کافی عرصہ سے سوشل میڈیا پر یہ خبریں چل رہی ہیں کہ موجودہ ضلع ملیر کو دو حصوں میں تقسیم کرکے دو نئے اضلاع گڈاپ اور ضلع بن قاسم بنایا جارہا ہے۔
پاکستان کے وجود میں آنے کے وقت موجودہ کراچی ڈویژن، جس کا پرانا نام "کلاچی” ہے اور یہ پاکستان کے بننے کے بعد 1947ع سے ایک ہی ضلع تھا۔
لیکن قیام پاکستان کے بعد صدیوں سے آباد کراچی "کلاچی” کی مقامی ابادی کو کیا نصیب ہوا؟
صرف یہی کہ، کراچی "کلاچی” کی صدیوں سے آباد قدیمی مقامی قبائل جوکھیو، کلمتی، گبول، برفت، پہنور، پالاری، میمن، خاصخیلی، ھمائتی, مگنہار وغیرہ کو ایک سازش کے تحت "کے ڈی اے” اور "کے ایم سی” کی شکل میں کراچی "کلاچی” شہر سے دھکیل کر باہر پھینک دیا گیا اور ان کو ان کے تمام بنیادی انسانی و قانونی حقوق سے محروم کر دیا گیا!
ان سے زبردستی زمینیں، کھیت چھین لیے گئے اور گوٹھوں کو بلڈوزر کرکے خالی کروایا گیا اور اس جگہ پر "ھندوستان” سے آئے ہوئے نئے لوگوں کو بسایا گیا اور انہیں ہر قسم کی سہولیات بھی دی گئیں۔
جو ھندو سندھ، کراچی "کلاچی” سے ھندوستان چلے گئے، ان کی جائیدادوں "اویکیو پراپرٹی” پر "ھندوستان” سے آئے ہوئے لوگوں نے قبضہ کرلیا۔
سنہ 1974ع کے بعد موجودہ کراچی ڈویژن کو تین اضلاع میں تقسیم کیا گیا اور مقامی ابادی کا حال وہی رہا، جو پاکستان بننے کے بعد تھا۔
سنہ 1993ع میں شہید محترمہ بینظیر بھٹو صاحبہ کے پہلے دورِ حکومت میں کراچی "کلاچی” ڈویژن کو چار اضلاع میں تقسیم کیا گیا، یعنی کہ ایک نیا ضلع "ملیر” کے نام سے منسوب کیا گیا۔ جس کا مقصد خصوصی طور پر دیہات، رورل ایریا میں بسنے والی پسماندہ قدیمی ابادی کو ڈولپ کرنا تھا۔ اس نئے ضلع "ملیر” کے لوگوں کو ڈولپ کرنے کے لئے سنہ 1996ع میں "ملیر ڈولپمینٹ اتھارٹی” کا وجود سامنے آیا۔
لیکن یہ ادارہ بھی مقامی ابادی کے لئے تباہی و بربادی کا سبب بنا!
مقامی لوگوں جوکھیو اور کلمتی قبیلے کے لوگوں سے دیھ جوریجی میں 6000 ایکڑز زمین پر قبضہ کیا گیا اور ان کے کھیتوں کو اجاڑا گیا۔
مقامی ھاریوں و متاثرین جوکھیو، کلمتی لوگوں کو "ملیر ڈولپمینٹ اتھارٹی” میں ایک آدمی کو بھی روزگار نہیں دیا گیا۔
سنہ 1993ع میں ضلع ملیر کی دیھ ڈانڈو اور کوٹیرڑو میں 13500 ایکڑز زمین عسکری ادارے کو حکومت سندھ کی طرف سے تحفے کے طور پر الاٹ کی گئی۔
اس سے دیھ ڈانڈو اور دیھ کوٹیرڑو میں بسنے والے مقامی جوکھیو قبیلے کی ابادی کے 15 گوٹھ متاثر ہوئے اور آج دن تک ان تمام گوٹھوں میں گورنمنٹ کی ہر فیسلٹی کو عسکری اداروں کی طرف سے روکا گیا ہے اور ان تمام گوٹھوں کی مقامی ابادی زندگی کی ہر بنیادی انسانی و قانونی حقوق سے محروم ہے۔
سنہ 2004ع میں جنرل مشرف کے دور حکومت میں عسکری ادارے کو مزید 50600 ایکڑز زمین تحفے میں دی گئی اور اس سے دیھ ڈانڈو، دیھ کوٹیرڑو، دیھ جوریجی، دیھ گھگھر، دیھ دھابیجی کے چار درجن سے بھی زائد گوٹھوں کی ابادی متاثر ہوئی ہے۔
سنہ 2003ع اور 2006ع کے دوران دیھ آبدار، دیھ کھدیجی میں "ڈی ایچ اے” فیز IX کے نام پر حکومت سندھ نے 12095 ایکڑ زمین الاٹ کرکے دے دی اور اس سے مقامی جوکھیو قبیلے کے آٹھ گوٹھ متاثر ہوئے ہیں اور ان کی زمینوں، کھیتوں پر قبضہ کرلیا گیا۔ انہیں آج دن تک روزگار، نوکریوں کے مواقع سے محروم رکھا گیا ہے۔
حکومت سندھ نے دیھ بائل اور کاٹھوڑ میں "ڈی ایچ اے” کو 8000 ایکڑز زمین الاٹ کرکے دی ہوئی ہے۔ اس سے مقامی آبادی کے تین گوٹھ متاثر ہوئے ہیں اور ان کی زمین، کھیتوں، روزگار پر قبضہ کرلیا گیا ہے۔
حکومت سندھ کی طرف سے ضلع ملیر کی دیھ لنگھیجی، دیھ کاٹھوڑ اور ضلع جامشورو کی تین دیہوں اراضی اندازاً 50000 ایکڑ زمین بحریہ ٹائون "ملک ریاض” کو تحفے میں دی گئی ہے۔
حکومت سندھ نے دیھ کوٹیرڑو میں "پی اے ایف” ھائوسنگ سوسائٹی کے نام پر عسکری ادارے کو 400 ایکڑ زمین الاٹ کرکے دی ہوئی ہے۔
حکومت سندھ نے دیھ کوٹیرڑو میں پاکستان رینجرز کو 50 ایکڑ زمین الاٹ کرکے دی ہوئی ہے۔
دیھ جوریجی میں "وٹیجی” ایئر بیس کے نام پر 200 ایکڑ سے بھی زائد زمین پر بائونڈری کی ہوئی ہے۔
سپر ھائی وے ٹول پلازہ کے ساتھ ہزاروں ایکڑ زمین پر فیلڈ فائرنگ رینج قائم ہے۔
حکومت سندھ کی طرف دیھ چوھڑ میں 9000 ایکڑز زمین ایجوکیشن سٹی کے نام پر الاٹ کی گئی ہے۔ جہاں آج کیڈٹ کالج کراچی، شہید محترمہ بینظیر بھٹو صاحبہ 500 بیڈ ھاسپیٹل، قائد اعظم پبلک اسکول اور "بی ایڈ” کالج، آغا خان یونیورسٹی کی سائٹ قائم ہے۔ لیکن مقامی ابادی کو روزگار کے مواقع سے محروم رکھا گیا ہے۔
سنہ 1974ع میں حکومت سندھ اور وفاق پاکستان میں ایک معاہدے کے تحت دیھ جوریجی، کوٹیرڑو، کھانٹو، سنہرو، باکران، پپری میں ہزاروں ایکڑز زمین پاکستان اسٹیل مل، پورٹ قاسم اتھارٹی، بن قاسم انڈسٹریل زون، اسٹیل ٹائون، گلشن حدید کے قبضے میں ہے۔ لیکن مقامی متاثرین آبادی کے لئے روزگار کے مواقع میسر نہیں ہیں۔
ضلع ملیر کے مقامی ھاریوں کو سنہ 1986/87ع میں کھلی کچہری میں پہلی بار ڈکٹیٹر جنرل ضیاء الحق کے دور میں دس سالہ لیز زمین کی الاٹمنٹ دی گئی ہیں اور بعد میں کو تیس سالہ لیز الاٹمینٹ میں تبدیل کردیا گیا۔
افسوس کا عالم یہ ہے کہ موجودہ جمہوری، پاکستان پیپلز پارٹی سرکار نے پوری سندھ سمیت ضلع ملیر کے مقامی ھاریوں کی 30 سالہ لیز زمینوں کو کینسل کردیا ہے۔
سنہ 1995/96ع میں غیر مقامی لوگوں کی پولٹری فارمز کی تیس سالہ لیز زمین کو 5 روپیہ فی گز کے حساب سے 99 سالہ لیز الاٹمینٹ دی گئی۔
لیکن ضلع ملیر کے مقامی ھاریوں کو اس 99 سالہ لیز پالیسی سے محروم رکھا گیا۔
آج بھی ضلع ملیر میں گورنمنٹ کی ہزاروں ایکڑ ز زمین اور جعلی تیس سالہ لیز ڈاکیومینٹس پر سرعام پلاٹنگ جاری ہے اور اس گھنائونے جرم کاروبار میں صوبائی حکومت کے حکمرانوں کے با اثر لوگ ملوث ہیں۔
ضلع ملیر کی دھرتی کو مال غنیمت سمجھ کر دونوں ہاتھوں، پائوں سے گِدھوں کی طرح نوچا جارہا ہے۔
ضلع ملیر کے منتخب نمائندے محض ایک ربڑ اسٹیمپ کی طرح اور بے اختیار و بے یارو مددگار گھوم رہے ہیں.
ضلع ملیر کے منتخب نمائندوں کو اتنا سا اختیار بھی حاصل نہیں ہے کہ وہ اپنے ایریا میں مقامی پٹواری یا ایس ایچ او مقرر کر سکیں۔
ضلع ملیر میں اس وقت سب سے زیادہ اور جلدی منافع بخش کاروبار غیر قانونی لینڈ گریبنگ ہے۔۔
سپریم کورٹ آف پاکستان کے غیر قانونی تجاوزات کے خلاف قانونی کارروائی کے سلسلے میں تمام تر احکامات کو صوبائی حکومت سندھ نے جوتے کے نوک پر رکھا ہوا ہے۔
ضلع ملیر میں ایک طرف غیر قانونی لینڈ گریبنگ عروج پر ہے، تو دوسری طرف مقامی ابادی اپنے وجود کی بقاء کے لئے پریشان ہے اور سالوں سے عدالتوں کے چکر کاٹ رہے ہیں۔
ضلع ملیر میں اس وقت صوبائی سرکاری اداروں میں مقامی افسران کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہے۔
ضلع ملیر کے منتخب نمائندوں کو یہ بھی حق حاصل نہیں ہے کہ وہ سندھ اسمبلی میں اپنی مرضی کے مطابق بل لا سکیں یا قانون سازی کریں۔
ضلع ملیر جو کہ آج سے چالیس سال پہلے "جنت نظیر” تھا اور آج بیروت بنا ہوا ہے اور ہر طرف خزاں کا سماں ہے۔
ضلع ملیر جو کہ آج سے چالیس سال پہلے "جنت” میں موجود تمام پھل فروٹ اگاتا تھا اور آج قحط سالی کا شکار ہے۔
ضلع ملیر میں آگر ترقی ہوئی ہے، تو منشیات، ریتی بجری چوری، بیروزگاری، غیر قانونی لینڈ گریبنگ، غیر مقامی آبادکاری وغیرہ وغیرہ۔
مذکورہ بالا حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے، آگر حق اور سچ بات بولی جائے، تو وقت کے حکمرانوں نے اپنے اپنے ادوار میں دھوکے ہی کیے ہوئے ہیں۔
وقت کے حکمرانوں نے صرف تھوڑے وقت کرسی کی خاطر ضلع ملیر کی دھرتی کو تین وال کیا ہوا ہے۔
وقت کے حکمرانوں نے ضلع ملیر کی عوام کا استعمال کرکے صرف اپنے پیٹ، گھر بھرے ہیں۔ اس کے سوا کچھ نہیں ہے۔
منتخب نمائندوں کی نا اہلی کے سبب آج بھی ضلع ملیر کی ابادی کیلئے صوبائی اور وفاقی اداروں میں "رورل ایریا” کی کوٹہ سسٹم نہیں ہے۔
ضلع ملیر کی مقامی ابادی کے لئے سندھ پبلک سروس کمیشن، سی ایس ایس میں "رورل ایریا” کی کوٹہ سسٹم نہیں ہے۔
اس سے بڑھ کر ضلع ملیر کے مقامی لوگوں، ھاریوں، مزدوروں، شاگردوں، تعلیم یافتہ نوجوانوں سے دھوکا کیا ہوگا؟؟؟
اگر یہی روش برقرار رہی، حکمرانوں نے اپنا رویہ نہیں بدلا، منتخب نمائندوں نے غفلت، لا پرواہی میں آنکھیں نہیں کھولیں، تو بہت جلد ضلع ملیر کی مقامی ابادی بھکاریوں کی طرح روڈوں پر بھیک مانگ پر مجبور ہونگے۔
ضلع ملیر کی مقامی ابادی کو کسی بھی نئے ضلع اور ڈراما بازی کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ انہیں ان بنیادی انسانی و قانونی حقوق چاہییں۔
ضلع ملیر کی مقامی ابادی کو تبدیلی کے جھوٹے سہانے خوابوں کی کوئی ضرورت نہیں ہے اور انہیں آج سے چالیس سال پرانا ملیر چاہیے۔
ضلع ملیر کی مقامی ابادی کی طرف سے لکھے گئے خط میں ہر ایک لفظ ثابت کرنے کے لئے تیار ہیں۔