پاکستان: ریاستی دھاوا، برگر بچوں کی مزاحمت، اسٹبلشمنٹ، لندن پلان اور وہ ایک شخص

ویب ڈیسک

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیر اعظم عمران خان کو پولیس اور رینجرز تمام تر طاقت استعمال کرنے کے اور دو دن کی لگاتار کوششوں کے باوجود گرفتار کرنے میں ناکام رہی اور انہیں بالآخر پسپا ہونا پڑا

عمران خان اس وقت بھی لاہور میں اپنے گھر زمان پارک میں موجود ہیں اور ان کے گھر کے باہر پی ٹی آئی کے سینکڑوں کارکنان اب بھی ’پہرے‘ پر موجود ہیں۔ گزشتہ روز وہ اپنے کارکنان کے ساتھ اپنے گھر کے باہر موجود بھی دکھائی دیے

 ریاستی دھاوا

پولیس نے پی ٹی آئی کارکنوں کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس اور واٹر کینن کا بے دریغ استعمال کیا اور شدید ترین لاٹھی چارج بھی کیا۔ لیکن پی ٹی آئی کارکنوں کی مزاحمت کے سامنے پولیس اور رینجرز کی ہزاروں کی نفری بے بس دکھائی دی

زمان پارک کے اردگرد پولیس کی اضافی نفری تعینات کردی گئی ہے جس نے علاقے کو مکمل طور پر گھیر رکھا ہے جب کہ قصور، گوجرانوالا اور شیخوپورہ سے پولیس کی بھاری نفری بھی پہنچ گئی ہے۔ زمان پارک میں پنجاب رینجرز کو بھی طلب کرلیا گیا ہے

زمان پارک میں پولیس کی جانب سے آنسو گیس کی شیلنگ کی جاری رہی۔ متعدد شیل عمران خان کی رہائش گاہ کے اندر بھی گرے۔ واٹر کینن کا استعمال بھی کیا جاتا رہا ہے، پی ٹی آئی کارکنوں کی جانب سے پولیس اور رینجرز پر پتھراؤ کیا جاتا رہا ہے

گزشتہ روز جب رینجرز اور پولیس عمران خان کو گرفتار کرنے کے لیے زمان پارک پہنچی تو پی ٹی آئی کے کارکن پولیس کے سامنے سب سے بڑی رکاوٹ ثابت ہوئے۔ کارکنوں نے پولیس کے سامنے زبردست مزاحمت کی۔ نہ صرف وہاں پر موجود کارکنوں نے پولیس کے تشدد کے جواب میں اس پر پتھراؤ کیا بلکہ پولیس کی کئی گاڑیوں کو بھی آگ لگا دی، جبکہ ڈنڈوں اور غلیلوں سے پولیس کا راستہ روکے رکھا۔ آپریشن کے دوران زمان پارک کی ہیلی کاپٹر اور ڈرون کے ذریعے فضائی نگرانی بھی کی جاتی رہی

پولیس کی تین سے چار گھنٹوں کی شدید شیلنگ اور واٹر کینن میں کیمیکل ملے پانی کے استعمال سے علاقے میں سانس لینے میں شدید دشواری کا سامنا رہا

شدید شیلنگ کے باعث جہاں ایک جانب پی ٹی آئی کارکنان کی طبعیت خراب ہو رہی تھی، وہیں پولیس اہلکاروں کو بھی تکلیف کا سامنا کرنا پڑا رہا تھا

گزشتہ روز سوشل میڈیا پر ایک دلچسپ وڈیو بھی گردش کرتی رہی، جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ اپنی ہی شیلنگ کی شدت سے کئی پولیس اہلکار نیم بے ہوشی کی حالت میں ہیں اور انہیں اسی پولیس کے ہاتھوں پٹنے والے پی ٹی آئی اور آئی ایس ایف کے نوجوان کارکن پانی پلا رہے ہیں

برگر بچے

پی ٹی آئی کی مخالف سیاسی جماعتیں اور تجزیہ نگار تحریک انصاف کے کارکنوں کے لیے تضحیک کے طور پر ’برگر بچوں‘ کی اصطلاح استعمال کرتے رہے ہیں۔ مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والے ملک کے وزیر داخلہ رانا ثناءاللہ خود کئی بار اپنے بیانات میں یہ اصطلاح استعمال کر چکے ہیں۔ کئی مرتبہ انہوں نے کہا کہ ’جس دن ریاست عمران خان کو گرفتار کرنا چاہے گی تو ان کے برگر بچے ایک منٹ میں تتر بتر ہو جائیں گے۔‘

لیکن گزشتہ دو دن سے لاہور میں جو مناظر دیکھنے کو ملے وہ نہ صرف ان دعوؤں کے برعکس ثابت ہوئے، بلکہ پاکستان کی ماضی قریب کی سیاسی تاریخ اس حد شدید مزاحمت کے واقعات سے خالی نظر آتی ہے۔ ایسے میں پی ٹی آئی کے مخالف تجزیہ نگار بھی اس بات پر سوچنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ کیا تحریک انصاف کے کارکنوں نے برگر ہونے کے اس تاثر کو زائل کر دیا ہے؟ کیا پیپلزپارٹی اور جماعت اسلامی کے کارکنوں کی طرح پی ٹی آئی کارکنوں کی بھی درجہ بندی سکہ بند سیاسی ورکرز کے طور پر ہو گئی ہے؟

تحریک انصاف کے حامی سوشل میڈیا پر بہرحال یہ بات بار بار لکھ رہ ہیں کہ پی ٹی آئی کے کارکنوں نے پولیس کا سامنا کر کے ایسے تمام تاثرات غلط ثابت کر دیے ہیں کہ وہ کمزور ہیں

پاکستان میں جمہوری عمل پر نظر رکھنے والے ادارے پلڈاٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب کہتے ہیں ”اس بات میں تو کوئی دو رائے نہیں کہ تحریک انصاف کے پرجوش کارکنوں نے ریاست کی مشینری کو پچھلے چوبیس گھنٹوں سے بے بس کر رکھا ہے۔ اب انہیں کمزور یا برگر نہیں کہا جا سکتا۔ البتہ یہ دوسرے پہلو ہیں کہ ان کا یہ عمل قانون کی نظر میں کیا ہے۔ وہ تو یقینناً اب عدالتیں ہی دیکھیں گی۔ لیکن عمران خان نے بتا دیا ہے کہ وہ ابلاغ کے ماہر اور ان کے کارکن انتہائی پرجوش ہیں“

دوسری جانب چار ہفتوں کی علاج کی غرض سے ضمانت پر لندن جا کر چار سال سے وہیں مقیم مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف نے اپنے ٹوئٹ میں کہا ”عمران خان میں اگر رتّی بھر بہادری اور غیرت ہوتی تو شرم سے ڈوب مرتا“

نوازشریف نے کہا عمران میں غیرت ہوتی تو وہ بزدلی اور بے غیرتی کا دھبہ لگوانے کے بجائے سیاست چھوڑ دیتا

چار سال سے لندن میں مقیم نوازشریف نے سوشل میڈیا پر اکبر الہ آبادی کا شعر بھی شیئر کیا ”اکبر نے سنا ہے اہلِ غیرت سے یہی، جینا ذلت سے ہو تو مرنا اچھا“

لندن پلان

اِدھر پولیس کی جانب سے عمران خان کو گرفتار کرنے کی کوشش کے بعد بی بی سی اردو کو منگل کے روز دیے گئے خصوصی انٹرویو میں عمران خان نے الزام لگایا ہے کہ ان کی گرفتاری کی کوشش کی شکل میں وہ وعدے پورے کیے جا رہے ہیں، جو موجودہ آرمی چیف کی تعیناتی کے موقع پر اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے سابق وزیراعظم نواز شریف سے کیے گئے

مقتدر حلقے اسے ایک الزام قرار دیتے ہوئے اس کی تردید کر رہے ہیں لیکن یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ کیا عمران خان کے خلاف مقدمات میرٹ پر قائم کیے جا رہے ہیں یا پھر واقعی ایسا کوئی لندن پلان موجود ہے، جس کے تحت ان پر سیاست کا میدان تنگ کیا جا رہا ہے

عمران خان نے اپنے انٹرویو میں کہا کہ اسٹیبلشمنٹ کی حمایت کے بغیر موجودہ حکومت کچھ نہیں کر سکتی اور انہیں افسوس ہے کہ آج فوج اور ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کو آمنے سامنے لایا جا رہا ہے

عمران خان کے اس مؤقف سے کسی اور کو اتفاق ہو یا نہ ہو سابق سیکریٹری دفاع اور ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل خالد نعیم لودھی اس بات پر مکمل یقین رکھتے ہیں

ان کے مطابق جو انہوں نے مستند ذرائع سے سنا ہے وہ یہ ہے کہ لندن پلان دو حصوں پر مشتمل ہے۔ ایک حصہ تو یہ تھا کہ عمران خان کو حکومت سے بے دخل کرنے کے بعد نواز شریف واپس پاکستان آ جائیں گے اور عدالتوں سے انھی ریلیف مل جائے گا

سابق سیکریٹری دفاع کے مطابق اس پلان کا پہلا حصہ تو کامیاب نہیں ہو سکا ہے کیونکہ عدلیہ نے یہ تسلیم ہی نہیں کیا کہ نواز شریف کو کلین چٹ دے دی جائے

ان کے مطابق اب لندن پلان کے دوسرے حصے پر عمل درآمد کی کوششیں ہو رہی ہیں اور عمران خان کی گرفتاری اور نااہلی اس دوسرے حصے کا اہم جزو ہے

جنرل خالد نعیم کے مطابق ان کے لیے اب اس موضوع پر بات کرنا اتنا آسان نہیں ہے مگر وہ یہ ضرور سمجھتے ہیں کہ لندن پلان ناکام ہو رہا ہے۔ اور آخر میں وہی ہوگا، جو پاکستان کے عوام کی منشا ہے۔ ان کی رائے میں اس وقت خود پولیس کا دل بھی عمران خان کو گرفتار کرنے کا نہیں ہے

پاکستان تحریک انصاف کی سابق رکن قومی اسمبلی عالیہ حمزہ ملک کہتی ہیں کہ پولیس اور رینجرز اس وقت جو کچھ زمان پارک میں کر رہی ہے ان کی خواہش پر کر ہی ہے۔ اس کے علاوہ بڑا ثبوت ملک کے وزیر داخلہ رانا ثناءاللہ کے بیانات ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ عمران خان کو گرفتار کرنا ہوگا۔ ان کے مطابق لندن پلان کا بڑا ثبوت تو خود عمران خان کے خلاف 80 سے زائد مقدمات کا قائم ہونا ہے۔ ان کے مطابق اس سب کا مقصد انارکی پھیلانا ہے

ان کے مطابق توشہ خانہ کی بنیاد پر ایک ہنگامہ برپا کیا ہوا مگر اب تو یہ حقیقت بھی سامنے آ چکی ہے کہ اب تو سارے توشہ خانے بن چکے ہیں

سینیئر صحافی و تجزیہ کار نسیم زہرہ کے مطابق لندن پلان تو ایسا کوئی موجود نہیں ہے مگر یہ ضرور ہے کہ تحریک انصاف مریم نواز اور حکومت کے دیگر رہنماؤں کے بیانات کو اس لندن پلان کے ساتھ جوڑتے ہیں

ان کے مطابق اب تو نواز شریف کی اپنی حکومت موجود ہے۔ اور یہ بات بھی واضح ہے کہ شہباز شریف ان کے کہے بغیر کوئی ڈیل نہیں کرتے۔ نسیم زہرہ کے مطابق یہ بات درست ہے کہ جب نواز شریف کو عدلیہ سے کوئی کلیئرنس ملے گی، تو ہی وہ واپس آئیں گے

لاہور میں پیدا شدہ صورت حال کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے تجزیہ کار زاہد حسین کا کہنا ہے ”موجودہ صورت حال دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ بحران بہت بڑھ رہا ہے اور سیاسی تصادم مزید گہرا ہو رہا ہے۔ لاہور میں جو کچھ ہوا، یہ اسی کی نشاندہی کر رہا ہے“

انہوں نے کہا ”عمران خان کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ صورت حال کو مزید سیاسی تصادم کی جانب لے جا رہے ہیں۔ وہ کسی بھی ’سیاسی عمل‘ کا حصہ بننے کے لیے تیار نہیں ہیں“

زاہد حسین کہتے ہیں ”پنجاب میں الیکشن کی تاریخ کا اعلان ہو چکا ہے۔ اس ساری صورت حال کا الیکشن پر بھی اثر پڑے گا۔ پاور ویکیوم بھی پیدا ہو سکتا ہے۔ پنجاب کی نگراں حکومت بھی اپنے اقدامات سے ہر گزرتے دن کے ساتھ متنازع ہوتی جا رہی ہے۔ دیگر اداروں کی ساکھ بھی کافی مجروح ہوئی ہے“

سیاسی تجزیہ کار اور مصنف عاصم سجاد اختر موجودہ نظام سے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں ”جب آپ عوام کو کچھ دے نہ سکیں تو ایسے تماشے لگاتے ہیں۔ موجودہ سیاسی جماعتوں اور اسٹیبلشمنٹ کے پاس عوام کے لیے کچھ بھی نہیں۔ عمران خان قائد ہوتے ہوئے گرفتاری سے ڈر رہے ہیں۔ حکمرانی کرنی ہے تو گرفتاریاں تو ہونی ہیں“

اُدھر عمران خان نے منگل کی شب دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے اپنے وکیل کے ذریعے مقررہ تاریخ پر عدالت میں پیشی کی اپنے دستخطوں کے ساتھ یقین دہانی کروائی ہے لیکن پولیس نے وہ شیورٹی وصول کرنے سے انکار کر دیا ہے

اسٹبلشمنٹ کا کردار

تجریہ کار اور ماہر سیاسی امور رسول بخش رئیس نے موجودہ صورتحال پر کہتے ہیں ”پاکستان میں سول ملٹری تناؤ ہمیشہ سے رہا ہے۔ لیکن اب یہ تصادم اور تناؤ اپنے عروج پر پہنچ چکا ہے“

انہوں نے کہا ”اسٹیبلشمںنٹ کو عمران خان نے جس طرح سے رگیدا اور اسے عوام کے سامنے ایکسپوز کیا ہے۔ اس بیانیے کو پاکستان کی تاریخ میں غیرمعمولی مقبولیت ملی ہے جس سے اسٹیبلشمنٹ بپھر گئی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ ابھی اپنا ماضی والا جو درپردہ کردار تھا، اسے بحال کرنا چاہتی ہے۔ اس کے لیے انہوں نے تیرہ جماعتوں کا اتحاد بنایا۔ آپ دیکھیں کہ ان جماعتوں کے رہنماؤں نے اپنے سیاسی نعرے ’ووٹ کو عزت دو‘ وغیرہ سب چھوڑ دیے ہیں“

رسول بخش رئیس نے اسٹیبلشمنٹ کے کردار پر تنقید کرتے ہوئے کہا ”دیکھیں اب حالات بہت زیادہ مختلف ہیں۔ ضیاء الحق اور پرویز مشرف والا دور واپس نہیں لایا جا سکتا۔ اب گراؤنڈ پر مزاحمت بہت زیادہ ہے“

کیا عمران خان کو خود کو قانون کے سامنے نہیں پیش کر دینا چاہیے؟ اس سوال پر رسول بخش رئیس کا کہنا تھا کہ ’عمران خان کے خلاف 78 مقدمات ہیں جن میں سے اکثر مضحکہ خیز ہیں۔ ان پر قاتلانہ حملہ ہو چکا ہے۔ وہ قانونی طریقے سےضمانت قبل از گرفتاری لے رہے ہیں اور یہ ان کا حق ہے“

عاصم سجاد آئندہ دنوں میں کوئی زیادہ تبدیلی نہیں دیکھتے۔ ان کا کہنا ہے ”مروجہ سیاست میں کوئی تبدیلی ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔ حکمرانوں کے آپس کے اس کھیل میں مزید شدت آئے گی۔ ہمارا تو یہاں کے نظامِ حکمرانی پر سوال ہے۔“

وہ ایک شخص کون ہے؟

امریکی نشریاتی ادارے وائس آف امریکہ کی طرف سے ایک انٹرویو میں عمران خان سے جب پوچھا گیا کہ آپ نے اپنے حامیوں کے نام پیغام میں کہا تھا کہ صرف ایک شخص پاکستان کے فیصلے کر رہا ہے۔ وہ ایک شخص کون ہے؟

اس سوال کے جواب میں عمران خان نے کہا ”سبھی جانتے ہیں موجودہ حکومت مکمل طور پر اسٹیبلشمنٹ پر منحصر ہے۔ ان کی مرضی کے بغیر کچھ نہیں ہو سکتا“

ان کا کہنا تھا کہ یہ اقدامات اس حکومت کے بس کی بات نہیں جو کوئی قانونی جواز اور اس ملک میں جڑیں نہیں رکھتی۔ اس حکومت کی کوئی اخلاقی حیثیت نہیں ہے کیوں کہ ان میں سے 60 فی صد لوگ کرپشن کے مقدمات میں ضمانت پر ہیں۔ یہ صرف اسٹیبلشمنٹ کی وجہ سے حکومت میں ہیں

انہوں نے کہا ”مجھے خدشہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ صرف ایک شخص ہے۔“ جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ ایک شخص کون ہے تو ان کا کہنا تھا: ”آرمی چیف، وہ فیصلے کرتے ہیں۔ جو وہ کہتے ہیں اس پر عمل ہوتا ہے۔“

ماضی میں آپ نے سابق آرمی چیف پر حکومت گرانے کی سازش کا الزام عائد کیا اور اب آپ کیا یہ کہہ رہے ہیں کہ موجودہ آرمی چیف آپ کے خلاف ہیں؟ اس سوال کے جواب میں عمران خان کا کہنا تھا:” میں اس وقت یہ نہیں کہہ رہا۔ میں صرف یہ کہہ رہا ہوں کہ پاکستان میں اور خاص طور پر موجودہ صورتِ حال میں جو ہورہا ہے وہ اسٹیبلشمنٹ کی پشت پناہی کے بغیر ممکن نہیں“

یوں عمران خان اپنی گرفتاری کے لیے جاری کارروائی سے پیدا ہونے والی صورتِ حال کا ذمے دار آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو قرار دے رہے ہیں

عمران خان نے مؤقف اختیار کیا کہ انہیں 18 مارچ تک حفاظتی ضمانت حاصل ہے۔ ان کی گرفتاری ایک منصوبے کا حصہ ہے جس کے تحت انہیں گرفتار کرکے، نااہل کر کے یا ’آخری حل‘ کے ذریعے انتخابی مقابلے سے الگ رکھنا ہے

انہوں نے کہا کہ ’آخری حل‘ سے مراد یہ ہے کہ ان پر پہلے ہی قاتلانہ حملہ ہو چکا ہے۔ جو لوگ اس میں ملوث تھے وہ اس حکومت میں ہیں اور رائے عامہ کے جائزوں سے واضح ہو گیا ہے کہ ان کی جماعت انتخابات میں بھاری اکثریت حاصل کرے گی

انہوں نے کہا کہ وہ اپنی زندگی کو لاحق خطرات سے متعلق پہلے ہی وفاقی وزیرِ داخلہ رانا ثناء اللہ کو نامزد کر چکے ہیں

وائس آف امریکہ کے انٹرویو میں سوال کیا گیا کہ ماضی میں بھی سیاسی رہنما گرفتار ہوئے ہیں۔ وزرائے اعظم جیل گئے اور ان کے حامی قتل بھی ہوئے۔ موجودہ صورتِ حال ان سب سے مختلف کیوں ہے؟

عمران خان کا کہنا تھا کہ وہ صرف نواز شریف کی بات کر سکتے ہیں جو پاناما اسکینڈل سے سامنے آنے والی کرپشن کی وجہ سے جیل گئے تھے۔ لیکن انہیں بغاوت اور دہشت گردی جیسے مقدمات کا سامنا ہے

’رینجرز کی کارروائی فوج کے مقابل کھڑا کر رہی ہے‘

عمران خان نےبدھ کو اپنے ٹوئٹ میں کہا کہ ان کا گھر گزشتہ روز سے شدید حملے کی زد میں ہے۔ تحریکِ انصاف کے قائدین پر آنسو گیس، کیمیکل ملے پانی والی توپوں اور ربڑ کی گولیاں برسائی گئی ہیں۔

انہوں نے الزام عائد کیا کہ پولیس نے بدھ کی صبح ان کے گھر پر سیدھی فائرنگ کی جب کہ رینجرز کو بھی میدان میں اتار دیا گیا ہے جو عوام سے متصادم ہیں

عمران خان نے کہا کہ وہ حلقے جن کا دعویٰ ہے کہ وہ ’غیر جانب دار‘ ہیں ان سے میرا سوال ہے کہ آپ کا غیرجانبداری کا تصور یہ ہے کہ نہتے مظاہرین اور ملک کی سب سے بڑی جماعت کے سامنے رینجرز کو کھڑا کر دیا جائے

انہوں نے کہا کہ ان کی جماعت کے رہنماؤں کو ایک غیر قانونی وارنٹ کا سامنا ہے اور معاملہ پہلے ہی عدالت میں ہے اور حکومت انہیں اغوا کرکے ممکنہ طور پر قتل کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔

عمران خان نے اپنی ایک تصویر بھی شیئر کی ہے جس میں ان کے سامنے میز پر آنسو گیس کے شیل اور گولیوں کے خول رکھے ہوئے ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close