یہ کراچی کے ماضی کے مشہور ھوٹل میٹروپول کے افتتاح کا پوسٹر ہے اور ساتھ افتتاح کے پروگرام کی تصویر. ھوٹل میٹرو پول کا افتتاح مارچ 1950 کو شہنشاہ ایران نے کیا تھا. افتتاح کے پوسٹر میں انگریزی رسم الخط میں فارسی محاورہ لکھا تھا "قدر گوھرشاھ داندبہ داند جو ھری”
یہ پوسٹر جناب لطف اللہ خان نے تیار کیا تھا، جو آج بھی ھمارے دوست عقیل عباس جعفری کی کتاب "پاکستان کرانیکل” میں محفوظ ہے. افتتاحی پروگرام کے پوسٹر کے ساتھ تصویر میں شاھ ایران کے ساتھ پاکستان کے پہلے وزیرِ اعظم لیاقت علی خان اور محترمہ فاطمہ جناح بھی نظر آرہے ہیں۔
ھوٹل میٹرو پول کا مالک سائرس ایف۔ مینوالا ہیں. مینوالا 1951 میں کراچی کینومینٹ بورڈ کے وائیس چئیرمین بھی رہ چکے ہیں۔ یہاں کا کافی ہائوس صحافی اور لکھاریوں کا مرکز تھا۔ اس دور میں کافی دو روپے کی ملتی تھی، جو کہ اس وقت کے حساب سے بہت مہنگی کافی تھی۔
ھوٹل میٹرو پول میں اتوار کو اسپیشل پارسی ڈِش دھنسک Dhansak پیش کی جاتی تھی، جو یہاں کی بہت مشہور ڈِش تھی.
ہوٹل کے معیار کا یہ عالم تھا کہ مقامی اور انٹرنیشل ڈانسر اور گائیک یہاں پرفام کرتے یوئے فخر محسوس کرتے تھے.
لیجنڈ میوزیشن Dizzie Gillespie نے 1954 اور Duke Ellington نے 1963 میں اس ہوٹل میں اپنے فن کا مظاہرہ کیا تھا.
ھوٹل کا گارڈن شادی کی تقریبات کے لئے مشہور تھا، جہاں 400 لوگوں کی بیٹھنے کی گنجائش تھی. ھوٹل کے ریکارڈ مطابق ھوٹل بند ہونے تک یہاں 2500 شادیاں منعقد ہوئیں.
ایس۔ایم یوسف کی مشہور فلم "سہیلی” کا ایک گانا نیر سلطانہ پر یہیں فلمبند کیا گیا تھا. جس میں پسِ منظر میں دیوار پر گھڑی بھی نظر آرہی ہے، جس میں ٹائیم 3:20 بھی دیکھا جا سکتا ہے۔
23 جنوری 1952 کو یہاں ایرانی سفیر معسود معزاد نے آغا خان ١١١ اور ان کی بیگم کو ٹی پارٹی دی تھی۔ آغا خان کا قیام بھی یہیں پر تھا۔
ھوٹل بیلے ڈانس، سمر نائیٹ کلب، ھیپی نیو ائیر اور میوزک پروگرامز کے لئے مشہور تھا۔ مشہور ڈانسر، جس نے بعد ازاں فلموں میں بھی کام کیا تھا، اینی مینوالا اکثر یہاں ڈانس پرفارم کرتی تھی۔ پاکستان میں پہلی بار 1967 میں ڈسکو کی شروعات نھی یہیں سے ہوئی تھی، جو ایک ریکارڈ ہے.
1967 میں ذوالفقار علی بھٹو نے بیوکینٹ ھال میں پارٹی کو لنچ دیا تھا. بعد میں ضیاءالحق کے دور میں پابندیوں کی وجہ سے اس ھوٹل اور تمام ھوٹلوں کی رونقیں ماند پڑ گئیں.
2004 میں مالک نے جب ھوٹل گرانا شروع کیا، تو ھیریٹیج ڈیکلئیر ھونے کے وجہ سے کورٹ نے عمارت کو مسمار کرنے کا کام روک دیا۔
نوٹ: گل حسن کلمتی کی یہ تحریر فیس بک سے ان کی اجازت سے یہاں پوسٹ کی جارہی ہے