پروفیسر حاجی عبدالعزیز بلوچ مرحوم سے میرا تعلق پچاس برس سے زائد عرصے پر محیط رہا ہے۔ وہ میرے استاد اور عزیز ہونے کے ساتھ میرے محسن اور دوست بھی تھے۔ پروفیسر صاحب انتہائی ملنسار،خوش اخلاق اور باکردار انسان تھے۔ صبر، شکر، عفو و درگذر، سچائی،
اخلاص، ہمدردی، خدمت خلق، سادگی اور انکساری ان کی پاکیزہ شخصیت کے نمایاں اوصاف تھے۔
وہ مثبت سوچ رکھنے والے ایک ایسے شخص تھے، جن کے دل میں کسی کے لیے بغض ،حسد اور نفرت کے جذبات نہیں تھے. وہ خدمتِ خلق کے کاموں میں ہمیشہ پیش پیش رہتے تھے۔ انہوں نے انتہائی فعال اور متحرک زندگی بسر کی۔
پتوفیسر عبدالعزیز بلوچ عزم و ہمت کے پیکر تھے. وہ 73 برس کی عمر میں بھی اس قدر جواں عزم رکھتے تھے کہ کبھی مایوس، دل شکستہ اور افسردہ نہیں ہوئے۔ ان کی پوری زندگی جہدِ مسلسل اور خدمتِ خلق سے عبارت تھی. ان کی شخصیت بے غرضی، بے لوثی اور عاجزی جیسے عظیم اوصاف سے مزین اور منور تھی.
پروفیسر صاحب نے 57 برس تک مسجد اور مدرسے کی خدمت کی اور اپنی اعلیٰ سوچ اور عزم و حوصلہ سے اولڈ تھانہ کے مدرسے کو بام عروج تک پہچانے میں دن رات ایک کیے۔ مدرسے میں شعبہ حفظ کا قیام ان کا عظیم الشان کارنامہ تھا. اب تک مدرسے سے چالیس سے زیادہ طلبہ حفظِ قرآن کی سعادت حاصل کر چکے ہیں، جو یقیناً ان کے لیے صدقہ جاریہ ہے۔ انہوں نے طویل عرصہ تک جامع مسجد اولڈ تھانہ میں خطابت کے فرائض انجام دیے اور اپنے مدلل اندازِ خطابت اور داعیانہ کردار سے لوگوں کو دین کی طرف راغب کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
انہوں نے بطور استاد بیالیس برس تک تعلیمی اور تدریسی خدمات انجام دیں. آج بھی جام مراد علی اسکول اور ڈگری کالج مراد میمن کے در و دیوار ان کی عظمت کی گواہی دیتے نظر آتے ہیں۔ ملیر کے دیہی اور شہری علاقوں میں انہوں نے ہزاروں شاگرد پیدا کیے۔ آج ملیر کا کوئی گوٹھ اور علاقہ ایسا نہیں ہے، جہاں ان کے شاگرد نہ ہوں. انہوں نے علاقے میں تعلیم کے فروغ میں انتہائی اہم کردار ادا کیا۔ انہوں نے نقل کی لعنت کے خاتمے کے لیے طویل جدو جہد کی اور اس مقصد کے لیے کسی مخالفت کی پرواہ نہیں کی۔
پروفیسر صاحب ایک انتہائی نیک اور دیانتدار انسان تھے. امانت و دیانت کے معاملے میں انہوں نے کبھی کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔ کرپشن اور لوٹ مار کے اس عہد میں انہوں نے امانتداری اور دیانتداری کی روشن مثال قائم کرتے ہوئے اپنی شخصیت اور کردار کو کرپشن جیسی آلائشوں سے پاک رکھا۔
وہ ملیر کا نہایت معتبر نام تھے لوگ ان پر اس قدر اعتماد کرتے تھے، کہ اپنی امانتیں ان کے پاس رکھواتے تھے۔ ان کی پوری زندگی رفاہی اور فلاحی کاموں کے لیے وقف تھی۔ علاقے کے پانی، بجلی، سیوریج اور روڈ وغیرہ کے مسائل کو حل کرنے میں وہ ہمیشہ پیش پیش رہے. منشیات کے خلاف ان کی جدوجہد بھی تاریخ کا ایک روشن باب ہے۔
2007ع میں ڈگری کالج مراد میمن سے پرنسپل کی حیثیت سے ریٹائرمنٹ کے بعد وہ ویلفیئر آفیسر کی حیثیت سے الابراہیم آئی ہاسپٹل اولڈ تھانہ سے منسلک ہوگئے، جہاں انہوں نے گیارہ بارہ برس تک ایمانداری سے خدمات سر انجام دیں۔ آئی ہاسپٹل کا کمرہ نمبر سترہ ہر وقت مستحق مریضوں سے گھرا رہتا تھا، جہاں وہ نہایت احسن طریقے سے زکوٰۃ اور ویلفیئر کی مد میں مستحق مریضوں کی مدد کرتے تھے۔
پروفیسر عبدالعزیز بلوچ نے تیس کے قریب حج کیے اور ایک رہنمائے حج کی حیثیت سے ہر سال سینکڑوں حجاج کی خدمت کی۔ ان کے ساتھ جن لوگوں نے حج کا سفر کیا، وہ آج بھی ان کے اعلیٰ اخلاق، پاکیزہ کردار اور جذبہ خدمت کی تعریف کرکے ان کی عظمت کی گواہی دیتے ہیں. حج کے موقع پر مختلف مزاج کے اتنے کثیر لوگوں کو ہینڈل کرنا یقیناً کوئی آسان کام نہیں تھا، مگر اس فرشتہ صفت انسان کو اللہ تعالیٰ نے صبر و ضبط اور حکمت و بصیرت کی ایسی خوبیوں سے نوازا تھا، کہ جو بھی ان کے ساتھ حج کا سفر کرتا ان کا گرویدہ ہوجاتا۔
علاقے میں خوشی اور غم کے مواقع پر وہ سب سے نمایاں نظر آتے تھے. لوگوں کو ان سے اتنی محبت تھی کہ اپنے عزیزوں کی نمازِ جنازہ اور نکاح انہی سے پڑھواتے۔ خطبہء نکاح کا ان کا انداز بہت منفرد اور خوب صورت تھا، ان کی قرات میں ایک عجب کشش تھی.. افسوس کہ آج محفلیں ان کی اس دلآویز آواز اور انداز کو ترستی ہیں۔
پروفیسر صاحب نے اپنی مصالحانہ صلاحیتوں اور کوششوں سے متعدد گھروں کو ٹوٹنے سے بچایا اور جنگ و جدال پر آمادہ لوگوں کو شیر و شکر کیا اور یہ ان کی پوری زندگی کا مشغلہ رہا۔
ان کے پرنور چہرے اور خوبصورت مسکراہٹ میں اتنی کشش تھی، کہ جو کوئی ایک مرتبہ ان سے ملتا بس انہی کا ہوجاتا۔
رواں سال اپریل کے مہینے میں بیماری کی تشخیص کے بعد سے وفات تک انہوں نے بیماری اور اس سے پیدا ہونے والی تکالیف کا نہایت صبر اور حوصلے کے ساتھ مقابلہ کیا۔ مرض کی نوعیت کا علم ہونے کے باوجود انہوں نے بیماری کی حالت میں رمضان کے مہینے میں بذاتِ خود کھڑے رہ کر اپنی نگرانی میں مسجد کے وضو خانے کی تعمیرِ نو کروائی۔
ان کی خدمات کا دائرہ صرف اپنی کمیونٹی تک محدود نہیں تھا، بلکہ ان کی خدمات کا دائرہ بہت وسیع اور تمام برادریوں اور طبقات تک پھیلا ہوا تھا، وہ بلا تفریق سب کی خدمت پر یقین رکھتے تھے. یہی وجہ ہے کہ معاشرے کے تمام طبقات اور برادریوں میں وہ یکساں طور مقبول اور قابلِ احترام رہے اور تمام برادریوں میں انہیں انتہائی احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔
ان کی مقبولیت اور تعظیم کا سب سے بڑا ثبوت ان کا جنازہ تھا، جس میں رات کے اندھیرے میں ہزاروں لوگوں نے شرکت کرکے ان کو شاندار خراجِ عقیدت پیش کیا اور ان سے اپنی والہانہ محبت کا اظہار کیا.. بلاشبہ یہ بہت بڑا جنازہ تھا۔
اللہ تعالیٰ پروفیسر عبد العزیز بلوچ کی کامل مغفرت فرمائے ان کے درجات کو بلند فرمائے اور ان کے لواحقین کو صبرِ جمیل عطا فرمائے.آمین۔
ان کے جانے سے یقیناً ایک بہت بڑا خلا پیدا ہوگیا ہے وہ جن عظیم اوصاف کے مالک تھے، مادہ پرستی اور خود غرضی کے اس دور میں دور دور تک ان کا نشان نظر نہیں آتا۔۔ پروفیسر صاحب کے جنازے میں شریک ملیر سمیت سندھ کے دیگر علاقوں اور بلوچستان کے لوگوں نے اس بات کی ستائش کی کہ عظیم باپ کا جنازہ خود ان کے ہونہار فرزند پروفیسر ڈاکٹر ابوبکر بلوچ نے پڑھایا، جو اسلامیات میں پی ایچ ڈی اور مذہبی اسکالر ہیں۔ ہم امید کرتے ہیں کہ پروفیسر ڈاکٹر ابوبکر بلوچ ہر ہر محاذ پر اپنے عظیم باپ کے نقشِ قدم پر چل کر ان کے مشن کو جاری رکھیں گے، ہماری دعائیں ڈاکٹر صاحب کے ساتھ ہیں۔