”برف کی قبر میں دھنس گیا تھا…..“ مری میں برفباری میں پھنسے لوگوں پر کیا گزری

نیوز ڈیسک

اسلام آباد – ”ملکۂ کوہسار“ کے نام سے جانے جانے والے ملک کے تفریحی مقام مری اور اس کے گردونواح میں جمعے کی شب برف موت کر برستی رہی اور شدید برفباری دو درجن کے قریب افراد کے لیے پیغامِ اجل ثابت ہوئی

شدید برفباری کے نتیجے میں سڑکوں پر درخت اور بجلی کے کھمبے گرے اور امدادی اداروں کے کارکنوں کے پہنچنے تک مقامی لوگ جگہ جگہ کھڑی گاڑیوں کے شیشوں پر دستک دے کر ان کی خیریت پوچھنے کی کوشش کرتے اور اندر موجود افراد کو طبی امداد دینے کی کوشش بھی کی جاتی رہی

ایسی گاڑیوں میں طویل وقت تک بیٹھے رہنے، شیشوں کو بند کرنے اور ہیٹر آن ہونے کی وجہ سے آکسیجن کی کمی سے اب تک کم از کم افراد کی ہلاکت کی تصدیق ہوئی ہے جبکہ درجنوں سیاحوں کو امدادی کارکنوں کی جانب سے ابتدائی طبی امداد فراہم کی گئی ہے

’کچھ گاڑیوں پر دستک دے رہے ہیں تو وہاں سے کوئی جواب نہیں ملتا‘

امدادی سرگرمیوں میں شریک ایک مقامی شخص نے بتایا کہ مقامی لوگوں نے اپنے گھروں میں سیاحوں کو جگہ دی ہے جبکہ ہوٹلوں میں بھی لوگوں کو رہائش دی جا رہی ہے، اس کے علاوہ دختران اسلام نامی اکیڈمی میں بھی سیاحوں کو رہائش دی گئی ہے

’رات کو انتظامیہ کا فوکس مرکزی سیاحتی مقام پر رہا۔ کلڈنہ کا زیادہ علاقہ جنگل میں ہے، انتظامیہ صبح وہاں پہنچی میں خود وہیں موجود ہوں۔ رضاکارانہ طور پر مقامی لوگ انتظامیہ کے ساتھ مل کر کام میں مدد کر رہے ہیں۔‘

صحافی زبیر خان کے مطابق مری روڈ کی نواحی بستی اور امدادی کاموں میں اس وقت شریک ایک شخص گل حسن کے مطابق کچھ گاڑیاں ایسی ہیں، جن پر دستک دے رہے ہیں تو وہاں سے کوئی جواب نہیں ملتا

ان کا کہنا تھا کہ میں نے دو ایسی گاڑیوں کی نشاندہی کی ہے۔ جن کے بارے میں حکام کو آگاہ کیا گیا ہے، ان گاڑیوں پر دستک دی، تو کوئی جواب نہیں ملا

امدادی کاموں میں شریک اور ایک شخص محمد محسن کا کہنا ہے کہ ہمیں تو لگتا ہے کہ جو صورتحال بتائی جا رہی ہے، حقیقت اس سے زیادہ بری ہو چکی ہے

ان کا کہنا تھا کہ صبح سے امدادی کارکناں مصروف عمل ہیں اور مقامی لوگ بھی مصروف ہیں مگر ہمارے خیال میں یہ سرگرمیاں بہت کم ہیں۔ ہمیں امدادی سرگرمیوں میں انتہائی تیزی پیدا کرنا ہوگی

مری میں ایک ہوٹل کے مالک کاظم عباسی نے بی بی سی کی حمیرا کنول کو بتایا کہ انھوں نے گذشتہ روز دس خاندانوں کو رہائش فراہم کی لیکن صبح روکے جانے کے باوجود وہ ہوٹل سے چلے گئے

وہ کہتے ہیں کہ شام پانچ بجے برفباری کا پھر سے آغاز ہو جائے گا، جبکہ پانچ فٹ تک برف پہلے ہی پڑ چکی ہے اور جو مسافت پیدل دس منٹ کی تھی، اب وہ دو گھنٹے کی ہو چکی ہے اور گاڑی چلنے کا تو سوال ہی نہیں

’پہلے سے معلوم تھا کہ شدید برفباری ہوگی اور ہم نے اپنے سوشل میڈیا پیجز پر سیاحوں سے اپیل بھی کی تھی کہ اگر مری آنا بھی ہے تو اتوار یا پیر کو آئیں، لیکن اس وقت بھی ہم سن رہے ہیں کہ ٹول پلازہ سے لوگ پیدل مری کی جانب جانے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘

امدادی سرگرمیوں کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کاظم کہتے ہیں کہ ”ایک ہی حل ہے کہ جو بھی ادارے کام کر رہے ہیں، وہ بیلچہ بردار فورس کو لے کر آئیں۔“

کاظم کے مطابق ماضی میں جب بھی مری میں برفباری ہوئی تو ”تحصیل میونسپل کمیٹی کی بیلچہ بردار فورس ہوتی تھی۔ شہر ان بیلچہ بردار فورس کے اہلکاروں کی جانب سے کلئیر ہوتا تھا اور ان کے ساتھ ہائی وے والے کام کرتے تھے۔“

”جب بھی مری میں برفباری ہوتی ہے چھیکا گلی، مال روڈ، جی پی او چوک، گلڈنہ، کارٹ روڈ (سنی بینک سے بس سٹینڈ جاتا ہے) یہاں کی اپنی مشین ہوتی تھی، لیکن اس بار پہلے سے منصوبہ بندی دکھائی نہیں دی اور پہلی بار ہے کہ ہم سن رہے ہیں کہ مری میں اتنے لوگ ہلاک ہو گئے ہیں۔“

’ایک روز میں تین فٹ برف‘

گلیات ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے ترجمان احسن حمید نے بتایا کہ جمعے کو ہونے والی برف باری انتہائی شدید تھی۔ اُن کے مطابق گلیات میں صرف ایک روز میں تین فٹ برفباری ہوئی ہے جبکہ دوسرے سپیل کے دوران جمعے سے پہلے چار روز تک ہونے والے برفباری مجموعی طور پر اڑھائی فٹ تھی جس نے نظام زندگی تباہ کر کے رکھ دیا ہے

ان کا کہنا تھا کہ برفباری اتنی شدید تھی کہ نہ صرف یہ کہ روڈ صاف کرنے کا کام متاثر ہوا ہے بلکہ توحید آباد سے دروازہ کش کے مقام پر تین بجلی کے کھمبے گر گئے ہیں اور یہ تینوں بجلی کی مرکزی لائن کے تھے۔ حکام کے مطابق واپڈا کو ان کی مرمت کے لیے کم از کم چوبیس گھنٹوں کی مہلت درکار ہے

احسن حمید کے مطابق جمعے کو دوپہر کے وقت گلیات میں پہلے ایک مقام پر برفانی تودہ گرا تھا اور شام کے بعد ایک اور مقام پر برفانی تودا گرا ہے جس سے ایبٹ آباد کو مری سے ملانے والا روڈ مکمل طور پر بلاک ہو چکا ہے، جس وجہ سے روڈ سفر کے قابل نہیں رہا ہے

کیا موسم اچانک خراب ہوا؟

محکمہ موسمیات نے گزشتہ ہفتے ہی خبردار کیا تھا کہ ملک کے بالائی علاقوں میں شدید برفباری جبکہ بارشوں کا سلسلہ شروع ہوگا۔ محکمہ موسمیات نے ضلعی انتظامیہ سمیت نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ کو ضروری اقدامات اٹھانے کے لیے الرٹ بھی جاری کیے تھے

مری کے رہائشی قاسم عباسی نے بتایا کہ رواں ہفتے منگل سے ہی موسم خراب ہونا شروع ہو گیا تھا اور وقفے وقفے سے برفباری کا سلسلہ جاری تھا

انہوں نے کہا کہ دو روز کی شدید برفباری کے باعث ٹریفک کا دباؤ انتہائی بڑھ چکا تھا اور راستے بھی کلیئر نہیں کیے جا رہے تھے

انہوں نے کہا کہ برفباری اور رش کے باعث معاملہ اتنا خراب ہوا کہ جمعرات کو مری مال روڈ پر بھی شدید ٹریفک جام رہی اور گاڑیاں ایک روز تک برف میں پھنسی رہی جس کے باعث دیکھتے ہی دیکھتے اکثر ہوٹلز بک ہو گئے۔ لیکن راستے کلیئر کرنے کا عمل شروع نہ ہوسکا

جبکہ دوسری جانب راولپنڈی پولیس نے منگل کے روز ٹویٹ کرتے ہوئے سیاحوں کو خبردار کیا تھا اور مری جاتے ہوئے احتیاطی تدابیر سے متعلق ایڈوائزری بھی جاری کی تھی

’ان سے پوچھیں نا، کرین بھیجی ہے یا نہیں؟‘

تین بیٹیوں، ایک بیٹے، بہن، بھتیجے اور ایک بھانجی سمیت اے ایس آئی نوید اقبال پر اس لمحے کیا گزری، اس کا شاید ہم اندازہ بھی نہ کر سکیں، مگر وہ اس وقت چاہتے کیا تھے، یہ انہوں نے خود متعدد بار اس آڈیو پیغام میں بتایا

اے ایس آئی نوید اقبال اس وقت صرف اور صرف ایک ’امید‘ چاہتے تھے، جو انہیں نہ مل سکی

’18 گھنٹے ہو گئے ہیں.. بلکہ 20 گھنٹے ہو گئے ہیں ہمیں یہاں انتظار کرتے ہوئے… مزید کتنے گھنٹے انتظار کرنا پڑے گا؟‘

یہ الفاظ تھے اے ایس آئی نوید اقبال کے، جو بظاہر انہوں نے اپنے آخری وائس میسج میں ساتھی پولیس اہلکار سے کہے

مختلف ٹی چینلز پر چلنے والے اس وائس میسج میں اے ایس آئی نوید اقبال کی آواز میں پریشانی، بے بسی اور مجبوری کا احساس جھلک رہا ہے

اپنے آڈیو پیغام میں وہ اپنے ساتھی پولیس اہلکار سے اپنے تعلقات کا استعمال کر کے انہیں وہاں سے نکالنے کا بندوبست کرنے کو کہہ رہے تھے

’یہاں تو برفباری جاری ہے، رک ہی نہیں رہی.. مری میں شاید رک گئی ہو۔‘

’اللہ کرے کوئی سسٹم بن جائے بہت پریشانی ہے.. آپ کا بھی پتہ لگے گا کہ کتنے پانی میں ہو.. مزہ تو تب آئے کہ ہم صبح تک نکل جائیں۔‘

ان کی آڈیو کو یہاں تک سنیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے، جیسے اس لمحے وہ صرف کچھ ایسا چاہتے تھے، جس سے انہیں ’امید‘ بندھ جائے

وہ اپنے ساتھ اہلکار سے آڈیو پیغام میں کہتے ہیں: ’کم از کم کرین کام شروع کر دے نا، تو بندے کو تھوڑی امید ہو جاتی ہے کہ چلو کوئی نہیں ہو جائے گا۔‘

اے ایس آئی نوید اقبال اور ان کے ساتھ گاڑی میں موجود دیگر افراد کی موت بند گاڑی میں مسلسل ہیٹر لگے رہنے کے باعث دم گھٹنے سے ہوئی ہے

برطانوی ادارے نیشنل ہیلتھ سروسز (این ایچ ایس) کے مطابق ایسی صورتحال میں زیادہ تر ہلاکتوں کی وجہ گاڑیوں کے ایگزاسٹ پائپ کی بندش ہوتی ہے۔ گاڑیوں میں پھنسے افراد خود کو گرم رکھنے کے لیے گاڑی سٹارٹ رکھتے ہیں جس سے کاربن مونوآکسائڈ نکلتی رہتی ہے

ماہرین کا کہنا ہے کہ کسی بھی ایسی بند جگہ میں جہاں ہوا کا آنا جانا نہ ہو کاربن مونوآکسائڈ صرف 15 سے 20 منٹ میں موت کا باعث بن سکتی ہے

چونکہ نوید اقبال اور گاڑی میں موجود دیگر افراد کی موت کی وجہ بند گاڑی اور مسلسل ہیٹر کا چلتے رہنا بتائی جا رہی ہے، مگر ان کی جانب سے بار بار کرین کا ذکر کرنے سے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوا کہ کیا انسان کا جسم، اس کا دماغ ’امید‘ ملنے پر یا ایسی کوئی چیز جس کا وہ منتظر ہو، سامنے آ جانے پر کیسے کام کرتا ہے اور کیا نوید اقبال کو کرین اگر نظر آ جاتی تو کچھ مختلف ہو سکتا تھا؟

اس حوالے سے سائیکاٹرسٹ اور دی جینئس کے سی ای او ڈاکٹر شاذب شمیم کا کہنا تھا کہ اس کے علاوہ کوئی دیگر وجہ نہیں ہو سکتی تھی

جب ان سے پوچھا گیا کہ نوید اقبال بار بار کرین کی بات کر رہے تھے اور چاہتے تھے کہ ’صرف کرین دکھ جائے تو امید ہو جائے گی‘ تو اس پر ڈاکٹر شاذب شمیم نے کہا کہ اگر اس وقت انہیں کرین دکھ جاتی تو ان کا ’فائٹنگ موڈ‘ آن ہو جاتا

اس کی تفصیل انہوں نے کچھ یوں بتائی کہ نوید اقبال اس وقت کرین کے منتظر تھے اگر وہ ان کے سامنے آجاتی تو انہیں وہاں سے نکلنے کی امید ہو جاتی اور شاید وہ اس وقت گاڑی کا دروازہ کھول کر باہر نکلنے کی کوشش کرتے، گاڑی کا شیشہ اتارتے یا پھر باہر نکل کر امدادی کاموں کا جائزہ لینے کی کوشش کرتے

ہم اکثر کہتے اور سنتے ہیں کہ ’امید پر دنیا قائم ہے۔‘ شاید نوید اقبال کی دنیا بھی اس وقت ’امید‘ پر ہی قائم تھی اور یہی وجہ ہے کہ وہ بار بار کہتے رہے ’ان سے پوچھیں نا کہ کرین بھیجی ہے یا نہیں۔‘

مردان کے چار دوستوں کی آخری سیلفی

وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے قریب واقع صوبہ پنجاب کے سیاحتی علاقے مری میں شدید برفباری سے ہلاک ہونے والے بائیس سیاحوں میں مردان سے تعلق رکھنے والے چار دوست اسد خان، سہیل خان، بلال خان اور ان ہی کے ہم نام بلال خان، جو کہ کراچی سے آئے ہوئے تھے، شامل ہیں

یہ چاروں مردان کے ایک ہی علاقے کے رہائشی ہیں اور آپس میں چچا زاد اور خالہ زاد تھے۔ چاروں دوستوں میں سب بڑے سہیل خان تھے، جن کی عمر پچیس سال بتائی جاتی ہے۔ انہوں نے سوگواروں میں دو بچے اور بیوی چھوڑے ہیں۔ جبکہ باقی تینوں کی عمر تقریباً بائیس سال ہے۔ اسد خان کے سوگواروں میں دو بچے اور بیوی ہیں

پنجاب ریسکیو 1122 کے مطابق بلال حسین کے ساتھ ان کے تین دیگر دوست بھی تھے جو اپنی گاڑی میں مردہ حالت میں پائے گئے تھے

’ایک سال بعد کراچی سے مردان گیا تاکہ اپنے دوستوں کے ساتھ مری جا کر وہاں برف باری سے لطف اندوز ہو سکے لیکن اللہ کو کچھ اور ہی منظور تھا اور اپنے دوستوں سمیت اس دنیا سے چلا گیا۔‘

یہ کہنا تھا پاکستان کے سیاحتی مقام مری میں برف باری کے باعث رش میں پھنس کر مرنے والے سیاحوں میں شامل بلال حسین کے بھائی اقبال حسین کا جو اس وقت اپنے گھر میں چھوٹے بھائی کی لاش کا انتظار کر رہے ہیں

اقبال حسین نے بتایا کہ وہ بنیادی طور پر مردان کے ہیں لیکن ان کے خاندان والے کراچی میں رہتے ہے اور وہاں پر ان کا گھر ہے لیکن ’میرا بھائی بلال حسین کراچی سے مردان اپنے دوستوں کے پاس آیا تھا تاکہ یہاں موسم سے لطف اٹھا سکے

’دو دن پہلے انہوں نے اپنے دوستوں اور چچا کے ساتھ مری جانے کا پلان بنایا تاکہ وہاں پر برف باری سے لطف اندوز ہو سکیں لیکن مری جا کر وہاں پر پھنس گئے۔‘

اقبال حسین کے مطابق بلال حسین سے گذشتہ رات 12 بجے تک ان کا رابطہ تھا اور جب انہوں نے بتایا کہ وہ پھنس گئے ہیں اور آگے راستہ بند ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ رات 12 بجے کے بعد ان کا اپنے بھائی سے رابطہ نہ ہو سکا

بلال حسین کے ساتھ ان کا ایک دوست اسد بھی مری جانے والوں میں شامل تھا، جو ایک ہی گاڑی میں پولیس کے مطابق دم گھٹنے سے جان سے گئے ہے

اسد خاندان کے واحد کفیل تھے اور اکلوتے بھائی تھے۔ اسد کے والد وفات پا چکے ہیں جبکہ گھر میں ان کی ماں، اہلیہ اور دس ماہ کا بیٹا ہے

فیصل خان کہتے ہیں کہ ’اسد خان نہ صرف میرا بچپن کا دوست تھا، بلکہ کاروباری پارٹنر بھی تھا۔ اسد خان اور میری مردان میں سریے کی دکان ہے۔ جبکہ کراچی والے بلال کے علاوہ باقی دونوں بھی سریے کا کاروبار کرتے ہیں۔ باقی تینوں ان کے رشتہ دار ہیں جس وجہ سے میری ان کے ساتھ بھی دوستی تھی۔‘

فیصل خان کہتے ہیں کہ ہماری بہت گہری دوستی تھی۔ ’ہم کپڑے، گھڑی، جوتے ہر چیز ایک جیسی پہنا کرتے تھے۔‘

’ہم دونوں نے ہمیشہ ایک ساتھ سیاحت کی تھی۔ جب برفباری شروع ہوئی تو میں نے کہا کہ بحرین سوات چلتے ہیں، جبکہ کراچی والے بلال خان کی مری دیکھنے کی خواہش تھی، جس وجہ سے وہ مری اور میں بحرین چلے گئے۔‘

فیصل خان کہتے کہ ‘مجھے اسد خان کا ایک پیغام ملا تھا کہ دکان کی چابی فلاں جگہ پڑی ہے وہ لے لوں۔‘

’آج صبح جب وہ وقت پر دکان نہیں آئے تو میں نے فون کیا اور اس کا نمبر کسی اور نے اُٹھایا اور بتایا کہ اسد خان اور اس کے ساتھ تین لوگ فوت ہو چکے ہیں۔‘

ان کے ایک اور قریبی عزیز نصرت خان کا کہنا تھا کہ ’جب یہ لوگ برف میں پھنسے تو پریشان نہیں تھے۔‘

’میں نے فون کال کی تو سہیل خان نے فون اٹھایا۔ اس نے کہا برف کی وجہ سے روڈ بند ہو چکا ہے، لیکن امید ہے کہ جلد کھل جائے گا اور ہم لوگ مری کا چکر لگا کر واپس آ جائیں گے۔‘

نصرت خان کا کہنا تھا کہ ’کوئی دو، تین گھنٹے بعد دوبارہ فون کیا تو انہوں نے بتایا کہ ابھی روڈ نہیں کھلا ہے۔‘

’مگر کھل جائے گا۔ یہاں ہم ہی نہیں کئی لوگ پھنسے ہوئے ہیں۔ کئی لوگ کاروں میں موجود ہیں۔ ان میں بچے اور عورتیں بھی ہیں، پریشانی کی کوئی بات نہیں ہے۔‘

مردان کے ہلاک ہونے والے چاروں دوستوں کے قریبی رشتہ دار بابر خان کا کہنا تھا کہ ‘ہمارا رشہ دار بلال خان چند دن پہلے ہی کراچی سے آیا تھا۔ اس کی خواہش تھی کہ وہ برفباری دیکھنے مری جائیں۔ اس کی خواہش پر اسد خان نے جب برفباری کی اطلاع سنی تو اس کو اپنی گاڑی میں لے کر گئے تھے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’صبح کے وقت جب یہ مری جا رہے تھے تو انہوں نے کہا تھا کہ مری میں رات نہیں گزارتے۔ وہاں سے ایبٹ آباد جائیں گے۔ رات ایبٹ آباد یا گلیات کے کسی ہوٹل میں رُکیں گے۔ انیوں نے ایبٹ آباد یا گلیات میں کسی جگہ کا انتظام کیا تھا۔‘

بابر خان کہتے ہیں کہ جب رات کو میرا ان سے رابطہ ہوا تو انہوں نے کہا کہ ‘پریشانی کی کوئی بات نہیں ہے۔ ہم ٹھیک ٹھاک ہیں۔ اگر رات بھی گاڑی میں گزارنا پڑ گئی تو ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ گاڑی میں ہیٹر وغیرہ موجود ہے۔ ہم لگا لیں گے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ آدھی رات کے وقت ان کی دوبارہ بات ہوئی تو سہیل خان نے کہا کہ ’ہم لوگ تو ٹھیک ہیں، لیکن کئی گاڑیوں میں لوگوں کی حالت خراب ہے۔ ہمارے پاس کچھ پانی اور کھانے پینے کی چیزیں تھیں، جو ہم نے لوگوں کے حوالے کر دی ہیں۔

دوستوں نے کہا ’سمجھ نہیں آتا کہ کیسے ان عورتوں اور بچوں کی مدد کریں جو پھنسے ہوئے ہیں۔‘

’یہ قیامت کی رات تھی۔ یقین نہیں تھا ہم صبح تک زندہ رہیں گے۔‘

تلہ گنگ کے رہائشی پینتیس سالہ عامر رشید جمعے کو اپنے پانچ دوستوں کے ساتھ نتھیا گلی اور مری کے درمیان کلڈنہ کے مقام پر برف باری میں پھنسے ہوئے تھے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں گذشتہ رات گاڑیوں میں بیس کے لگ بھگ سیاحوں کی موت ہوئی

ٹیلی فون پر بات کرتے ہوئے عامر رشید نے بتایا کہ وہ اپنے بھائی اور تین دوستوں کے ساتھ نجی کام کے سلسلے میں ایبٹ آباد آئے تھے، ’سوچا واپسی پر مری کے راستے چلتے ہیں، برف باری بھی دیکھ لیں گے۔‘

’ہم پرسوں ایبٹ آباد سے نکلے اور رات نتھیا گلی میں قیام کیا۔ نتھیا گلی سے کل صبح نکلے اور مری کے لیے روانہ ہوئے۔ دریا گلی کے مقام پر پہنچے تو راستہ بند تھا۔‘

عامر کے بقول برف باری بھی کافی زیادہ تھی، مگر روڈ بند ہونے کی بڑی وجہ یہ تھی کہ کئی سیاح اپنی گاڑی روڈ پر ہی کھڑی کر کے چلے گئے تھے اور دوسری گاڑیوں کا راستہ بند ہو گیا۔

انہوں نے بتایا: ’مری سے چند کلومیٹر پہلے ہی ہم پھنس گئے، کل دن دو بجے سے اب تک یہیں پھنسے ہوئے ہیں۔‘

عامر کہتے ہیں کہ ’رات کو جب ہم رکے ہیں تو برف باری اتنی تیز تھی کہ گاڑی اس میں دھنسنا شروع ہو گئی تھی۔ صبح تک گاڑی اس میں چار فٹ تک دب گئی تھی۔ اور گاڑی کے دروازے نہیں کھل رہے تھے۔‘

’رات کو ہم کچھ وقت ہیٹر چلا لیتے اور تھوڑی دیر بند کر دیتے اور شیشے کھول کر ہوا آنے دیتے۔ ہم نے پوری رات جاگ کر گزاری۔ یہاں لوگوں کی زیادہ اموات اس وجہ سے ہوئیں کہ انہوں نے شیشے بند کر کے گاڑیوں میں ہیٹر چلائے اور اندر ہی سو گئے۔ ہوا بند ہونے کی وجہ سے ان کا دم گھٹ گیا۔‘

اس مقام پر موجود اسلام آباد کے رہائشی بتیس سالہ وقاص مشتاق بھی اپنے چار دوستوں کے ساتھ موجود ہیں۔ وہ مری سے نتھیا گلی جانا چاہ رہے تھے مگر ان کی گاڑی بھی برف باری کی وجہ سے پھنس گئی

وقاص کے مطابق پوری رات سینکڑوں کی تعداد میں سیاح گاڑیوں میں پھنسے رہے۔ جن لوگوں کو ارد گرد کسی محفوظ جگہ کا پتا تھا، وہ گاڑیاں چھوڑ کر چلے گئے۔ ’جو ہماری طرح ناواقف تھے رات بھر کسی غیبی مدد کا انتظار کرتے رہے۔‘

وقاص بتاتے ہیں کہ اس مقام پر رات کو روشنی اور کھانے پینے کا کوئی بندوبست نہیں تھا۔ ’جو لوگ اپنے ساتھ کھانے پینے کی اشیا پانی یا گرم کپڑے لے کر آئے ان کے لیے پھر کچھ نہ کچھ آسانی تھی۔ جو خالی ہاتھ آ گئے ان کا برا حال رہا۔‘

’برف باری کی وجہ سے رات بھر درخت ٹوٹ کر گاڑیوں پر گرتے رہے۔ جیسے ہی کوئی درخت گرتا، چیخ و پکار شروع ہو جاتی۔‘

’گاڑیوں پر درخت گرنے کی وجہ سے کئی لوگ زخمی ہوئے مگر انہیں وہاں سے ہسپتال لے جانے کا کوئی انتظام تھا اور نہ ہی انہیں وہاں پر فرسٹ ایڈ دی جا سکتی تھی۔ خوف اتنا تھا کہ کوئی گاڑیوں سے باہر نکلنے کو تیار نہیں تھا۔‘

وقاص کے بقول صبح روشنی پھلنا شروع ہوئی تو ہر طرف ایک سکوت تھا۔ ’مجھے تو ایسا لگا کہ ہمارے علاوہ کوئی زندہ نہیں بچا۔ ہم نے گاڑیوں سے برف ہٹانا شروع کی۔ شیشوں پر دستک دے کر لوگوں کو جگانا شروع کیا۔ کچھ گاڑیوں میں لوگ جاگ رہے تھے۔ وہ بھی باہر نکل آئے۔ کچھ گاڑیوں میں لوگ بے ہوش تھے۔ ہم نے انہیں ہوش میں لانے کی کوشش کی۔‘

’ہمارے قریب ہی ایک گاڑی میں چار نوجوانوں موجود تھے، ہم نے ان کی گاڑی کا شیشہ صاف کر کے دیکھا تو وہ بے ہوش تھے۔ کافی دیر کوشش کے بعد بھی وہ ہوش میں نہیں آئے تو ہم نے دروازہ توڑ دیا۔ ان میں سے تین مر چکے تھے۔ ایک کی سانس ابھی چل رہی تھی۔ بعد میں پتا چلا اس کی بھی موت ہو گئی۔‘

’دن چڑھے جب اس مقام کی تصاویر اور وڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہونا شروع ہوئیں تو راولپنڈی، اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ حرکت میں آئی۔‘ مقامی لوگوں، پولیس، ریسکیو 1122 کے علاوہ پاکستانی فوج کے دستے بھی برف میں پھنسے لوگوں کو نکالنے وہاں پہنچے۔ مرنے والوں کی لاشوں اور زخمیوں کو نکالنے کا کام جاری ہے اور ابھی تک سیاحوں کی ایک بڑی تعداد انہی علاقوں میں پھنسی ہے۔ ان میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں

برف باری میں پھنسے عامر رشید نے بتایا کہ ’ابھی ریسکیو کی ٹیمیں یہاں پہنچی ہیں۔ آرمی کے لوگ بھی آ گئے ہیں۔ دو کیمپ قائم کیے ہیں۔ لوگوں کو ہیٹر لگا کر دیے ہیں۔‘

عامر رشید نے بتایا کہ مری کے علاقوں میں بجلی بند ہے۔ کیمپ میں بھی سخت اندھیرا ہے۔ ان کے بقول ’مقامی لوگ گھروں سے کھانا لا کر دے رہے ہیں۔‘

’جس گاڑی میں ہم تھے اس سے دس پندرہ گاڑیاں چھوڑ کر آگے کھڑی گاڑی میں آٹھ لوگوں کی موت ہوئی ہے۔ ریسکیو اہلکار اب ان کی لاشیں نکال کر لے گئے ہیں۔ جہاں پر ہماری گاڑی کھڑی ہے وہاں سے تقریباً ڈیڑھ کلو میٹر پیچھے تک روڈ کھل سکی ہے ابھی تک مشینیں ہم تک نہیں پہنچ پائیں۔ اللہ کرے روڈ کھل جائے۔‘

انہوں نے سیاحوں سے اپیل کی ہے کہ ان دنوں میں مری آنے کا پروگرام نہ بنائیں۔ ’بھائی یہاں بہت ذلالت ہے! ہزاروں کی تعداد میں گاڑیاں کھڑی ہیں۔ لوگ روڈ میں گاڑیاں چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔ اب مشینوں کو گزرنے کا راستہ نہیں مل رہا۔‘

”کئی مرتبہ لگا کہ دن میں اندھیرا چھا گیا ہے“

اسلام آباد کے رہائشی محمد عبدالحمید نے ایبٹ آباد کے راستے گلیات جانے کے لیے جمعے کو علی الصبح ہی اپنے سفر کا آغاز کر دیا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ جب ایبٹ آباد سے گلیات جانے کے لیے مری روڈ پر سفر کا آغاز کیا تو بے انتہا ٹریفک تھی اور وہ سفر جو زیادہ سے زیادہ ایک گھنٹے میں طے ہونا چاہیے تھا، وہ تین گھنٹے میں بھی نہ ہو سکا

ان کا کہنا تھا کہ اس کے ساتھ شدید برفباری نے روڈ کو مکمل طور پر بلاک کر دیا ہے اور گاڑیاں روڈ پر کھڑی ہیں، جبکہ کئی مرتبہ ایسے لگا کہ دن میں اندھیرا چھا گیا ہے

ان کے مطابق، کئی لوگ مری روڈ پر تین بجے تک پھنسے رہے۔ تین بجے کے بعد برف صاف کرنے والی مشین نے ہمیں اور دیگر گاڑیوں کو چیونٹی کی رفتار سے سفر کرواتے ہوئے ایبٹ آباد کے قریب پہنچایا تھا

دوستوں کے ہمراہ راولپنڈی سے مری جانے کی کوشش کرنے والے آغا نصیر کہتے ہیں کہ وہ چار دوست کئی گھنٹے تک مری ایکسپریس وے پر پھنسے رہنے کے بعد رات کوئی نو بجے واپس راولپنڈی پہنچے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر اتنی شدید برفباری ہونی تھی اور اتنے سیاحوں کو مری کا رخ کرنا تھا تو اس بارے میں عوام کو پہلے آگاہ کیا جانا چاہیے تھا

سوات سے صحافی شہاب الدین کے مطابق سوات کے مختلف علاقوں میں بھی جمعے کے روز برفباری ہوئی ہے اور سیاحوں کی بڑی تعداد سوات کا رخ کر رہی ہے

ثانیہ داؤد بھی ان سیاحوں میں شامل تھیں، جو مری میں برفباری کے بعد وہاں پھنس گئیں۔ ثانیہ داؤد نے بتایا کہ وہ اپنے خاوند اور بچوں کے ساتھ جمعے کی شب مری کے لیے روانہ ہوئی تھیں

ہفتے کی صبح انہوں نے اپنی روداد بتاتے ہوئے کہا ”ہم لوگ اس وقت جھیکا چوک سے دو سو میٹر کے فاصلے پر ہیں۔ یہاں واش روم کے لیے لائن لگی ہوئی ہے اور سڑک پر دور دور تک صرف گاڑیاں پھنسی ہوئی نظر آرہی ہیں۔ ہم صبح بچوں کو تھوڑی سی واک کر کے ناشتہ کرانے لے گئے لیکن اب پتا چلا ہے کہ گیس بھی کم ہو چکی ہے۔ راستے میں پھسلن کی وجہ سے نہ گاڑی نکل سکتی ہے اور نہ ہی اب ہم لوگ کہیں نکل سکتے ہیں۔“

ریحان عباسی جو جمعے کی شب اپنے آبائی علاقے بیروٹ جا رہے تھے، کا کہنا ہے کہ وہ جمعے کی شام چھ بجے سے برف میں پھنسے ہوئے ہیں۔

سنیچر کو بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا ’میں ابھی تک برف میں پھنسا ہوا ہوں۔ لوگوں کی گاڑیوں میں ایندھن ختم ہو چکا ہے۔ انتہائی سردی ہے۔ میں نے اپنی گاڑی میں اس طرح وقت گزارا ہے۔ جیسے بس یہ سمجھ لیں کہ میں برف کی قبر میں دھنسا ہوا ہوں۔ قسمت تھی کہ بچ گیا ہوں۔‘

مری کے رہائشی مہتاب عباسی نے نامہ نگار بی بی سی حمیرا کنول سے بات کرتے ہوئے کہا کہ میں نے اپنی پوری زندگی میں برفباری کے دوران ایسی صورتحال نہیں دیکھی۔

انھوں نے بتایا کہ وہ سنی بینک میں مرکزی شاہراہ پر موجود ہیں جبکہ ان گاڑی گذشتہ روز سے گلڈنہ سے دو کلومیٹر پیچھے پھنسی ہوئی ہے۔

انھوں نے بتایا کہ وہ گذشتہ روز صبح ساڑھے گیارہ بجے باڑیاں سے نکلے تو اس وقت برفباری شروع ہو چکی تھی۔ ’جمعے کے دن دوپہر بارہ بجے برفباری کا آغاز ہوا۔ میں ٹریفک میں پھنس گیا تو گلڈنہ سے دو کلومیٹر پیچھے ہی گاڑی سے اترا اور پیدل چلنے لگا۔ برفباری کا سلسلہ صبح چھ بجے کے بعد تھم گیا ہے اور اب ہلکی ہلکی دھوپ نکل آئی ہے۔‘

مہتاب نے بتایا کہ رات کو تو انتظامیہ کہیں دکھائی نہیں دے رہی تھی لیکن اب امدادی اداروں کے اہلکار پیدل جا کر گاڑیوں میں محصور سیاحوں کی مدد کی کوشش کر رہے ہیں۔

مہتاب کہتے ہیں کہ مرکزی علاقوں میں ہوٹل تو کھل گئے ہیں لیکن شدید ٹریفک کی وجہ سے سیاح ایسی جگہوں پر ہیں جہاں سے ان کے لیے یہاں تک پہنچنا مشکل ہے۔

انھوں نے بتایا کہ ’اس وقت مشینری کو آگے پیچھے لے جانے میں بھی مشکلات دکھائی دے رہی ہیں۔ ہائی وے کی ایک گاڑی سنی بینک پر پھنسی ہوئی ہے اور دو مشینیں اس سے آگے پھنسی ہوئی ہیں۔‘

مہتاب عباسی کے مطابق اس وقت مری میں بجلی نہیں اور جگہ جگہ بجلی کی تاریں گری ہوئی ہیں

ماضی میں اس طرح کے ریسکیو آپریشن میں کیا اقدامات کیے جاتے رہے؟

پاکستان میں سیاحوں کا برفباری میں پھنسنے کے واقعات پہلے بھی رونما ہو چکے ہیں اور ریسکیو آپریشن کے ذریعے سیاحوں کو محفوظ مقامات تک منتقل کیا جاتا رہا ہے

سنہ 2015 میں ضلع مانسہرہ کے سیاحتی مقام ناران میں 100 گاڑیاں برف تلے دب چکی تھیں اور ہزاروں سیاح پھنس چکے تھے۔ 20 گھنٹے تک جاری رہنے والے ریسکیو آپریشن کے بعد تمام سیاحوں کو بحفاظت نکال لیا گیا تھا۔ اس ریسکیو آپریشن میں شریک ضلعی انتظامیہ کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’برفانی تودے گرنے کے باعث راستے بند ہوچکے تھے اور برفباری کا سلسلہ بھی وقفے وقفے سے جاری تھا۔ اس دوران فوری طور پر ایف ڈبلیو او، این ایچ اے اور اور ریسکیو کی ٹیموں نے امدادی کارروائیاں شروع کر دیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’ایسی صورتحال میں سب سے بڑا خدشہ خوراک اور پٹرول کی قلت کا ہوتا ہے، اسی خدشے کے پیش نظر آئل ٹینکرز ایسوسی ایشن کو متحرک کیا گیا اور جہاں تک ممکن ہوسکے آئل ٹنکرز پہنچائے گئے اور ریسکیو اہلکاروں نے سیاحوں تک پٹرول اور خوراک پہنچانا شروع کیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’بابو سر ٹاپ کی طرف چونکہ برفباری زیادہ ہوتی ہے اور خدشہ تھا کہ گاڑیاں برف کے نیچے دب جائیں گی، سیاحوں کو گاڑیاں چھوڑ کر محفوظ مقامات تک منتقل کیا گیا، اس آپریشن کے دوران آرمی کے دو ہیلی کاپٹر کا بھی استعمال کیا گیا اور یوں ہزاروں سیاحوں کی جانیں بچا کر 20 گھنٹے کا طویل آپریشن کامیابی سے مکمل کیا

شدید برفباری میں پھنس جائیں تو کیا کریں؟

پوری دنیا میں برف پڑنے سے پہلے تنبیہ جاری کی جاتی ہے کہ اس علاقے میں موسم کبھی بھی خراب ہوسکتا ہے اس لیے گھر میں رہیں لیکن مری میں الرٹ جاری کرنے میں بہت دیر کر دی گئی۔

اس بارے میں ماہر ماحولیات توفیق پاشا معراج نے بی بی سی کی سحر بلوچ کو بتایا کہ برفباری کی صورت میں انتظامیہ کو سب سے پہلے مری جانے والی سڑکیں بند کرنی چاہیے تھیں۔

وہ اس حوالے سے چند احتیاطی تدابیر بتاتے ہیں جن پر عمل کر کے برفباری میں پھنسے سیاح مزید نقصان سے بچ سکتے ہیں:

جو لوگ گاڑیوں میں اپنے بچوں یا گھر والوں کے ساتھ بند ہیں وہ مدد آنے تک اپنی گاڑی کا پیٹرول یا ڈیزل بچانے کے لیے اسے بند کر دیں۔
گاڑی کو کسی کی مدد سے سڑک کے کنارے پر پارک کریں نہ کہ بیچ راستے میں، ٹائر پر لوہے کی زنجیر لگا دیں اور ہو سکے تو گاڑی کو گرم رکھنے کے لیے ہیٹر نہ چلائیں

لوگ بھری گاڑی میں بھی ہیٹر چلا دیتے ہیں جس سے گاڑی میں گھٹن ہونے کے چانسز بڑھ جاتے ہیں اور سانس لینے میں دشواری ہوتی ہے۔ اگر آپ ایک گاڑی میں دو سے تین لوگ ہیں تو ویسے ہی انسانی جان کی گرمی سے گاڑی اندر سے گرم ہی رہے گی

کسی بھی صورت اپنی گاڑی کو چھوڑ کر پیدل نہ نکلیں کیونکہ آپ جہاں کھڑے ہیں اس سے آگے موسم کی کیا صورتحال ہے اس کا اندازہ آپ نہیں لگا سکتے۔ سڑک پر تنہا پھنسے سے گاڑی کے اندر بیٹھنا قدرے بہتر ہے.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close