ ہر پتھر کے تمام اطراف کو تراشا اور چمکایا گیا ہے، سوائے ’’دم‘‘ کے حصے کے۔ یہ یکساں خصوصیت اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ یہ پتھر اصل میں عمودی حالت میں نصب تھے، اگرچہ آج ان میں سے اکثر زمین پر گرے یا افقی حالت میں پڑے ہیں۔ بعض پتھر کھال اتارے گئے مویشی کی شکل سے مشابہ ہیں، کچھ مچھلی کی طرز پر بنے ہوئے ہیں، اور کچھ میں دونوں شکلوں کا امتزاج نظر آتا ہے۔ ان سب کو جمع کرنا، تراشنا اور انتہائی دشوار گزار پہاڑی علاقوں تک لے جانا ایک غیر معمولی محنت اور اجتماعی کوشش کا تقاضا کرتا تھا۔

تحقیق اس وقت مزید دلچسپ ہو گئی جب ماہرین نے یہ دریافت کیا کہ یہ تمام پتھر تقریباً ہمیشہ پانی کے ذرائع کے قریب واقع ہیں، چاہے وہ پہاڑی چشمے ہوں، آتش فشانی گڑھے ہوں یا قدیم آبپاشی کے آثار، گویا انہیں جان بوجھ کر وہاں نصب کیا گیا ہو جہاں پانی زمین پر نمودار ہوتا ہے۔

محققین کے مطابق: ’’اگرچہ زیادہ تر ’ویشاپ‘ یا تو گرے ہوئے ہیں یا زمین پر افقی حالت میں ہیں، لیکن ان کی تینوں اقسام میں تمام اطراف پر تراش خراش اور پالش موجود ہے، جبکہ ’دم‘ کا حصہ ہمیشہ بغیر تراش کے چھوڑا گیا ہے۔ یہ مستقل خصوصیت مضبوطی سے اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ یہ پتھر اصل میں عمودی حالت میں کھڑے کیے گئے تھے۔‘‘

ریڈیوکاربن ڈیٹنگ، بلندی کے نقشے، قدرتی مناظر سے تعلق اور پتھروں کے سائز و اقسام کے تجزیے سے یہ بات سامنے آئی کہ ویشاپس کو جان بوجھ کر دو مختلف بلندیوں پر تقسیم کیا گیا: ایک تقریباً 1,900 میٹر (6,200 فٹ) اور دوسری 2,700 میٹر (8,900 فٹ)۔ یہ دونوں سطحیں چرواہوں کی سالانہ موسمی نقل و حرکت کے مختلف مراحل اور بالکل مختلف ماحول کی نمائندگی کرتی ہیں۔ حیرت انگیز طور پر سب سے بھاری پتھر نچلی، آسان رسائی والی جگہوں کے بجائے انتہائی بلند پہاڑوں تک لے جائے گئے، جہاں سال میں صرف چند ہفتے برف پگھلنے کے بعد تعمیر ممکن ہوتی تھی۔

زیادہ بلندیوں پر، جہاں قدرتی چشمے پھوٹتے ہیں اور برف پگھل کر وادیوں کی طرف بہتی ہے، وہاں مچھلی کی شکل والے پتھر غالب ہیں۔ جبکہ نسبتاً کم بلندیوں پر، جہاں پانی کو زرعی مقاصد کے لیے موڑا جاتا تھا، مویشی کی کھال سے مشابہ پتھر زیادہ پائے جاتے ہیں۔ یہ ترتیب اس موسمی نقل و حرکت سے ہم آہنگ ہے جس میں انسان اور مویشی پانی کے ساتھ ساتھ پہاڑوں میں اوپر نیچے جاتے تھے۔

محققین کے مطابق ان پتھروں کی جگہ اور انہیں منتقل کرنے میں درکار غیر معمولی محنت محض منصوبہ بندی ہی نہیں بلکہ گہری مذہبی اور رسوماتی اہمیت کی عکاس ہے۔ پانی کے ذرائع سے ان کا مستقل تعلق، ان کی چمک دار سطحیں اور سخت پہاڑی ماحول میں ان کی درست تنصیب اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ پانی کو مقدس سمجھا جاتا تھا اور اس کے احترام و حفاظت کے لیے ایسی یادگاریں قائم کی جاتی تھیں۔

کوہِ آراگاٹس پر واقع اہم آثارِ قدیمہ کے مقام ٹیرِنکاتار سے حاصل ہونے والی ریڈیوکاربن ڈیٹنگ بتاتی ہے کہ بعض ڈریگن اسٹونز 4200 تا 4000 قبل مسیح کے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ آبی رسوماتی نظام چالکولیتھک (تانبہ و پتھر کے دور) میں وجود میں آیا، یعنی یورپ میں میگالی تھک روایات (جیسے اسٹون ہینج) کے آغاز سے کم از کم ایک ہزار سال پہلے۔

اسٹون ہینج جیسے مقامات کے برعکس، محققین کا کہنا ہے کہ ویشاپس کا تعلق جیومیٹری یا فلکیاتی ترتیب سے کم اور پانی کے رویّے سے زیادہ ہے۔ کسی چشمے پر تراشیدہ پتھر نصب کرنا عقیدت اور تحفظ کا عمل تھا۔ چونکہ سب سے بڑے پتھروں کو منتقل کرنے کے لیے اجتماعی محنت درکار تھی، اس لیے یہ کام مضبوط سماجی یا روحانی قیادت کے تحت انجام دیا گیا ہوگا۔

محققین لکھتے ہیں: ’’ان کی بلندی کے مطابق تقسیم اور سائز کے پہلے شماریاتی تجزیے سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی تعمیر دانستہ طور پر محنت طلب تھی، نہ کہ اتفاقی۔ نتائج اس مفروضے کی تائید کرتے ہیں کہ ویشاپس ایک قدیم آبی فرقے سے گہرا تعلق رکھتے تھے، کیونکہ یہ زیادہ تر پانی کے ذرائع، بلند پہاڑی چشموں اور قدیم آبپاشی نظاموں کے قریب واقع ہیں۔‘‘

انہوں نے مزید کہا: ’’مختلف بلندیوں پر ویشاپس کی موجودگی ممکنہ طور پر موسمی نقل مکانی یا زیارتوں، یا دونوں سے جڑی ہو سکتی ہے۔‘‘

یہ تحقیق اب تک کی سب سے مضبوط دلیل پیش کرتی ہے کہ ڈریگن اسٹونز نہ تو اتفاقی تھے اور نہ محض تزئینی، بلکہ ایک قدیم آبی فرقے کا حصہ تھے، جن کی مقدس یادگاریں آج بھی آرمینیا کے بلند پہاڑی علاقوں میں بکھری ہوئی ہیں۔

محققین کے مطابق: ’’بلند مقامات پر ان کی موجودگی اس بات کی غماز ہے کہ ان کے پیچھے گہرے ثقافتی محرکات تھے، جو غالباً قدیم آبی فرقے سے وابستہ تھے، کیونکہ ویشاپس عموماً چشموں کے قریب واقع ہیں اور مچھلی کی شکلوں میں دکھائی دیتے ہیں۔ انسانی تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ مذہبی فرقے اکثر اپنی معاشرتی سطح پر بڑی محنت اور اجتماعی کوششوں سے وابستہ ہوتے ہیں۔‘‘

آخر میں محققین نے نتیجہ اخذ کیا کہ یہ دریافتیں بلند پہاڑی آثارِ قدیمہ اور ان سماجی ڈھانچوں کو سمجھنے میں اہم اضافہ ہیں جنہوں نے قدیم انسانی معاشروں کی تشکیل کی۔

نوٹ: یہ فیچر تحریر نیو اٹلس ویب سائٹ پر شائع برون وِن تھامسن کی تحریر پر مشتمل ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button