عوامی ہیرو دھرمیندر: ایک تجزیہ (حصہ چہارم)

ذوالفقار علی زلفی

دیگر اداکاروں سے موازنہ

ہندوستانی سینما میں Masculinity کوئی نیا مظہر نہیں ہے ـ دھرمیندر سے پہلے یہ جنوبی سینما میں موجود تھا ـ جنوب کے سینماؤں پر لکھے تحقیقی مقالوں اور کتابوں سے وضاحت ہوتی ہے دھرمیندر سے پہلے ”مردانگی“ کی کم از کم چار مثالیں موجود تھیں ـ اس سے یہ نتیجہ بھی برآمد ہوتا ہے کہ سینما میں ہائپر مردانگی ایک مسلسل ثقافتی و جمالیاتی عمل ہے محض جسمانی طاقت نہیں ـ

جنوب میں ایم جی رام چندرن (تمل) ، شیوا جی گنیسن (تمل) ، این ٹی راما راؤ (تیلگو) اور راجکمار (کنڑ) کو بھارتی سینماؤں میں Masculinity کے اولین نمائندوں کی صورت شناخت کیا گیا ہے (واضح رہے مصنف نے براہ راست ان کی فلمیں نہیں دیکھیں اس لئے یہ ساری بحث کتابوں اور مقالوں کے پسِ منظر میں ہے) ـ تاہم شیوا جی گنیسن ایک استثنی ہیں جن پر آگے چل کر بات ہوگی ـ

تجزیاتی اور تحقیقی تحریروں سے پتہ چلتا ہے ان کی مردانگی لیکن جغرافیائی لحاظ سے محدود ، مقدس اور پاکیزگی کی خصوصیات سے مملو تھے ـ خاص طور پر اکیڈمک ماہرین جیسے امیت سرکار اور پروفیسر تھیوڈور بھاسکر نے جنوبی سینما کی ہائپر مردانگی کو پاکیزہ، غیرجنسی اور اخلاقی طاقت پر مبنی قرار دیا ہے ـ

این ٹی راما راؤ کلاسیک تیلگو سینما کے بہت بڑے اسٹار تھے ـ انہیں تیلگو سینما کا پہلا He Man قرار دیا جاتا ہے ـ ان کی ہائپر مردانگی ہندو مائتھالوجی سے عبارت ہے جو نظریاتی لحاظ سے دراوڑ تہذیبی تحریک سے جڑی ہوئی ہے ـ تحقیقی مقالوں کے مطابق ان کی فلموں جیسے "pathala bhairavi” (1951) , "Maya bazaar” (1957) یا "Sri Krishna pandaveeyam” (1966) وغیرہ سے ان کی جو ہائپر مردانگی کی شبیہ بنی وہ دھرمیندر کے دیہی اور میلو ڈرامہ اسٹار امیج کے مقابلے میں محدود رہی ـ یہی وجہ ہے این ٹی آر کی ہائپرمردانگی جنوب سے نہ نکل سکی ـ تیلگو اسکالرز انہیں مائتھالوجیکل مردانگی کا سب سے بڑا نمائندہ تسلیم کرتے ہیں ـ یہ بڑائی لیکن انہیں دھرمیندر کی نسبت محدود ہونے کا سبب بھی بناتی ہے ـ

تمل اداکار ایم جی رام چندرن کی ہائپر مردانگی کو براہ راست تمل سیاست اور سبالٹرن طبقات سے جوڑا جاتا ہے ـ ان کے اسٹار امیج میں بھی دراوڑ تہذیبی تحریک کے اثرات شامل رہے ہیں ـ پچاس اور ساٹھ کی دہائیوں میں وہ سینما اسکرین پر غریب اور محنت کش طبقات کے لئے لڑنے والے ہیرو کی حیثیت سے معروف تھے ـ ان کے بیشتر کردار بھی نچلے طبقات سے متعلق تھے ـ مثلاً "Malaikkallan” (1954) , "Enga veettu pillai” (1965) یا "Rickshawkaran” (1971) وغیرہ ـ جہاں ان کا امیج تمل سیاست سے متعلق تھا وہاں ان کے اس امیج نے بعد میں تمل سیاست پر واضح اثرات بھی مرتب کئے ـ

کنڑ سینما کے سپراسٹار ڈاکٹر راجکمار کی Masculinity یک سر مختلف رہی ہے ـ فلمی اسکالر رگھوندرا (M.K Raghavendra) کے مطابق وہ محض ایک ایکشن ہیرو نہ تھے بلکہ وہ کنڑ تہذیب و ثقافت کے نمائندہ تھے ـ ڈاکٹر راجکمار کا اسٹار ٹیکسٹ کثیرالمعنی تھا ـ انہیں مائتھالوجی کے علاوہ سماجی تبدیلی کے اہم کردار کے طور پر بھی دیکھا گیا ـ ان پر لکھی تحریروں سے جو وضاحت ملتی ہے ان کے مطابق وہ کرناٹک کے ثقافتی، سیاسی اور سماجی ہیرو تھے ـ گویا ان کی masculinity کا دھرمیندر سے براہ راست موازنہ اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے ـ

تمل سپراسٹار شیوا جی گنیسن کا بھی دھرمیندر سے تقابل نہیں بنتا ـ تمل فلمی ناقدین کے مطابق شیوا جی کی مردانگی ان کے جسم سے نہیں آواز، ڈائیلاگ ڈیلیوری اور پیش کش سے سامنے آتی ہے ـ اس لحاظ سے وہ ایم جی آر کے اسٹار امیج سے بھی قطعی طور پر مختلف ہیں ـ

ایم جی آر کی اسٹار امیج سیاسی اور دراوڑ تحریک سے منسلک ہے جب کہ شیوا جی کا اسٹار امیج تھیٹریکل، جذباتی اور نہایت ہی گہرائی کا حامل ہے ـ

درج بالا بحث سے نتیجہ نکلتا ہے کہ اول جنوبی سینماؤں کی ہائپر مردانگی ایک اکائی نہیں ہے ـ دوم ان کی متنوع مردانگی دھرمیندر کی طرح دیہی اور پین انڈین اپیل نہیں رکھتی ـ جنوب کی اپنی ثقافتوں اور تہذیبوں کے اندر ان کی اہمیت ثابت ہے ـ پورے بھارت کے تناظر میں دیکھا جائے تو ان کی محدودات واضح ہیں، وہ صرف اپنے مخصوص جغرافیے تک بااثر رہے ـ دوسری جانب دھرمیندر نہ صرف شمالی بھارت بلکہ جنوب میں بھی ڈب کرکے دیکھے اور پسند کئے گئے ـ اسی طرح ان کی دیہی کسان ثقافتی پسِ منظر سے ابھرنے والی مردانگی سرحد پار پاکستان میں بھی پر اثر رہی ـ اس لحاظ سے بلا مبالغہ دھرمیندر کو "بھارتی سینما کا پہلا He Man” قرار دیا جاسکتا ہے ـ
دھرمیندر کو ”بھارتی سینما کا پہلا He Man“ قرار دینا لیکن تب بھی ایک دعوی ہی رہے گا جب تک دارا سنگھ پر بحث نہ ہو ـ کیوں کہ پچاس کی دہائی میں یہ خطاب دارا سنگھ کو دیا جاچکا تھا ـ اس خطاب کے باوجود میرا اصرار ہے اس ٹائٹل کے حقیقی حق دار دھرمیندر ہیں ـ میں اپنے اس اصرار کی وضاحت دینا چاہوں گا ـ

دارا سنگھ ایک پروفیشنل پہلوان تھے ـ وہ اکھاڑے سے سینما (1952) میں آئے ـ ان کا مضبوط بدن اور جسمانی طاقت بلاشبہ انہیں بھارت کا پہلا He Man بناتا ہے ـ ان کا اسٹار امیج لیکن کبھی بھی سینمائی نہیں بن سکا ـ بقول واسودون ان کی فلموں میں کہانی کم جسمانی طاقت کی نمائش زیادہ ہوتی ہے ـ

ان کی فلموں سے بھی یہ نکتہ ثابت ہے ـ جیسے ”رستم بغداد“ ، ”کنگ کانگ“ اور ”فولاد“ وغیرہ ـ وہ مائتھالوجیکل کرداروں جیسے ”مہا بھارت“ میں بھی آئے ـ پنجابی شناخت اور دیوہیکل جسم کے باعث وہ جنوب کے اداکاروں کی نسبت وسیع جغرافیے پر اثر انداز رہے مگر ان کے کردار فلمی کشش سے محروم تھے ـ

دھرمیندر کی خصوصیت یہ ہے کہ فلمی کشش رکھتے تھے ـ ان کی فلمی پیش کش میں رومانس اور سماجی و سیاسی مسائل بھی موجود ہیں ـ آخری تجزیے میں دارا سنگھ جسمانی طاقت پر مبنی مردانگی کا حامل ہونے کے باوجود دھرمیندر کی سطح تک نہیں پہنچ سکے ـ

دارا سنگھ کی فلموں میں صرف جسم ہے کہانی نہیں ـ یہ کم زوری انہیں قومی ہائپر مردانگی کے خطاب کا کسی بھی صورت حق دار نہیں بناتی ـ دھرمیندر کی ہائپر مردانگی؛ فوجی (فلم: حقیقت) ، سماجی نجات دہندہ (فلم: شعلے) ، گلوبل محافظ (فلم: آنکھیں) ، سیاسی مصلح (فلم: ستیا کام) ، مزاح (فلم: نوکر بیوی کا) ، رومانس (فلم: آئے دن بہار کے) وغیرہ لمبی فہرست ہے جو انہیں بھارتی سینما کا پہلا He man بناتی ہے جو مذہب، خطے یا کسی مخصوص ثقافت سے بالاتر ہے۔

جاری ہے

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button