
سقوطِ ڈھاکا کے بعد یوں محسوس ہوا تھا کہ شاید ریاست اپنی غلطیوں سے سیکھے گی، قومیتوں اور زبانوں کو ان کا وہ حق دے گی جس سے وفاق مضبوط ہوتا ہے، مگر جوں جوں ہم تاریخ کے ابواب پلٹتے ہیں، اندازہ ہوتا ہے کہ واقعات بدل گئے، نقشہ بدل گیا، لیکن ریاستی ذہنیت میں وہ تبدیلی نہ آ سکی، جس کی امید لاکھوں لوگوں نے کی تھی۔ ون یونٹ ٹوٹ گیا، مگر ون یونٹ بنانے والی سوچ آج بھی کمزور صوبوں، کمزور زبانوں اور کمزور شناختوں کے اوپر بوجھ کی طرح قائم ہے۔ 1973 کا آئین بظاہر ایک وفاقی معاہدہ ہے، مگر لسانی اور قومی حقوق کے معاملے میں یہ مرکزیت کے فلسفے کا خاموش تسلسل ہے۔
اسی تسلسل کو ہم خیبر پختونخوا میں بھی محسوس کرتے ہیں۔ یہ صوبہ زبانوں کے اعتبار سے کثیراللسانی ہے، مگر سرکاری سطح پر اس تنوع کو وہ مقام نہیں ملا جو زمینی حقیقت کا تقاضا ہے۔ خیبر پختونخوا میں پشتو سب سے بڑی زبان ہے، اس کے ساتھ ہزارہ میں ہندکو بولی جاتی ہے، کوہستان میں کوہستانی زبانیں، چترال میں کھوار، وزیرستان میں وزیر اور محسود لہجے، کرم اور اورکزئی میں توروالی اور دیگر قدیم زبانیں بولی جاتی ہیں۔
انہی زبانوں کی اس بھیڑ میں بلوچوں کی موجودگی بھی کم اہم نہیں۔ ڈیرہ اسماعیل خان، ٹانک، بنوں، لکی مروت، کرک اور کوہاٹ کے نواحی علاقوں میں بلوچ خاندان کئی نسلوں سے آباد ہیں۔ برصغیر کے پرانے راستوں، قبیلوں کی نقل مکانی اور سرحدی سرزمینیں اس تعلق کی گواہ ہیں۔ یہاں بلوچی زبان کسی حکومتی سرپرستی یا اسکول کے نصاب میں زندہ نہیں رہی، مگر گھروں، قبائلی روایتوں، مجالس اور سماجی یادداشت میں آج بھی اپنی جگہ رکھتی ہے۔ یہ زبان ایک خاموش بقا کی جنگ لڑتی ہے، جیسے پاکستان کے بیشتر خطوں میں مادری زبانیں ریاستی ترجیحات کے بغیر لڑتی آئی ہیں۔ ریاستی سطح پر یہ ساری زبانیں اپنی اصل آبادی کے باوجود ”غیر رسمی“ درجے پر کھڑی رہتی ہیں۔
تعلیمی نظام کی بات کریں تو خیبر پختونخوا کے اسکول، کالج اور یونیورسٹیاں بنیادی طور پر اردو اور انگریزی کے نظام میں چلتی ہیں۔ پشتو کو چند اضلاع میں نصابی سطح پر شامل ضرور کیا گیا ہے، مگر یہ کردار علامتی ہے، تدریسی نظام کا مرکز نہیں۔ ہندکو، کھوار، کوہستانی، توروالی اور دیگر مقامی زبانوں کو ابھی تک وہ رسمی حیثیت نہیں ملی کہ بچے انہیں اپنی علمی، تحقیقی یا ادبی زبان کے طور پر پڑھ سکیں۔ یوں صوبے کی اکثریتی آبادی اپنی ماں بولی میں تعلیم سے محروم رہتی ہے، اور زبانوں کے درمیان ایک غیر متوازن مقابلہ پیدا ہو جاتا ہے۔
دفتروں، عدالتوں اور سرکاری مراسلت میں بھی صورتحال وہی ہے جو باقی ملک میں ہے۔ عدلیہ کی زبان انگریزی، انتظامیہ کی زبان اردو اور عوام کی زبان پشتو، ہندکو یا کھوار، یوں تین دنیاؤں میں بٹی ہوئی ریاست لسانی انصاف کے بنیادی اصول سے اب تک دور کھڑی ہے۔ معیشت میں بھی یہی تقسیم جاری ہے۔ بازاروں میں پشتو بولی جاتی ہے۔ خیبر پختون خواہ کے صنعتوں میں اردو، اور بڑے کاروباری مراکز میں انگریزی یوں زبانیں معاشی طاقت کے مطابق طبقاتی تقسیم کا حصہ بن جاتی ہیں۔
یہ سارا منظرنامہ فیصلہ کن طور پر ایک بات کو ثابت کرتا ہے۔ سقوطِ ڈھاکا کے بعد جو ہمارے سامنے آئین آیا، وہ اگرچہ کئی حوالوں سے جمہوری پیش رفت تھا، مگر لسانی حقوق کے معاملے میں یہ اس سوچ کا تسلسل ہے جس نے بنگال کو متنفر کیا تھا۔ ریاست آج بھی زبان کو شناخت کے بجائے ”مسئلہ“ سمجھتی ہے، اور طاقت ور زبانوں کو ”مرکز“ کی علامت بنا دیتی ہے، جبکہ دیگر زبانیں صرف ثقافتی تقریبات یا علامتی تذکروں تک محدود رہ جاتی ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ ”ماں بولی“ کے سوال کے ساتھ ہمارا سفر خیبر پختونخوا سے بھی آگے بڑھتا ہے۔ جیسے پنجاب اور خیبر پختونخوا کی زبانیں سرکاری سرپرستی کے بغیر مشکلات کا سامنا کرتی ہیں، ویسے ہی سندھ، بلوچستان اور گلگت بلتستان کی زبانیں بھی اسی ریاستی مرکزیت کے بوجھ تلے دب جاتی ہیں۔ اگلے حصے میں ہم انہی صوبوں کی لسانی صورتحال کا جائزہ لیں گے کہ حقیقت میں پاکستان کی زبانیں کہاں کھڑی ہیں، اور کیوں ”ماں بولی“ کا سوال محض ایک تعلیمی نہیں بلکہ ایک سیاسی و سماجی سوال بھی ہے۔
(نوٹ: دنیا ہر سال 21 فروری کو عالمی مادری زبان کا دن مناتی ہے۔ یہ دن صرف تقویم کی ایک تاریخ نہیں بلکہ انسانی تاریخ کی اس جدوجہد کا استعارہ ہے جس میں زبانوں نے شناخت، آزادی اور ثقافتی وقار کی قیمت اپنے شہیدوں کے خون سے ادا کی۔ یونیسکو نے 1999 میں اس دن کو عالمی سطح پر تسلیم کیا، مگر اس کی بنیاد 1952 کے وہ نوجوان تھے جنہوں نے ڈھاکا کی سڑکوں پر اپنی زبان بنگلا کے حق کے لیے جان دی۔ اس دن کی اصل روح یہی بتاتی ہے کہ دنیا کی کوئی بھی زبان ”چھوٹی“ نہیں ہوتی، ہر زبان اپنے لوگوں کی تاریخ، دانش، ثقافت اور اجتماعی یادداشت کی امین ہوتی ہے۔ اس لیے مادری زبان کا تحفظ دراصل انسان کی اندرونی آزادی، فکری خودمختاری اور وجودی شناخت کا تحفظ ہے۔
یوں 21 فروری ہمیں یہ بھی یاد دلاتا ہے کہ جن معاشروں میں زبانوں کو دبایا جاتا ہے، وہاں انسان بھی خاموش ہو جاتے ہیں، اور جہاں زبانوں کو جینے دیا جاتا ہے، وہاں معاشرے بھی سانس لیتے ہیں۔)
جاری ہے




