2018ع میں سینیٹ انتخابات سے قبل بننے والی ایک ویڈیو سے سیاسی حلقوں میں بھونچال آگیا ہے، جس میں مبینہ طور پر ووٹوں کی خرید و فروخت کرتے دکھایا گیا ہے۔ یہ معاملہ کیا ہے؟ حکومت نے اس کی تحقیقات کا حکم دیا ہے۔ اور خیبرپختونخوا کے صوبائی وزیر قانون سلطان خان کے ویڈیو میں آنے پر انہوں نے وزارت سے استعفیٰ دے دیا ہے۔
سینیٹ کو ایوان بالا کہا جاتا ہے، جہاں قومی اسمبلی کے بعد اسی ایوان بالا میں ملک کی قسمت کے فیصلے کیے جاتے ہیں اور قانون سازی کو حتمی شکل دی جاتی ہے۔ ایوان بالا کے رکن کا انتخاب ارکان صوبائی اسمبلی کے ووٹوں سے کیا جاتا ہے۔ ایوان بالا کا رکن بننے کےلیے صوبائی اسمبلی کے ارکان کی حمایت کرنا لازمی جز ہے۔ بدقسمتی سے ایوان بالا کا رکن بننے کےلیے پیسہ ملوث ہوگیا ہے۔ ’پیسہ پھینک تماشا دیکھ‘ کا چکر چلنے لگا ہے۔ سینیٹ انتخابات سے قبل ہی ووٹوں کی خرید و فروخت کی باتیں آنا شروع ہوجاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت سینیٹ انتخابات خفیہ رائے شماری کے بجائے اوپن بیلٹ کے ذریعے انتخابات چاہتی ہے۔ لیکن اپوزیشن جماعتیں اس کی مخالفت کررہی ہیں۔ ماضی میں یہی اپوزیشن جماعتیں اوپن بیلٹ کے ذریعے انتخابات کے حق میں رہی ہیں۔
2018ع کے سینیٹ انتخابات میں جب خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی کی حکومت تھی، ایسے امیدوار بھی کامیاب ہوئے جن کے حمایتی ارکان کی تعداد خیبرپختونخوا اسمبلی میں کم تھی۔ لیکن تین سال بعد ایک ویڈیو منظر عام پر آئی ہے جس میں ووٹوں کی مبینہ خریدوفروخت ہوتے دکھایا گیا ہے۔ ویڈیو کے منظر عام پر آنے سے سیاسی حلقوں میں بھونچال آگیا ہے۔ ہر طرف اسی ویڈیو پر بحث و مباحثے کیے جارہے ہیں۔ اس ویڈیو پر بات کرنے سے قبل 2018ع کے سینیٹ انتخابات پر مختصر سی نظر ڈالتے ہیں.
پی ٹی آئی کے پانچ سالہ دور میں خیبرپختونخوا اسمبلی میں پی ٹی آئی ارکان کی تعداد 57 تھی، جبکہ دیگر پارٹیوں میں عوامی نیشنل پارٹی، حکومت کے اتحادی آزاد ارکان دو، جماعت اسلامی 7، جمعیت علمائے اسلام 16، مسلم لیگ (ن) 16، پیپلزپارٹی 6 اور قومی وطن پارٹی کے ارکان کی تعداد 10 تھی۔ خیبرپختونخوا اسمبلی میں پاکستان تحریک انصاف نے 5 نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی، تاہم غیر یقینی طور پر پی ٹی آئی کو ایک نشست پر شکست کا سامنا کرنا پڑا اور وہ ایک جنرل نشست ہار گئی تھی۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی نے دو، دو جبکہ جے یو آئی اور جماعت اسلامی ایک، ایک نشست حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی تھیں۔ 2018ع کے سینیٹ انتخابات میں تحریک انصاف 3 جنرل، ایک خاتون اور ایک ٹیکنوکریٹ نشست جیتنے میں کامیاب رہی تھی۔ پی ٹی آئی نے جب 2018ع کے سینیٹ الیکشن میں ایک نشست ہاری تو اس وقت ہی کھوج لگانا شروع کردیا گیا تھا کہ کن کن ارکان نے وفاداری تبدیل کی ہے۔ اس وقت 18 ارکان اسمبلی کے نام لیے جارہے تھے جبکہ پی ٹی آئی نے ان الزامات پر اپنے ارکان اسمبلی کو پارٹی سے فارغ کردیا تھا۔ پارٹی سے نکالے جانے پر ان ارکان نے اپنا پریشر گروپ بھی بنادیا تھا لیکن یہ ارکان 2018ع ہی میں ہونے والے عام انتخابات میں پی ٹی آئی کا ٹکٹ حاصل نہ کرسکے اور اب کچھ ارکان دوسری سیاسی جماعتوں میں شامل ہوچکے ہیں.
اب جو ویڈیو سامنے آئی ہے اس میں جن ارکان کو دیکھا گیا ہے، اس میں صوبائی وزیر قانون سلطان محمد خان، سابق ایم پی ایز سردار محمد ادریس، دینا ناز، معراج ہمایوں اور محمد علی شاہ باچا وغیرہ شامل ہیں۔ ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ نوٹوں کی گڈیاں میز پر پڑی ہیں اور ایک سخص وہ گڈیاں بیگ میں ڈال رہا ہے۔ اس ویڈیو کے منظرعام پر آنے سے صوبائی وزیر قانون سلطان خان سے استعفیٰ لے لیا گیا ہے اور وزیراعلیٰ نے ان کا استعفیٰ قبول کرلیا ہے۔
اس ویڈیو پر سوشل میڈیا اور عام لوگوں میں بحث چھڑ گئی ہے۔ ویڈیو میں سامنے آنے والے عبیداللہ مایار کا کہنا ہے کہ سینیٹ الیکشن میں پیسے حکومت کی جانب سے دیے گئے تھے۔ انہوں نے حکومت کی جانب سے دیے گئے پینل کے مطابق ووٹ دیے ہیں۔ لیکن ویڈیو جس کمرے میں بنائی گئی اس حوالے سے مختلف اطلاعات سامنے آرہی ہیں۔ اس بارے میں بتایا جارہا ہے یہ سرکاری رہائش گاہ ہے اور جس کے کمرے میں پیسے تقسیم کیے گئے ابھی اس بات کی تحقیقات ہونا باقی ہیں۔
اگر سینیٹ الیکشن میں ہارس ٹریڈنگ کی گئی ہے تو یہ رقم کس کی جانب سے تقسیم کی گئی؟ تقسیم کرنے والا کون تھا؟ خیبرپختونخوا حکومت نے ووٹوں کی خرید و فروخت کی مبینہ ویڈیو کے حوالے سے تحقیقات کا حکم دیدیا ہے اور صوبائی وزیر شوکت یوسفزئی کے مطابق ووٹ خریدنے والوں کے خلاف بھی کارروائی ہوگی۔
مبینہ سینیٹ کرپشن ویڈیو سامنے آنے پر کئی سوالات نے بھی جنم لیا ہے۔ عوامی تبصروں میں یہ سوالات اٹھائے جارہے ہیں کہ تین سال بعد اس وقت ویڈیو کی ضرورت کیوں؟ اطلاعات یہ بھی سامنے آرہی ہیں یہ ویڈیو ایسے وقت میں سامنے لائی گئی تاکہ حکومت سینیٹ الیکشن قوانین میں ترامیم کےلیے عوامی حمایت بھی حاصل کرسکے اور اس ویڈیو کے حوالے سے حکومت پہلے سے باخبر تھی۔ لیکن حکومت کا موقف ہے کہ اب ویڈیو سامنے آنے پر اس حوالے سے علم ہوا ہے۔ سوال یہ بھی اٹھایا جارہا ہے کہ تین سال قبل بنائی گئی ویڈیو کو کیوں اتنے وقت تک چھپا کر رکھا گیا؟ ویڈیو بنانے والا کون تھا اور ویڈیو کس جگہ بنائی گئی؟ یہ بھی سوال اٹھایا جارہا ہے کہ کیا یہ پہلی اور آخری ویڈیو ہے یا اس کے ٹریلر باقی ہیں؟
اس ویڈیو کے منظر عام پر آنے کے بعد اب حکومت توجہ کا مرکز بن گئی ہے۔ سینیٹ الیکشن میں ایسی واردات ہوئی تو پھر اس کی روک تھام کےلیے حکومت کو اقدامات کرنا ہوں گے۔ بات وہیں پر رکتی ہے کہ سینیٹ الیکشن میں ہارس ٹریڈنگ کے اس عمل کو روکنے کےلیے خفیہ رائے شماری کے بجائے شو آف ہینڈ یا اوپن بیلٹ کےلیے قانون سازی ناگزیر ہوگئی ہے۔
بشکریہ ایکسپریس