میں نے اپنے بارے میں اپنی ایک نظم میں لکھا تھا
"میں وہ خوش قسمت ہوں،
جو بڑا بدنصیب ہے!”
آج ملیر کے حالات دیکھ کر، میں اپنے ان الفاظ کا انتساب ملیر کے نام کرنے کے لیے مجبور ہو گیا ہوں!
یہ وہ خطہ ہے جو اپنی گوناگوں خصوصیات کی بناء پر یقیناً خوش قسمتی کے منصب پر فائز ہے، لیکن جب اس کے تحفظ اور ترقی کا سوال آتا ہے تو اس کی بدقسمتی چیخ کر ہمارا دامن پکڑ لیتی ہے!
کہتے ہیں کہ غریب کی جورُو اگر بلا کی حسین ہو تو اوباش لوگوں کی نظروں میں آ جاتی ہے، یہی حال ملیر کا ہے… غریب کی جورو جیسا… سیاسی قبضہ مافیا، ریاستی ادارے، متعلقہ سرکاری اداروں کے کرتا دھرتا، سرمایہ دار، بلڈرز مافیا، ریتی بجری مافیا اور منشیات مافیا کے اوباش اس غریب کی حسین جورو کو طرح طرح سے نوچ رہے ہیں!
ضلع ملیر کی زمینیں مکمل منصوبہ بندی کے تحت یہاں کے لوگوں سے ہڑپی جا رہی ہیں، ان سے حق ملکیت چھینا جا رہا ہے اور سرکاری سیاسی مافیا اپنی اس قبضہ گیری کہ خواہش کو قانون کے پنوں پر چھاپ کر اسے قانون بنا رہا ہے.. لیکن یہاں کے منتخب نمائندے ملیر کی زمین کی حفاظت میں مکمل طور پر ناکام نظر آتے ہیں.
ملیر اگرچہ بنیادی طور پر ایک زرعی علاقہ ہے، لیکن بدقسمتی سے یہاں کے منتخب نمائندوں کے پاس زراعت کے متعلق کوئی پالیسی سرے سے ہے ہی نہیں۔ ضلع ملیر کے کھیتوں ، کاشتکاروں اور زمینوں تحفظ اور اراضی گرانٹ کا کوئی واضح منصوبہ دینے سے وہ قاصر رہے ہیں.
سنہ 1995/96ع میں غیر مقامی لوگوں کی پولٹری فارمز کی تیس سالہ لیز زمین کو 5 روپیہ فی گز کے حساب سے 99 سالہ لیز الاٹمینٹ دی گئی۔
باشعور حلقوں کا خیال ہے کہ ضلع ملیر کے منتخب نمائندوں نے ہمیشہ مقامی کاشتکاروں کو صرف سبز باغ دکھائے ، لیکن عملی طور پر زیادہ کام نہیں کیا۔ 1995/96 میں غیر مقامی سرمایہ کاروں کو پولٹری کے لیے 99 سالہ لیز صرف پانچ روپیہ فی گز کے حساب سے دی گئی۔ لیکن حکومت نے ملیر ضلع کے مقامی کسانوں، کاشتکاروں اور زمینداروں کے لئے کچھ نہیں کیا اور انہیں اس 99 سالہ لیز پالیسی سے محروم رکھا گیا۔
پورے سندھ میں سرکاری زمینوں کا حق ملکیت کسانوں کو دیا گیا، لیکن صرف ملیر ہی ایسا خطہ ہے جہاں اس عمل کو حرام قرار دے دیا گیا. بات اگر یہیں تک محدود ہوتی تب بھی شاید قابل برداشت ہوتی لیکن مکمل اور طویل منصوبہ بندی کے ساتھ یہاں کے لوگوں کو اس حد تک محروم اور خوفزدہ کیا گیا کہ ان کے اپنے پیروں تلے سے سروے لینڈ بھی کھسکا دی گئی. یہ ایک طویل اور مکمل منصوبہ بندی تھی لہٰذا اسے محض لوگوں کی لالچ کی لاجک سے جسٹیفائی کرنا حماقت ہے!
جبکہ اسی دوران اور اس کے بعد ضلع ٹھٹہ کے کسانوں کو آسان اقساط میں 20 پر 99 سالہ لیز دی گئی، لیکن ضلع ملیر کے پسماندہ لوگ ان کی نظروں سے پوشیدہ رہے۔ اسی طرز عمل کے بعد ، آج بھی ہمارے منتخب نمائندے مقامی کاشتکاروں کے لیے اسمبلی میں بل لانے کی ہمت نہیں رکھتے.
ضلع ملیر کے مقامی لوگوں کو زمینوں کے حقوق دینا تو درکنار اب ان سے حکومتی سطح پر وہ زمینیں بھی چھینے جانے کے منصوبے بنائے جا رہے ہیں، جنہیں وہ دہائیوں سے کاشت کرتے آ رہے ہیں، لیکن پھر بھی یہاں کے نمائندے اپنے لب سیے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں.
پورے ملیر میں بلڈرز اور ریاستی اداروں کا قبضہ مافیا غیر قانونی طور پر اور قانون کو غلط طریقے سے استعمال کر کے ہزاروں ایکڑ زرعی زمین پر اپنے پنجے گاڑ رہا ہے اور مزید سرکاری اراضی پر اپنی نظریں گاڑے اسے ہڑپنے کے لیے سازشیں کر رہا ہے، ہزاروں افراد ہر روز ضلع ملیر میں غیر قانونی طور پر آباد ہو رہے ہیں، اس سارے عمل کو واضح طور پر سندھ کے سیاسی رہنماؤں کی پشت پناہی حاصل ہے، اور معمولی سیاسی عہدوں اور مفادات کے لیے ملیر کے منتخب نمائندے اس گھناؤنے کاروبار میں ان کا مکمل ساتھ دے رہے ہیں
ملیر کے باشعور حلقوں کا یہ کہنا بلکل بجا ہے کہ ملیر ضلع کے عوام نے انہیں اپنے تحفظ کے لئے ووٹ دیا ہے، صرف سیلفیاں لینے ، بھیک کے چند ٹکوں اور جنازے پڑھنے کے لیے نہیں
ملیر ضلع کے منتخب نمائندے عوام کی آواز کو غور سے سنیں، جو اب ان سے پوچھیں گے کہ انہوں نے ان کے حقوق اور ان کی زمینوں کے تحفظ کے لئے اب تک اسمبلی میں کون سا بل منظور کروایا ہے؟
ملیر ضلع کے منتخب نمائندوں کو اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ اب محض جذباتی نعروں اور ایک محلے میں نلکے کا افتتاح کر کے زندہ باد کے نعروں سے بات نہیں بنے گی، اب انہیں اپنی ٹھوس کارکردگی دکھانی پڑے گی. اگر ان کے پلے میں اسمبلی میں ملیر ضلع کے حقوق اور تحفظ کے لئے منظور کردہ بلوں اور اس حوالے سے کوئی کارکردگی ہے تو وہ عوام کو دکھائیں، تاکہ لوگ جان سکیں کہ یہ محض جذباتی نعرے اور زبانی جمع خرچ نہیں ہے۔ لیکن اگر آپ ضلع ملیر کے مقامی لوگوں کے حقوق کا تحفظ نہیں کرتے، تو یاد رکھیں کہ آپ کی حیثیت بھی اس درخت کی طرح ہے، جس کی جڑیں ہوا میں ہیں.
اگر آپ ملیر کے لوگوں، کسانوں، کاشتکاروں اور زرعی زمینوں کی حفاظت نہیں کر سکتے اور اس بارے میں ان اسمبلیوں سے کوئی بل بھی پاس نہیں کروا سکتے، جہاں آپ ملیر کے انہی پسماندہ لوگوں کے ووٹوں سے منتخب ہو کر پہنچے ہیں اور اگر آپ بلڈروں اور ریاستی اداروں کی قبضہ گیری کو نہیں روک سکتے، تو براہ کرم اسمبلی میں یہ بل ہی پاس کروا دیجیے کہ آئندہ نصاب کی کتابوں میں اس ملک کو زرعی ملک کے بجائے بلڈروں کا ملک لکھا جائے… کم از کم ہم خوش فہمیوں کے بوجھ سے تو آزاد ہو سکیں!