’’بایوآرکائیو‘‘ نامی پری پرنٹ سرور پر چند روز قبل شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ امریکی سائنسدانوں نے بھنگ کے پودے میں ایک ایسا مادّہ دریافت کیا ہے جو عالمی وبا کووِڈ-19 کا باعث بننے والے ’ناول کورونا وائرس‘ کو تقسیم در تقسیم ہو کر حملہ آور ہونے سے روکتا ہے
واضح رہے کہ گزشتہ ایک سال کے دوران ہزاروں افراد پر ہونے والے مختلف مشاہدات سے معلوم ہوا تھا کہ جو لوگ بھنگ یا بھنگ پر مشتمل منشیات استعمال کرتے ہیں، وہ دوسروں کی نسبت کورونا وائرس سے بہت کم متاثر ہوئے تھے
اسی بنیاد پر ماہرین نے یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ بھنگ میں کوئی نہ کوئی جزو ایسا ضرور ہے جو کورونا وائرس کے خلاف مؤثر ثابت ہوتا ہے
یہ معلوم کرنے کےلیے یونیورسٹی آف شکاگو، الینوئے میں ماہرین کی ایک ٹیم نے بھنگ میں پایا جانے والا کلیدی مرکب ’’کینابیڈایول‘‘ (سی بی ڈی) الگ کیا اور اسے انسانی پھیپھڑوں سے لیے گئے ’’ایپی تھیلیئل سیلز‘‘ پر کورونا وائرس کے ساتھ آزمایا
انہوں نے مشاہدہ کیا کہ ’’سی بی ڈی‘‘ کی نہایت معمولی مقدار کے ساتھ صرف دو گھنٹے تک رکھنے پر کورونا وائرس اگرچہ ان خلیوں میں داخل ضرور ہوگیا لیکن 48 گھنٹے بعد بھی یہ وائرس ان خلیوں میں اپنی تعداد بڑھا کر حملہ آور ہونے اور انہیں نقصان پہنچانے کے قابل نہیں رہا
بعدازاں یہی تجربات بھنگ کے پودے میں پائے جانے والے دوسرے مرکبات پر بھی دوہرائے گئے مگر اُن مرکبات نے کورونا وائرس کے خلاف بہت معمولی کارکردگی کا مظاہرہ کیا
واضح رہے کہ ’’سی بی ڈی‘‘ کی طبّی خصوصیات کوئی نئی دریافت ہر گز نہیں، بلکہ ماضی کی مختلف تحقیقات میں یہ مرکب کئی دوسرے خطرناک وائرسوں کے خلاف بھی مؤثر ثابت ہو چکا ہے
یہی وجہ ہے کہ کورونا وائرس کے خلاف بھنگ کی اثر پذیری میں ’’سی بی ڈی‘‘ کو اہم خیال کیا گیا۔ اب تازہ تجربات کے بعد اس خیال کی تصدیق بھی ہوگئی ہے
دھیان رہے کہ اب تک کسی باقاعدہ طبّی تحقیقی جریدے (میڈیکل ریسرچ جرنل) نے اس تحقیق کو اشاعت کے لیے منظور نہیں کیا ہے، لہٰذا اسے امید افزا تحقیق ضرور کہا جاسکتا ہے لیکن ابھی تک یہ ’تصدیق شدہ‘ نہیں ہے.