آج پھر بحریہ ٹاؤن کی انتظامیہ پولیس اور ہیوی میشنریز کے ساتھ ھادی بخش گبول گوٹھ کے عقب میں واقع لنگھیجی ندی پر آ کر جمع ہو گئی
علاقے کے لوگوں نے فون کیا تو میں وہاں پہنچ گیا، جہاں میرے انتظار میں حاجی امید علی گبول امیر الدین گبول اور دیگر گاؤں کے لوگ موجود تھے. انہوں نے بتایا کہ بحریہ کی انتظامیہ ہمارے گاؤں کی زمین پر روڈ کے نام پر قبضہ کرنے کے لیئے آئی ہے
میں جب ان کے ساتھ اس طرف گیا جہاں بحریہ کی مشینیں کھڑی تھیں، پولیس کے پہرے میں.. وہاں تپیدار، ایس ایچ او اور بحریہ ٹاؤن کا افسر کیپٹن علی موجود تھا. گاؤں کے ایک معزز حاجی امیر الدین نے ان سے بات کی تو کیپٹن علی کہنے لگا ہمیں زمین چاہیے، اگر کسی کے پاس کاغذات ہیں تو دکھائے ویریفیکشن کر کے معاوضہ دے دیں گے!
گاؤں والوں نے کہا کہ یہ ہماری گاؤں کی زمین ہے، ہم نہیں دے سکتے، تو کیپٹن علی نے رعونت بھرے انداز میں کہا کہ دیکھتے ہیں…. ہمیں زمین چاہیے… اگر یہاں نہیں تو اس زمین کی دوسری طرف زمین دکھا دو ہم وہ لیتے ہیں.
علائقہ مکینوں نے میرے آنے سے پہلے ایم پی اے سلیم بلوچ کو فون کر کے مدد کے لیئے کہا تھا, تو انہوں نے ایس ایس پی کو فون کیا، اور ایس ایس پی نے ایس ایچ او کو کال کی، جو ہمارے سامنے بیٹھا ہوا تھا.
اس نے فون پر کچھ دیر بات کرنے کے بعد فون کیپٹن علی کو دے دیا کہ صاحب سے بات کریں، تو کیپٹن علی نے ایس ایس پی سے ایسے بات کی کہ جیسے یہ آئی جی ہو اور اپنے کسی ماتحت سے بات کر رہا ہو..
بات کرتے ہوئے کہنے لگا کہ میں کسی ایم پی اے کو نہیں جانتا، اگر اسے کوئی ایشو ہے تو یہاں گراؤنڈ میں آئے، اسے دیکھ لوں گا.
فون کٹ کرنے کے بعد ہم سے مخاطب ہوا "میں کسی ایم پی اے یا ایم این اے کو نہیں جانتا.. زمین مجھے چاہیے.. میں زمین لوں گا, اگر کسی کے پاس کاغذات ہیں تو پیسے دوں گا، اگر نہیں تو زمین تو جائے گی ہی..”
گاؤں والے جو پہلے ہی ڈرے ہوئے تھے، سہم کر کہنے لگے کہ ہم یہ زمین نہیں دے سکتے، یہاں ہمارا گاؤں ہے، ہمارے بچے ہیں.. ہم ان کو ان بلڈوزرز کے سامنے نہیں آنے دیں گے
تو یہ صاحب کہنے لگے”ہاں لے آؤ.. آزمالو ہمیں ہم یہ بھی کر کے دیکھ لیں گےـ ہمیں رستہ چاہیے یہ زمین… نہیں تو ساتھ والی زمیں ہمیں چاہیے”
اس پر ساتھ والی زمین کے مالک، حاجی امیر الدین، جو ساتھ ہی کھڑے تھے، کہنے لگے ” اگر ایسی ہی زبردستی ہے تو، ہمارے گاؤں کی زمین چھوڑ دو، میری زمین لے لو… ہماری جان چھوڑو”
تو یہ صاحب انتہائی ڈھیٹ پن سے کہنے لگے” معاوضہ دیں گے… ”
تو زمین مالک نے کہا کہ” مجھے اپنے بچوں کو حرام نہیں کھلانا. یہ زمین میں اپنے گاؤں کے صدقے میں دے رہا ہوں.. اسے زمین خریدنا نہیں کہتے.. یہ تو سیدھا زمین پر قبضہ کرنا ہے..”
یہ حالت پے… یہ ساری بدمعاشی پولیس کے پہرے میں ہو رہی ہے… قانون، عدالتیں… سب کچھ مذاق بن کر رہ گیا ہے.. اب طاقت ہی قانون ہے… بحریہ ٹاؤن کے سامنے منتخب نمائندے بھی جب بےبس ہیں تو بیچارے غریب لوگ کیا کر سکتے ہیں؟ وہ ڈر اور خوف کے عالم میں زندگی گذار رہے ہیں، کوئی بھی ان کی مالکی کرنے کو تیار نہیں..
سندھ انڈیجینئس رائیٹس الائنس یہاں کے مقامی لوگوں کے لیے ان کے ساتھ کھڑی ہے، مگر ان کی طاقت کے سامنے مزاحمت کے لیے پورے سندھ کی سیاسی قوتوں کو آگے آ کر ان غریب مقامی سندھی بلوچوں کا ساتھ دینا ہوگا، اگر نہیں تو یہ ملیر کو تباہ کرنے کے بعد پورے سندھ کو تباہ کر دیں گے.