انکل آپ الیکشن میں بیٹھیں گے یا پھر لیٹیں گے؟

وسعت اللہ خان

اس سے زیادہ جوش و خروش تو 14 اگست سے دو ہفتے پہلے نظر آنا شروع ہو جاتا ہے، رمضان سے 20 دن پہلے دکھائی دینے لگتا ہے۔ اس سے زیادہ ولولہ تو انڈیا پاکستان کرکٹ میچ سے ایک ماہ پہلے سے ٹپائی دے رہا ہوتا ہے۔ اس سے زیادہ ہلچل تو عیدالاضحٰی کی بکرا پیڑی میں ہفتوں پہلے شروع ہو جاتی ہے۔ اس سے زیادہ سرگرمی تو کسی بھی گاؤں میں ہونے والی شادی سے 18 دن قبل محسوس ہونے لگتی ہے۔

بظاہر جوش و خروش میں کمی اپنی جگہ، مگر ایسا ہرگز ہرگز نہیں کہ ووٹروں کے رویّے سے کوئی ہونقی یا گھبراہٹ چھلک رہی ہو بلکہ چہروں پر وہ اطمینان پھیلا ہوا ہے جو عموماً شادی، ختنہ، عقیقے وغیرہ کی تقریب پروفیشنل ایونٹ مینیجرز یا کمپنیوں کے حوالے کرنے کے بعد نظر آتا ہے۔

دعوتی کارڈ لکھنے، چھپنے، بٹنے کے دردِ سر سے لے کر مینیو کے انتخاب، وینیو کی سجاوٹ، مووی بنانے کے جھنجھٹ اور مہمانوں کی آمد و رفت و پارکنگ اور سکیورٹی سمیت ایک ایک شے کا انتظام جب پروفیشنل ایونٹ مینیجرز کے ہاتھ میں ہو تو پھر کاہے کی پریشانی۔۔

اس ملک میں تو ایسے انتخابات بھی ہوتے ہیں کہ بہت سے حلقوں میں خواتین سے ووٹ ڈالنا پسند نہیں کروایا جاتا۔ اس ملک میں تو ایک صوبہ ایسا بھی ہے، جہاں اگر قومی یا صوبائی اسمبلی کے امیدوار کو 50 ہزار رجسٹرڈ ووٹوں میں سے 537 بھی پڑ جائیں تو منتخب قرار پاتا ہے۔ حتیٰ کہ اس ملک کے سب سے بڑے شہر پر ڈھائی عشرے ایسے بھی بیتے ہیں، جب اکثر شہریوں کو گھر بیٹھے ووٹ دینے کی سہولت دستیاب رہی۔

میں خود ایسا ووٹر ہوں، جس نے 2002، 2008 اور 2013 کے انتخابات میں گھر بیٹھے اپنا بنیادی حق استعمال کیا۔ یہ سہولت میں نے یا میرے اہلِ خانہ نے خود حاصل نہیں کی تھی، بلکہ ان لمڈوں نے فراہم کی تھی، جو ڈی ڈے سے ایک شام پہلے آ کر بتا دیتے تھے کہ انکل آپ لوگ کہاں پولنگ اسٹیشن، بوتھ وغیرہ تلاش کریں گے اتنے رش میں، ہم ہیں نا۔۔ اور پھر پولنگ کے بعد ہمیں مطلع بھی کیا جاتا تھا کہ انکل آپ لوگوں کا ووٹ ہو گیا، تھینک یُو۔

یہ سہولت کراچی کے بہت سے شہریوں کو 2013 کے بعد ہونے والے انتخابات کے لیے فراہم نہیں کی گئی۔ چنانچہ 2018 میں خود جا کے ووٹ بھگتانے کی زحمت کرنا پڑی، مگر اگلے دن ٹی وی کی خصوصی ٹرانسمیشن دیکھ کے احساس ہوا کہ اگر ہم بھی رزلٹ ٹرانسمیشن سسٹم (آر ٹی ایس) کی طرح بیٹھ جاتے تو کم ازکم پولنگ اسٹیشن آنے جانے کی زحمت سے اس بار بھی بچ جاتے اور کوئی اچھی سی فلم دیکھ لیتے۔

پر اس بار پہلی بار لگ رہا ہے کہ پروفیشنل ایونٹ مینیجرز کے ہوتے کسی کو آلتو فالتو پریشانی نہیں ہونی چاہیے۔ تمام دعوتی رقعوں کی پشت پر جائے وقوعہ تک پہنچنے کے لیے ممکنہ روٹس کا نقشہ موجود ہے۔ مدعو سیاسی جماعتوں کو بھیجے گئے کارڈز پر میز اور سیٹ نمبر درج ہے۔ گیٹ کریشرز کو دور رکھنے کے لیے انتظامات پہلے سے زیادہ فول پروف نظر آتے ہیں۔ یوں تمام ایونٹ نہایت شفاف انداز میں بخیر و خوبی انجام پا جائے گا۔ انشاءاللہ۔

کسی زمانے میں رواج تھا کہ ایسے ایونٹس سے کچھ دن پہلے کوئی نہ کوئی چچا، پھوپھی یا ماموں اس بات پر روٹھ جاتے کہ فلاں کو کیوں بلایا اور فلاں کو کیوں نہیں بلایا، دعوتی رقعہ خود دینے کیوں نہ آئے کسی غیر کے ہاتھوں کیوں بھجوایا۔ یہ سب بائیکاٹی منتظر رہتے تھے کہ تقریباتی گھر سے کوئی نہ کوئی انہیں منانے ضرور آئے گا اور ہماری بوسیدہ انا کی لاج رکھ لے گا۔

اب تو بس اتنی فکر ہوتی ہے کہ ہمیں مدعو کیا جائے گا یا نہیں۔ کیونکہ نئے ایونٹ مینیجرز ایسے ناز نخرے اٹھانے کے عادی نہیں۔ بلکہ جتنے کم مہمان ہوں، اتنا ہی مینیج کرنے میں آسانی ہوتی ہے۔

ہر انتخاب سے پہلے یہ جَتانے کے لیے کہ الیکشن کتنا پُرخطر اور نازک کام ہے اور ان کا انعقاد کتنا بڑا قومی احسان ہے، باقاعدہ ایک بوجھل فضا تخلیق کرنے کے تشہیری فن کا بھی مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ مثلاً فلاں فلاں لیڈر کو فلاں فلاں دن فلاں فلاں جگہ پر جلسہ کرنے، جلوس نکالنے یا کارنر میٹنگ سے خطاب میں احتیاط برتنی چاہیے، کچھ بھی ہو سکتا ہے۔۔ کوئی بھی بھوت چمٹ سکتا ہے، تصادم کا خطرہ ہے، ہو سکتا ہے بم بھی پھٹ جائے، ہم یا ادارہ ذمہ دار نہ ہوں گے۔

مگر پھر بھی جیسے کیسے انتخابی عمل مکمل ہو ہی جاتا ہے کیونکہ اصل انتخاب دراصل پولنگ کے خاتمے کے بعد شروع ہوتا ہے۔ آٹھ فروری کو جب عوامی ضیافت گذر جائے گی، اس کے بعد خواص کا کھانا کھلے گا۔

پری پول رگنگ کیا ہوتی ہے، یہ تو مجھے نہیں معلوم۔ البتہ 2015 سے پہلے بطور کراچی کے رہائشی یہ ضرور سننے کو ملتا تھا کہ کل نصف شب کے بعد کچھ تلنگ صورت بائیکرز ہمارے علاقے کے ایک مخالف امیدوار بھائی نعمان (فرضی نام) کے ہاں آئے تھے۔۔ اور بس اتنا کہہ گئے کہ انکل ہم آپ کی بہت عزت کرتے ہیں، اسی لیے پوچھ رہے ہیں کہ کل نام واپس لینے کا آخری دن ہے، آپ نے کیا سوچا ہے؟ بیٹھیے گا یا پھر لیٹیے گا؟

اب ایسا کچھ بھی کم ازکم کراچی میں سننے میں نہیں آتا۔ چترال سے مکران تک سننے میں آتا ہے۔ اب تلنگ صورت بائیکرز یہ کام نہیں کرتے، پروفیشنلز کرتے ہیں۔ اور جب ’بھیا آل از ویل‘ کا اشارہ مل جاتا ہے تو پھر آل از ویل ہو جاتا ہے۔

بشکریہ بی بی سی اردو۔
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close