ٹوئٹر اور فیس بک پر پچھلے چند دنوں سے کچھ تصاویر اور ویڈیوز وائرل ہوئی ہیں جن میں بلڈوزر اور کرینوں کے ساتھ دیگر بھاری مشنری نظر آرہی ہے جبکہ گاؤں کے کچھ لوگ چیخ و پکار کر رہے ہیں۔
ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک بڑی مشین کے سامنے ایک عورت کھڑی ہوکر اسے روکنے کی کوشش کر رہی ہے۔ ویڈیو میں فائرنگ کی آواز بھی سنائی دیتی ہے۔
ایک تصویر میں کرسی پر بیٹھے ایک بزرگ اور سفید کپڑوں میں ملبوس ایک نوجوان نظر آئے، نوجوان کے کپڑوں پر خون کے نشانات ہیں۔
کرسی پر بیٹھے بزرگ مُراد گبول ہیں، جو کراچی کو ملک کے دیگر حصوں سے ملانے والی مصروف شاہراہ سپر ہائی وے پر واقع نجی ہاؤسنگ سوسائٹی بحریہ ٹاؤن کے نزدیک ایک گاؤں نور محمد گوٹھ کے باسی ہیں۔
سندھی زبان میں گاؤں کو گوٹھ کہا جاتا ہے۔ مراد کے مطابق یہ گاؤں ان کے چچا نورمحمد کے نام پر ہے اور اس کی کُل اراضی 24 ایکڑ ہے۔
مراد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا ’یہ ویڈیوز اور تصاویر چند روز پہلے کی ہیں، جب بحریہ ٹاؤن کی انتظامیہ بڑی بڑی گاڑیوں میں پولیس اور دیگر فورسز کے ساتھ بلڈوزر اور بھاری مشنری لے کر آئی۔ ‘
مراد نے الزام عائد کیا کہ وہ لوگ ان کے قدیم گوٹھوں کو مسمار کرکے اس زمین کو بحریہ ٹاؤں میں شامل کرنا چاہتے ہیں۔
’مگر ہم نے پولیس کے تشدد کی پرواہ کیے بغیر مزاحمت کی، جس دوران مجھے اور میرے بھائی فضل رحمٰن کو زخمی کرنے کے بعد گڈاپ تھانے میں بند کر دیا گیا۔‘
مراد نے دعویٰ کیا کہ وہ ان پر زور دیتے رہے کہ گاؤں خالی کرکے بحریہ ٹاؤن کو دے دیں ورنہ وہ انہیں نہیں چھوڑیں گے۔
بحریہ ٹاؤن کراچی کے ضلع ملیر کے گڈاپ ٹاؤن میں کاٹھوڑ کے مقام پر واقع ہے۔ جہاں متعدد قدیم بستیاں آباد ہیں۔
مُراد نے الزام عائد کیا کہ آٹھ سال پہلے جب بحریہ ٹاؤں کراچی کا منصوبہ شروع ہوا تو بحریہ ٹاؤن نے کئی گوٹھوں کو زبردستی اپنے منصوبے میں شامل کرلیا۔
’یہاں کے رہائشیوں کی زمین پر ریوینیو ڈپارٹمنٹ کے سروے ہیں اور ان زمینوں کے مالک یہاں کے مقامی لوگ ہیں مگر بحریہ ٹاؤن یہاں کے لوگوں سے زبردستی زمین ہتھیا رہا ہے۔
’پہلے کھیتوں پر قبضہ کیا اور اب گاؤں کو مسمار اور رہائشیوں کو بھگا کر اس زمین پر قبضہ کرنا چاہ رہے ہیں۔ اب تک پانچ گوٹھوں پر قبضہ ہوچکا ہے۔‘
مُراد کچھ عرصہ قبل فوت ہوجانے والے اس علاقے میں مزاحمت کے لیے مشہور کردار فیض محمد گبول عرف چچا فیضو گبول کے بیٹے ہیں۔
مراد نے دعویٰ کیا کہ ان کے 92 سالہ والد فیضو گبول کو بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض نے کئی وڈیروں، سرداروں، لینڈ مافیا کے ہاتھوں زمین بحریہ ٹاؤں کو بیچنے کے لیے دھمکی دلوائی مگر انہوں نے اپنی زمین نہیں بیچی۔
’ہمیں حیرت ہے کہ سندھ پولیس بھی بحریہ ٹاؤن انتظامیہ کے ساتھ مل ان گوٹھوں کو مسمار کرنے میں مدد کر رہی ہے۔ موجودہ ایس ایس ملیر عرفان بہادر بھی بحریہ ٹاؤن کا ساتھ دے رہے ہیں۔ ہم کسی بھی صورت میں اپنی آبائی زمین نہیں چھوڑیں گے۔ چاہے کچھ بھی ہو جائے۔‘
انڈپینڈنٹ اردو نے مراد کے الزامات کے حوالے سے ایس ایس پی ملیر عرفان بہادر سے موقف جاننے کے لیے رابطہ کیا تو انہوں نے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ انہیں بیان دینے کی اجازت نہیں۔
مراد نے مزید کہا کہ انہوں نے سندھ ہائی کورٹ کو درخواست دی ہے جس پر عدالت نے گاؤں نور محمد گبول پر قبضہ روکنے کا حکم دیتے ہوئے ریمارکس میں کہا کہ پولیس اور بحریہ ٹاؤن کا عملہ گاؤں نور محمد گبول پر چڑھائی نہ کرے۔
انہوں نے بتایا کہ عدالت نے ایس ایس پی ملیر اور ایس ایچ او گڈاپ کو نوٹس بھی جاری کیا ہے۔
بلوچ جدید شہر بننے سے کئی صدیاں پہلے سے کراچی کے علاقوں لیاری، ساحلی پٹی، کھیرتھر کے پہاڑی سلسلے اور موجودہ نیشنل ہائی وے سے متصل علاقوں میں آباد ہیں۔
یوں تو کراچی کے ان قدیم گوٹھوں میں کئی بلوچ قبائل آباد ہیں، مگر ان میں گبول، جوکھیو، کلمتی اور چند دیگر قبائل کی اکثریت ہے۔
کہا جاتا ہے کہ یہ قبائل برطانیہ دور حکومت سے بھی پہلے یہاں آباد ہیں، مگر بڑی تعداد برطانوی دور میں خان آف قلات کی ریاست مکران کے شہروں جیوانی، گوادر، پسنی، اورمارہ اور لسبیلہ سے روزگار کے لیے کراچی آ کر ان گوٹھوں میں بس گئی۔
بحریہ ٹاؤن کراچی سے متصل ایک اور قدیم گاؤں سراج احمد گوٹھ کے رہائشی اور سیاسی کارکن حفیظ بلوچ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ یونین کونسل کاٹھور کی آبادی 20 ہزار ہے اور یہاں متعدد گاؤں ہیں۔
انہوں نے بھی الزام عائد کیا کہ بحریہ ٹاؤن کئی سالوں سے زمینوں پر قبضہ کررہا ہے مگر ’اس بار تو گاؤں کو مسمار کرکے ہمیں یہاں سے مکمل طور پر بے دخل کرنا چاہتا ہے۔‘
انہوں نے دعویٰ کیا کہ وہ اس بار مسلسل چار دن تک ہتھیاروں کے ساتھ کارروائی کرتے رہے۔
’ایسا لگ رہا تھا کہ یہ کراچی نہیں فلسطین ہے۔ اب یوم مئی اور اتوار کی چھٹی کے باعث بحریہ ٹاؤن نے اس علاقے میں کارروائی معطل کی ہے مگر وہ پیر کو دوبارہ ہمارے گوٹھ مسمار کرنے آئیں گے۔ مقامی لوگوں میں خوف طاری ہے کہ وہ کہاں جائیں گے۔‘
حفیظ بلوچ کے مطابق بحریہ ٹاؤن سے متاثرہ افراد اور سول سوسائٹی نے’انڈیجینیئس رائٹس الائنس‘ نامے ایک تنظیم بنائی ہے تاکہ بحریہ ٹاؤن کے خلاف مزاحمت کی جائے۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ قدیم گوٹھوں کے باسیوں کے آنے اور جانے کے راستے بھی بحریہ ٹاؤن نے بند کر دیے ہیں۔
’اتنے بڑے منصوبے کے نکاسی آب کو قدرتی برساتی نالوں میں ڈالا جا رہا ہے۔ جس سے اس علاقے میں آنے والے وقتوں میں بڑی تباہی آسکتی ہے۔‘
گاؤں کے مقامی لوگوں کے الزامات پر انڈپینڈنٹ اردو نے بحریہ ٹاؤن کا موقف جاننے کے لیے دو دن تک بحریہ ٹاؤن کی آفیشل ویب سائٹ پر درج ٹیلی فون نمبر پر رابطہ کیا مگر کسی نے کال اٹینڈ نہیں کی۔
تیسرے دن آفیشل واٹس اپ نمبر اور ویب سائٹ پر موجود ای میل پر بھی رابطہ کیا گیا مگر اس سٹوری کے پوسٹ ہونے تک بحریہ ٹاؤن کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
بحریہ ٹاؤن انتظامیہ کی جانب سے ردعمل ملنے کی صورت میں اسے خبر کا حصہ بنا دیا جائے گا۔
بشکریہ انڈپنڈنٹ اردو، عرب میڈیا