عوامی ہیرو دھرمیندر: ایک تجزیہ (حصہ سوم)

ذوالفقار علی زلفی

سبز انقلاب ، قوم پرستی اور Hyper Masculinity

دھرمیندر کی شدید یا ہائپر مردانگی اسٹار امیج اور مقبولیت کے پسِ پشت محرکات میں دو اہم عناصر تھے ـ اول؛ سبز انقلاب اور دوم؛ بھارت چین اور بھارت پاکستان جنگ (1962 اور 1965) سے پیدا ہونے والی قوم پرستی ـ ان دو عناصر نے سماج میں دیہی محافظ مرد کی نفسیاتی ضرورت کو جنم دیا ـ دھرمیندر اس سماجی خواہش کا فلمی چہرہ بن گئے ـ دھرمیندر کی مردانگی ایک ایسے دیہی جسم کی سیاسی علامت بن گئی جو سماج کو بچانے کی صلاحیت رکھتا ہے ـ فلم بینوں نے پہلی دفعہ دیہی جسمانی طاقت کو سماجی masculinity کے طور پر شناخت کیا ـ

پنڈت نہرو (1947 سے 1964) نے ذرعی اصلاحات یعنی ڈیمز، آبپاشی کے نئے منصوبے اور لینڈریفارمز وغیرہ کے ذریعے سبز انقلاب کی بنیاد رکھی ـ نہرو کی وفات کے بعد وزیراعظم لال بہادر شاستری نے اس پالیسی کو جارحانہ انداز میں آگے بڑھا کر کسانوں کو جدید مشینری، کھاد اور بیج فراہم کئے جس سے اناج کی پیداوار بڑھی، قحط کے خوف کا خاتمہ ہوا اور دیہات بالخصوص پنجاب ، ہریانہ اور یوپی میں ایک خوش حال کسان طبقہ پیدا ہوا ـ بھارتی سماجی ماہرین کے مطابق سبز انقلاب کے نتیجے میں کسانوں کے پاس پیسہ آیا جس کی وجہ سے ان کے بچوں نے شہروں کا رخ کرکے شہری کسان طبقے کا روپ اختیار کیا ـ ماہرین کا اتفاق ہے کہ چھوٹے زمینداروں کی بڑھتی طاقت نے ملکیت پسند جارحانہ مردانگی کو بڑھاوا دیا ـ یہی تصور آگے چل کر دھرمیندر کے فلمی امیج میں منتقل ہوا ـ

چین بھارت جنگ (1962) میں ہندوستان کو شرم ناک شکست ہوئی ـ یہ ایک قومی صدمہ تھا جس نے فوج پر عوامی اعتماد کو کم زور کرکے عدم تحفظ کا احساس پیدا کیا ـ اس شکست نے سماج میں محافظ مردانگی کی شدید خواہش پیدا کی ۔ عوامی لاشعور میں ایک ایسا مرد ابھرا جو جسمانی طاقت کے ساتھ ساتھ دیہی ثقافت کا بھی حامل ہو ـ یہی نفسیاتی خلا بعد میں دھرمیندر کے کرداروں نے پورا کیا ـ

فوجی شکست کے پسِ منظر میں ہدایت کار چیتن آنند نے فلم "حقیقت” (1964) بنائی ـ اس فلم میں جارحانہ قوم پرستی کی بجائے شکست کو یادگار بنا کر قربانی کا فلسفہ پیش کیا گیا ـ کیفی اعظمی نے شیعہ اسلام کے فلسفہِ قربانی ( کربلا اور امام حسین کی شہادت) کے پسِ منظر میں مرثیہ نما گیت لکھا جو محمد رفیع کی آواز میں ہندوستان بھر میں پھیلتا چلا گیا:
کر چلے ہم فدا جان و تن ساتھیو،
اب تمہارے حوالے وطن ساتھیو۔

اس فلم نے دھرمیندر کو دیہی محافظ مردانگی کی شناخت دی ـ یہ مردانگی البتہ ان کی بعد کی شناخت سے مختلف ہے ـ اس فلم میں ان کی مردانگی کا تصور قربانی سے جڑا ہوا ہے ـ یہ فلم انہیں ایک خاموش، باوقار اور موت کو گلے لگانے والے سپاہی کے طور پر پیش کرتی ہے ـ یہ کردار ان کی ہائپر مردانگی کی بنیاد بن جاتی ہے ـ بعد میں یہی قربانی دینے والا سپاہی "محافظ” اور پھر 1970s میں "aggressive hyper-masculine” دیہی ہیرو بن کر سامنے آتا ہے ـ

پاکستان بھارت جنگ (1965) میں بھارت کو فتح ملی جس نے فوج کی ساکھ بہتر اور عوامی اعتماد کو مضبوط بنایا ـ جنگ کے بعد لال بہادر شاستری نے "جے جوان جے کسان” کا نعرہ لگایا جس نے کسان اور فوج کو بھارت کی طاقت کے دو ستون قرار دیا ـ جنگ کے بعد پیدا ہونے والی حب الوطنی پر مبنی قوم پرستانہ جذبات اور سبز انقلاب کے نتیجے میں خوشحال زمین دار طبقے کی پیدائش سینما اسکرین کا حصہ بن گئے جس سے ایک نئے دھرمیندر کا جنم ہوا ـ ریاستی نعرہ "جے جوان جے کسان” جب فلموں میں ڈھلنے لگا تو وہ اس نعرے کے مضبوط ترین نمائندے ثابت ہوئے ـ

فلم "پھول اور پتھر” (1966) میں پہلی دفعہ کسی ہیرو کے بدن کی نمائش ہوئی ـ فلم میں دھرمیندر کے مضبوط ننگے بدن اور جسمانی لڑائی کے سینز سماجی طاقت کا جسمانی اظہار بن گئے ـ دیہی سادگی اور ثقافت کے نمائندے کی حیثیت سے جب دھرمیندر نے سینما اسکرین پر کھلے سینے کے ساتھ لاتوں اور مکوں کا استعمال کیا تو وہ بھارت کی دیہی اکثریت کو زیادہ عوامی محسوس ہوا ـ اس اپنے پن نے انہیں عوام کا ہیرو بنا دیا ـ

”حقیقت“ میں دھرمیندر کی خاموش، شائستہ قربانی والی مردانگی اگر 1962 کے صدمے کی علامت تھی تو ”پھول اور پتھر“ (1966) میں انہی کی جارحانہ، جسمانی طاقت والی مردانگی 1965 کی فتح اور سبز انقلاب کی خوشحالی کی علامت بن گئی ـ جب کہ اندرا گاندھی کی ایمرجنسی کے دوران اور بعد میں ان کی یہ مردانگی دیہی غصے میں ڈھل گیا جو امیتابھ بچن کے شہری مڈل کلاس غصے کے لحاظ سے منفرد تھا ـ

دھرمیندر کا بدن باڈی بلڈنگ یا فٹنس سے نہیں بنا تھا بلکہ یہ پنجاب کی دیہی مردانگی کا ترجمہ تھا جسے پہلی دفعہ مین اسٹریم ہندی سینما میں نمائندگی ملی ـ یہ بذاتِ خود ایک ثقافتی واقعہ تھا جس نے اس دور کے معروض سے مل کر فلمی ثقافت پر دور رس اثرات مرتب کئے ـ دھرمیندر نے دیہی مردانگی کو قومی سطح تک پہنچا دیا ـ پنجاب چوں کہ فوجی بھرتی کا بھی اہم مرکز تھا اور کسان ثقافت کا گہوارہ بھی اس لئے دھرمیندر کے اسٹار امیج میں یہ دونوں مجتمع ہوگئے ـ

دھرمیندر سے پہلے اور ان کے عہد میں مڈل کلاس اسٹارز کی حکمرانی تھی ـ جیسے اشوک کمار، دلیپ کمار، دیو آنند، راج کپور، شمی کپور ، منوج کمار، راجندر کمار یا ان کے بعد راجیش کھنہ اور امیتابھ بچن ـ دھرمیندر واحد اداکار تھے جو دیہی کسان پسِ منظر رکھتے تھے ـ اس تناظر میں نہ دلیپ کمار کا اسٹارڈم ان کی مقبولیت کے آڑے آئی اور نہ ہی جب راجیش کھنہ کا رومانس طوفان بن کر آیا وہ ڈگمگائے ـ حتی کہ جب امیتابھ بچن کے اینگری ینگ مین سینما نے اساطیری درجہ حاصل کیا تب بھی دھرمیندر کی "He Man” شبیہ پوری طاقت کے ساتھ برقرار رہی ـ بلامبالغہ کہا جاسکتا ہے ان کی سماجی طبقاتی حیثیت دیگر ہیروؤں کے نسبت منفرد تھی اس لئے راجیش کھنہ اور امیتابھ بچن کے ادوار میں بھی ان کی محبوبیت شہری رجحانات کے مقابلے میں برقرار رہی ـ حتی کہ خانز (شاہ رخ، سلمان و عامر) کے اسٹارڈم کے عروج میں بھی وہ ناسٹلجیا کی صورت اپنی پوری آن، بان اور شان کے ساتھ قائم رہے ـ

جاری ہے

یہ بھی پڑھیں:

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button