عمان کا قدیم قصبہ بہلا، جہاں جن بھی رہتے ہیں

ویب ڈیسک

الحنائی اپنے سیمنٹ کے معمولی گھر کے پیچھے اس جگہ کی طرف اشارہ کرتے ہیں جہاں کچھ عرصہ پہلے آگ لگی تھی

آج بھی، گویا آگ کسی بھی لمحے دوبارہ بھڑک سکتی ہے، الحنائی اپنے صحن سے کچھ ہی فاصلے پر سبز شعلوں کی شکل کا پتہ لگانے کے لیے کنارے پر رک جاتے ہیں، جو ریت کے اوپر کئی منٹ تک منڈلاتے رہتے ہیں، نہ بڑھتے ہیں اور نہ ہی پیچھے ہٹتے ہیں۔ یاد آتے ہی ان کی انگلیاں ہلتی ہیں اور ان کے عجیب ترچھے زاویوں کا خاکہ بناتی ہیں

صحرا کے اس حصے میں چلچلاتی دھوپ کے نیچے بے ساختہ آگ لگنے کی تقریباً توقع کی جا سکتی ہے- سوائے اس کے کہ عمان کے موسم سرما کی کڑی سردی کے دوران بادل کے بغیر رات کو ریت اور چٹان کے درمیان الحنائی کے صحن میں آگ بھڑک اٹھی۔۔ اور پھر اس خوفناک قہقہے کا معاملہ ہے، جو انہوں نے شعلوں کے اندر گونجتی ہوئی سنی تھی۔۔ اور چیتھڑوں میں ملبوس وہ پیلی عورت، جو آگ سے کچھ پہلے بیری کے درخت کے اوپر کھڑی تھی، جو جیسے ہی ظاہر ہوئی تھی، غائب ہو گئی۔۔

یہ کہانی ہے ایک ایسے قصبے کی، جہاں رہنے والوں کا کہنا ہے کہ یہاں جن بھی ان کے ساتھ رہتے ہیں۔ وہ کچھ لوگوں کو نظر بھی آتے ہیں۔ وہ ان کے لیے کام بھی کرتے ہیں

کہتے ہیں کہ اس قصبے میں میں عجیب و غریب واقعات پیش آتے ہیں۔ سردیوں کے موسم میں صحرا میں آگ بے ساختہ پھوٹ پڑتی ہے۔ دیواریں گر جاتی ہیں اور دوبارہ تعمیر نہیں ہو پاتیں۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ جنوں، مافوق الفطرت مخلوق کا کام ہے، جسے مشرق وسطیٰ کے افسانوں میں جانا جاتا ہے، یہ قصبہ ان کے لیے مشہور ہے

اس قصبے کا نام بہلا ہے۔ یہ عمان کی ایک قدیم آبادی ہے جو دارلحکومت مسقط سے تقریباً دو سو کلومیٹر پر جنوب مغرب میں واقع ہے۔ یہ علاقہ الداخلیہ صوبے میں شامل ہے

عمان کے بنجر قلب میں واقع، بہلہ کا قدیم نخلستانی قصبہ دلفریب داستانوں سے بھرا ہوا ہے۔ اونٹوں کو ہڑپ کرتے آگ کے منہ والے ہائینا کی کہانیاں اور گدھوں میں تبدیل ہونے والے آدمیوں کے افسانے زبان زد عام ہیں، یہاں جنات اور اسرار کی شہرت آج تک برقرار ہے۔

بہلا ایک خاموش قصبہ ہے۔ زیادہ تر مکانات کچی اینٹوں کے ہیں۔ یہاں کجھور کے درخت اور جھنڈ ہیں۔ یہ ایک صحرائی علاقہ ہے اور خطہِ عرب کا سب سے اونچا پہلاڑی سلسلہ کوہِ حجر بھی پاس سے گزرتا ہے

جب آپ بہلا میں داخل ہوتے ہیں تو عمارتوں کی قدامت، ماحول پر چھائی ہوئی خاموشی اور پراسراریت ایک ہیبت سی طاری کر دیتی ہے

بہلا کا شمار عمان کی قدیم ترین انسانی آبادیوں میں ہوتا ہے۔ یہ علاقہ یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثہ میں شامل ہے اور یہاں موجود قلعہ قرونِ وسطیٰ میں تعمیر ہوا تھا

حماد الربانی ایک ٹور گائیڈ ہیں، جو سیاحوں کو قرونِ وسطٰی کے قلعے اور اس علاقے کے بارے میں معلومات فراہم کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جنات کا یہاں ہونا کوئی ان ہونی بات نہیں ہے۔ وہ بھی خدا کی پیدا کردہ مخلوق ہے

ربانی کو جنات کی کئی کہانیاں اور قصبے یاد ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ جنات نے اس قصبے کو حملہ آوروں سے بچانے کے لیے ایک ہی رات میں تیرہ کلومیٹر لمبی دیوار بنا ڈالی تھی

پچپن سالہ ربانی نے بتایا کہ جنات کے بارے میں قصبے میں ایک اور مشہور قصہ یہ ہے کہ یہاں آب پاشی کا قدیم ترین نظام بھی جنوں نے ہی بنایا تھا، جس سے یہاں کاشت کاری ہوتی تھی

ربانی کا کہنا تھا کہ جنات اور ان سے منسوب کہانیوں سے جتنا مضبوط اور گہرا تعلق
بہلا کے لوگوں کا ہے، وہ شاید ہی کسی اور جگہ ہوگا۔ انہیں یقین ہے کہ جنات جو چاہیں جب چاہیں، کوئی بھی شکل اختیار کر سکتے ہیں۔ وہ چاہے تو گھوڑا بن جائیں یا کوئی اور جانور یا نظروں سے غائب ہو جائیں۔

انہوں نے بتایا کہ قصبے کی ایک عورت آدھی رات کو اپنی گائے کا دودھ دوہنے اور پینے کی آوازیں سنا کرتی تھی۔ وہ کئی بار اٹھ اٹھ کر دیکھنے جاتی تھی، لیکن کبھی کوئی نظر نہیں آیا، کیونکہ یہ وہ طاقتیں ہیں، جنہیں آپ کی آنکھ دیکھ نہیں سکتی

بہلا کے پرانے بازار میں ظہر کی نماز کے بعد خاموشی چھا جاتی ہے۔ اس سناٹے میں کوئی شخص جنوں کا قصہ چھیڑ دیتا ہے اور لوگ ہمہ تن گوش ہو جاتے ہیں۔ جنوں کی باتوں اور کہانیوں کے بغیر انہیں اپنی زندگی ادھوری سی لگتی ہے

محمد الہاشمی ستر کے پیٹے میں ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کی زندگی کا زیادہ تر حصہ جنوں اور بھوتوں کی کہانیاں سنتے، سناتے اور انہیں تصور کی آنکھ سے دیکھتے ہوئے گزرا ہے

انہوں نے بتایا کہ میں اپنے بچپن میں یہ سنا کرتا تھا کہ رات کے وقت جنات لگڑبھگوں کے روپ میں اونٹوں کا پیچھا کرتے ہیں اور ان کے منہ سے آگ کے شعلے نکلتے ہیں

انہوں نے کہا کہ بزرگ انہیں نصیحت کرتے تھے کہ وہ سورج غروب ہونے کے بعد گھر سے باہر نہ نکلا کریں کیونکہ کوئی آسیب یا جادو گھیر لے گا۔

اور شاید انہی مافوق الفطرت کہانیوں کی وجہ سے ہی بہلا میں اتنی خاموشی ہے، پراسراریت ہے اور خوف چھایا رہتا ہے

مورخین کا کہنا ہے کہ بہلہ میں جنوں کی کہانی بارہویں صدی سے جڑی ہو سکتی ہے، جب یہ ایک فوجی اور مذہبی مرکز تھا اور اس کے حکمران مقامی لوگوں کو قلعے کی دیواروں سے باہر صحرا میں جانے کی حوصلہ شکنی کرنا چاہتے تھے۔ اس مقصد کے لیے مکینوں کو اغوا کرنے والی بری روحوں کی افواہیں پھیلائی گئیں

لاس اینجلس کی لایولا میری ماؤنٹ یونیورسٹی میں اسلامی تاریخ کے پروفیسر علی اولومی کہتے ہیں کہ عمان اور ہمسایہ ملک یمن، جزیرہ نما کے جنوبی ترین ممالک، دونوں نہ صرف قدیم مقامات کے طور پر عظیم تاریخی اہمیت کے حامل ہیں بلکہ جنوں کی سرزمین کے طور پر بھی شہرت رکھتے ہیں

وہ کہتے ہیں کہ بہلا سے منسوب کہانیاں شاید اس لیے بھی زیادہ ہیں کہ وہ صحرا میں گھری ایک قدیم انسانی آبادی ہے، جہاں کوہ حجر کا سلسلہ ماحول کو مزید پر اسرار بنا دیتا ہے

اولومی نے کہا، ”بہلہ جیسی جگہوں پر جنوں کی موجودگی ہمیں جزیرہ نما عرب کی تاریخ اور ثقافت کے بارے میں بہت کچھ بتا سکتی ہے۔ یہ دور دراز بستیوں میں رہنے والے لوگوں کی تاریخ ہے، جو دوسری انسانی بستیوں سے غیر یقینی طور پر جڑے ہوئے ہیں اور جو اپنے چاروں طرف فطرت کی موجودگی کو شدت سے محسوس کرتے ہیں“

تاہم نئی نسل ان کہانیوں کو شک کی نظر سے دیکھتی ہے۔ بشمول باہلہ میں چوبیس سالہ ریاضی کے استاد مازن الخطیری، جن کا کہنا ہے کہ یہ ہمارے دادا دادی کی کہانیاں ہیں، مجھے نہیں معلوم ان میں کیا صحیح ہے اور کیا غلط

لیکن مسقط میں رہنے والے تیس سالہ حسن نے کہا کہ بہلہ کے بارے میں شکوک و شبہات عام ہیں۔ ”میرا خاندان مجھے کبھی جانے نہیں دے گا، افواہوں کے مطابق یہ جنوں کا شہر ہے، جہاں وہ آزادی کے ساتھ رہتے ہیں۔“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close