معمر افراد کے دماغ کو برقی جھٹکے دینے سے یادداشت بہتر ہونے کا انکشاف

ویب ڈیسک

برطانوی اور امریکی ماہرین کی جانب سے معمر افراد پر کی جانے والی ایک محدود تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ بزرگ افراد کے دماغ کو ایک مخصوص آلے سے برقی جھٹکے دینے سے ان کا حافظہ بہتر ہوتا ہے اور اس عمل سے ان کی یادداشت کو طویل مدت تک بھی بہتر بنائے جانے کے روشن امکانات پیدا ہوئے ہیں

برطانوی اخبار ’دی گارجین‘ کے مطابق بوسٹن یونیورسٹی کے ماہرین نے تحقیق کے لیے پینسٹھ سے اٹھاسی سال کی عمر کے ڈیڑھ سو افراد کو بھرتی کیا گیا، جنہیں لگاتار چار دن تک دماغ کے خاص حصے پر مخصوص برقی آلے سے جھٹکے دیے گئے، ساتھ ہی تمام شرکا کو بیس الفاظ کی پانچ فہرستیں یاد کرنے کو کہا گیا

ماہرین نے تحقیق کے دوران لگاتار چار دن تک تمام شرکا پر نظر رکھی اور ساتھ ہی ایک ماہ بعد بھی شرکا کی کارکردگی کو جانچا، جس سے معلوم ہوا کہ تمام افراد کو برقی جھٹکے دینا ان کے حافظے کو بہتر بنا رہا ہے

ماہرین نے تمام رضاکاروں کو مختلف رفتار اور ان کے دماغ کے مختلف حصے پر برقی جھٹکے دیے اور انہیں طویل اور قلیل مدتی حافظے کے طور پر پرکھا

ماہرین کے مطابق زیادہ تر افراد کو مخصوص برقی آلے سے چار دن تک بیس منٹ کے دورانیے پر جھٹکے دیے جانے کے بعد ان کی یادداشت ایک ماہ کے لیے بہتر ہوئی اور انہیں دیے گئے تمام الفاظ یاد رہے

ماہرین نے بتایا کہ ایسے عمل سے بڑی عمر کے افراد کی طویل اور قلیل مدت کی یاداشت کو بہتر بنایا جا سکتا ہے، تاہم یہ واضح نہیں کہ یہ طریقہ ڈیمنشیا (بھول جانے کا مرض) کے مریضوں کے لیے کار آمد ہوگا یا نہیں؟

تحقیق میں شامل پروفیسر رابرٹ رین ہارٹ نے برطانوی اخبار کو بتایا کہ بڑھتی عمر کے ساتھ ساتھ یادداشت کا کم ہونا فطری بات ہے، ضعیف افراد میں چیزوں کو بھول جانے کے مسائل عام ہوتے ہیں، جس سے وہ فیصلے کرنے، سیکھنے اور منصوبہ بندی کرنے میں بھی پریشانی کا شکار رہتے ہیں

انہوں نے مزید بتایا کہ معمر افراد کے دماغ کی خصوصی جگہ پر مخصوص فریکوئنسی کے برقی جھٹکے سے شارٹ اور لانگ ٹرم میموری کو بچایا جاسکتا ہے

کی یونیورسٹی آف برن کی دماغی سائنس دان کیتھرینا کِلِنک، جو اس تحقیق میں شامل نہیں تھیں، کا کہنا ہے ”یہ واقعی ایک خوبصورت انداز میں ڈیزائن کیا گیا مطالعہ ہے۔ یہ ایسے چھوٹے کرنٹ ہیں، جو استعمال کیے جا رہے ہیں، اس لیے دماغ میں کوئی محرک نہ ہونے کے ایک ماہ بعد یادداشت کے فنکشن پر اثرات دیکھنے کے لیے، یہ کافی متاثر کن ہے۔“

تاہم اس تحقیق پر کئی لوگ اعتراض بھی کر رہے ہیں اور اس کے نتائج کو بھی حوصلہ کن قرار دینے پر نالاں دکھائی دیتے ہیں

کیا صرف ایک نظام ہے، جسے دماغ یادیں بنانے اور محفوظ کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے، یا کیا دو الگ الگ نظام ہیں – ایک مختصر مدتی یا کام کرنے والی یادداشت، اور دوسری طویل مدتی یادداشت کے لیے؟ اس بنیادی سوال نے دماغی سائنس کے شعبے کو ایک صدی سے زیادہ عرصے سے پریشان کر رکھا ہے۔ نفسیاتی مطالعات کے رویے کے اعداد و شمار کے ساتھ ساتھ اَسی اور نوے کی دہائی میں کیے گئے غیر انسانی پریمیٹ کے تجربات نے طویل عرصے سے مؤخر الذکر خیال کی حمایت کی ہے۔ لیکن حالیہ کام نے یادداشت کے دو نظام کے ماڈلز پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے جبکہ بوسٹن یونیورسٹی کی ٹیم کے تازہ ترین تجربات دو نظام کے ماڈل پر زیادہ زور دیتے ہیں

گروور نے نامہ نگاروں کو بتایا ”ہمارے نتائج بتاتے ہیں کہ ہم آزادانہ طور پر ورکنگ میموری اور لانگ ٹرم میموری کے فنکشن کو جوڑ سکتے ہیں۔ لہٰذا ایسا لگتا ہے کہ وہ اس دوہری اسٹور کے رجحان کی حمایت کرتے ہیں۔“

رین ہارٹ کی ٹیم اگلی بار شیزوفرینیا، الزائمر کی بیماری، اور جنونی مجبوری کی خرابی کے شکار لوگوں پر اپنا طریقہ لاگو کرنے کا ارادہ رکھتی ہے تاکہ یہ دیکھنے کے لیے کہ آیا وہ اس کو لاگو کرنے کے لیے فریکوئنسی اور صحیح وقت اور مقام تلاش کر سکتے ہیں، تاکہ ان حالات سے وابستہ علمی خسارے پر قابو پانے میں مدد مل سکے

رین ہارٹ نے کہا کہ اس کے پاس فی الحال اپنے کام کو تجارتی بنانے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close