بحریہ ٹاؤن: کراچی میں نجی ہاؤسنگ سوسائٹی کی انتظامیہ کے خلاف ہنگامہ آرائی اور تشدد کے الزامات پر مقدمہ درج

ریاض سہیل

پاکستان کے صوبہ سندھ میں کراچی پولیس نے نجی ہاؤسنگ سوسائٹی بحریہ ٹاؤن کے سکیورٹی انچارج سمیت دیگر اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج کر لیا ہے۔

یہ پہلی مرتبہ ہے کہ بحریہ ٹاون کراچی کے خلاف کرمنل مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ گڈاپ تھانے میں دائر مقدمے میں ان پر ایک شخص کو یرغمال بنانے، ہنگامہ آرائی اور تشدد کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔

دوسری طرف حکومت سندھ کے احکامات پر تحصیل دار عبدالحق چاوڑ، پٹواری انور حسین، پٹواری حبیب اللہ ہوت اور ایس ایچ او گڈاپ شعور احمد بنگش کو معطل کر دیا گیا ہے، جس کے نوٹیفیکیشن جاری ہو چکے ہیں۔

بحریہ ٹاؤن کے سکیورٹی انچارج پر مقدمے سے متعلق بحریہ ٹاون کی انتطامیہ کا موقف جاننے کے لیے فون پر رابطے کی کوشش کی گئی، سوشل میڈیا کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر بحریہ ٹاؤن اور اس کے مالک ملک ریاض سے بھی سوال کیا گیا لیکن ان کا کوئی موقف سامنے نہیں آیا ہے۔

گذشتہ چند روز سے پاکستانی سوشل میڈیا پر متعدد ایسی ویڈیوز اور تصاویر گردش کر رہی ہیں جن میں مبینہ طور پر بحریہ ٹاؤن کے اہلکار بڑی گاڑیوں اور بلڈوزر کے ہمراہ ایک علاقے میں موجود ہیں اور ان کی موجودگی کے خلاف کئی لوگ سراپا احتجاج ہیں۔

سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر یہ دعوے کیے جا رہے ہیں کہ ہاؤسنگ سکیم کے اہلکار اپنی سوسائٹی کے پھیلاؤ اور راستہ بنانے کے لیے وہ زمین حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جہاں چند پرانے گوٹھ آباد ہیں۔

¶بحریہ ٹاؤن کے خلاف مقدمہ کیا ہے؟

بحریہ ٹاؤن کے خلاف مقدمے میں مدعی جان شیر خان نے موقف اختیار کیا ہے کہ سات مئی کی دوپہر کو انھوں نے دیکھا کہ بحریہ ٹاؤن کے سکیورٹی اہلکار محمد عامر، زاہد، عابد اور دیگر افراد غازی گوٹھ کی زمین پر ’قبضہ کر رہے ہیں۔‘

انھوں نے جب ان سے سوال کیا تو ’سکیورٹی انچارج و دیگر اہلکاروں نے مار پیٹ شروع کر دی اور انھیں تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے مختلف جگہوں پر گھماتے رہے۔‘

مدعی کے مطابق انھیں بحریہ ٹاؤن کے اہلکار سہراب گوٹھ تھانے لے گئے جہاں پر ان کے گاؤں کے لوگ موجود تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ بحریہ ٹاؤن والوں نے انھیں پولیس کے حوالے کیا لیکن گاؤں والوں کی مداخلت پر انھیں عباسی شہید ہسپتال پہنچایا گیا۔‘

یاد رہے کہ جمعے سے پاکستانی سوشل میڈیا پر ’سے نو ٹو بحریہ ٹاؤن‘ ہیش ٹیگ ٹرینڈ کر رہا ہے۔

اس دوران سوشل میڈیا پر بعض ویڈیوز شیئر کی گئیں تھیں جن میں دیکھا جا سکتا ہے ہیوی مشینری بحریہ ٹاؤن کی سکیورٹی اہلکاروں کے ہمراہ گاؤں کی طرف بڑھ رہی ہے اور گاؤں والے مزاحمت کر رہے ہیں۔

اسی دوران فائرنگ کی بھی آواز سنائی دیتی ہے۔ ایک ویڈیو میں دور سے نظر آ رہا ہے کہ ایک شخص پر تشدد کیا گیا ہے اور وہ زمین پر گرا ہوا ہے۔

ان ویڈیوز پر سماجی رابطے کی ویب ٹوئٹر پر پیپلز پارٹی کی حکومت اور اس کے چیئرمین بلاول بھٹو پر تنقید کی گئی اور کئی لوگوں نے انھیں اپنے پیغامات میں ٹیگ بھی کیا۔

¶’کیا سندھ میں ملک ریاض کو پہلے کوئی نہیں پہچانتا تھا؟‘

ادھر صوبائی وزیر سید ناصر حسین شاہ کا بھی ایک بیان سامنے آیا ہے جس میں انھوں نے کہا کہ سندھ کی حکمراں جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے ہدایت کی ہے کہ بحریہ ٹاؤن اور مقامی لوگوں کے درمیان تنازع پر وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ ’سخت ایکشن لیں۔‘

ان کے مطابق مراد علی شاہ نے مقامی لوگوں کی شکایت پر فوری طور پر اسٹنٹ کمشنر، مختیار کار اور ایس ایچ او گڈاپ کو ہٹانے کی ہدایت کردی اور ان کے خلاف انکوائری کے لیے بھی کہہ دیا۔ اس کے ساتھ وزیر اعلیٰ نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ ’مقامی لوگوں کا مکمل طور پر تحفظ کیا جائے گا۔ کسی کو بھی کسی قسم کی زیادتی کرنے نہیں دیں گے، قانونی طور پر جس کا جو بھی حق ہے اس کو مکمل تحفظ دیا جائے گا۔‘

بحریہ ٹاؤن کے معاملے پر سندھ میں اپوزیشن جماعتیں بھی متحرک نظر آرہی ہیں اور ایسے میں بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض اور پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت کے درمیان ‘قریبی تعلقات’ کا دعویٰ کیا جا رہا ہے۔

بحریہ ٹاؤن کے معاملے پر سندھ میں اپوزیشن جماعتیں بھی متحرک نظر آ رہی ہیں اور ایسے میں بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض اور پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت کے درمیان ’قریبی تعلقات‘ کا دعویٰ کیا جا رہا ہے۔

سندھ یونائیٹیڈ پارٹی، قومی عوامی پارٹی، جمیعت علمائے اسلام اور دیگر نے اس معاملے پر حکومت سندھ پر شدید تنقید کی ہے اور بعض شہروں میں تو احتجاجی مظاہرہ بھی کیے گئے۔

گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) کے رہنما اور سابق صوبائی وزیر داخلہ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا نے سنیچر کو میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اس صورتحال کے ذمہ دار آصف علی زرداری ہیں جنھوں نے یہ زمینیں فروخت کیں۔ اس سے پہلے کیا سندھ میں ملک ریاض کو کوئی نہیں پہچانتا تھا؟‘

’ملک ریاض کو ایوان صدر میں بیٹھ کر لایا گیا۔ عبدااللہ شاہ غازی کے مزار کے برابر میں پلاٹ دیا گیا، اس کے بعد زرداری نے اپنی زمینوں پر ملک ریاض کو ہاؤسنگ سکیمیں دیں اور پیسہ بنانا شروع کیا۔‘

تاہم پیپلز پارٹی ماضی میں ایسے الزامات کو مسترد کرتی آئی ہے۔

دوسری جانب سندھ اسمبلی میں جی ڈی اے کے اراکین شہریار مہر، عارف مصطفی جتوئی، ڈاکٹر رفیق بھانبھن، معظم عباسی اور حسنین مرزا نے وفاقی وزیر اسد عمر کو ایک خط بھیجا ہے جس میں درخواست کی گئی ہے کہ بحریہ ٹاؤن نے مقامی لوگوں کے حقوق کی خلاف ورزی کی ہے، اس معاملے کو وفاقی سطح پر اٹھایا جائے اور قومی احتساب بیورو (نیب) سے تحقیقات کرائی جائے۔

¶پولیس اہلکاروں پر بحریہ انتظامیہ کا ساتھ دینے کا دعویٰ

گذشتہ ہفتے کے دوران بھی بحریہ ٹاؤن کے سیکیورٹی اہلکاروں اور مقامی لوگوں میں ٹکراؤ ہوا تھا۔

چند روز قبل پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے کہا تھا کہ انھوں نے بحریہ ٹاؤن میں ہونے والی کارروائیوں کا نوٹس لیا ہے اور وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کو ہدایت کی ہے کہ یہ کارروائیاں رکوائی جائیں اور انھیں رپورٹ دی جائے

مقامی افراد کے دعوے کے مطابق بحریہ ٹاؤن حکام کی جانب سے ہادی بخش گبول گاؤں پر بھی دھاوا بولا گیا جس میں ‘ریٹائرڈ کیپٹن’ نامی ایک نامعلوم شخص نے اس گاؤں کے رہائشیوں کو متنبہ کیا کہ وہ (یعنی بحریہ ٹاؤن) ’ہر صورت یہ زمین لے کر رہیں گے کیونکہ انھیں راستہ بنانا ہے‘، بصورت دیگر انھیں متبادل زمین فراہم کی جائے، جس کے بعد انھیں ایک متبادل راستہ فراہم کیا گیا۔

سندھ میں انڈیجینس رائٹس الائنس کے رہنما حفیظ بلوچ کا کہنا تھا کہ ان افراد نے تیسرے روز بھی گبول، کلمتی اور جوکھیا کمیونٹی کی زمینوں پر قابض کرنے کی کوشش کی اور لوگ مزاحمت کرتے رہے۔ ’مزاحمت کرنے پر ان پر ہوائی فائرنگ اور شیلنگ کی گئی۔‘

انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’اس پورے عمل میں پولیس نے بھی ان کا ہی ساتھ دیا‘ اور اسی دوران نور محمد گبول کے بیٹے مراد گبول کو بھی حراست میں لے لیا گیا جنھوں نے تین سال قبل بحریہ ٹاؤن کے خلاف اپنی چار ایکڑ زمین کی ملکیت کے حوالے سے چلنے والے مقدمے میں بحریہ ٹاؤن کے خلاف کامیابی حاصل کی تھی۔

اس واقعے کے بعد متاثرہ دیہات کے ایک رہائشی مراد گبول نے سندھ ہائی کورٹ میں ایک درخواست دائر کی ہے کہ 27 سے لے کر 29 اپریل تک بحریہ ٹاؤن کے حکام، جن کے ہمراہ پولیس افسران بھی تھے، ہیوی مشنری کے ساتھ گاؤں میں داخل ہوئے۔ درخواست کے مطابق یہ لوگ ایک سڑک اور بحریہ ٹاؤن کے لیے نکاسی آب کی لائن تعمیر کرنے کے خواہشمند ہیں جو گاؤں سے گزرے گی۔

ایڈووکیٹ کاظم حسین مہیسر کی وساطت سے دائر کی گئی اس درخواست میں کہا گیا ہے کہ نور محمد گبول گوٹھ 1920 اور 1922 سے آباد ہے، جو اس وقت 100 گھروں پر مشتمل ہے۔

انھوں نے کہا کہ گاؤں میں ایک مسجد، ایک قبرستان، ایک عیدگاہ اور تین پرائمری سکول ہیں۔ گاؤں کی آبادی سات سو افراد پر مشتمل ہے جنھیں ان کے مطابق حکومت سندھ نے مالکانہ حقوق کی سند بھی جاری کر رکھی ہے۔

درخواست میں ہوم سیکریٹری، ڈپٹی کمشنر اور ایس ایس پی ملیر، ایس ایچ او گڈاپ اور بحریہ ٹاؤن کو فریق بنایا گیا ہے اور استدعا کی گئی ہے کہ گاؤں کو مسمار کرنے، جبری سڑک بنانے اور ڈرینج لائن گزارنے کو غیر قانونی عمل قرار دے کر روکا جائے اور گاؤں کے راستے کھولے جائیں جو ’بحریہ فاؤنڈیشن نے بلاک کر رکھے ہیں۔‘

ایڈووکیٹ کاظم حسین کا کہنا ہے کہ سندھ ہائی کورٹ کے ڈویژن بینچ نے تمام فریقین کو نوٹس جاری کر دیے ہیں۔

¶بحریہ ٹاؤن کراچی کے خلاف عدالتوں میں ماضی کے مقدمات

سنہ 2019 میں سپریم کورٹ نے بحریہ ٹاؤن کراچی کی طرف سے زمین کی خریداری میں مبینہ بدعنوانی کا معاملہ سامنے آنے پر اس کی انتظامیہ کو 460 ارب روپے قسط وار سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں جمع کروانے کا حکم دیا تھا۔

تاہم بعد میں بحریہ ٹاؤن نے عدالت سے درخواست کی کہ کورونا وائرس کی وبا کے باعث انھیں ادائیگی میں مہلت دی جائے لیکن عدالت نے ان کی درخواست مسترد کردی اور کہا کہ حکومت کا ماننا ہے کہ معشیت میں بہتری آ رہی ہے اور بحریہ ہاؤسنگ میں پلاٹوں اور مکانات کی پہلے سے بکنگ ہوچکی ہے۔

اسی طرح سندھ ہائی کورٹ میں بحریہ ٹاؤن کے خلاف ایک مدعی فیض محد گبول کے حق میں فیصلہ دیا گیا تھا۔ سماجی کارکن گل حسن کلمتی کا کہنا ہے کہ اس فیصلے کے بعد بحریہ ٹاؤن نے مبینہ طور پر اس جگہ تعمیرات شروع کر دیں جس کے بعد انھوں نے توہین عدالت کی درخواست دائر کی اور ’انصاف کے لیے چکر لگاتے لگاتے وہ انتقال کر گئے۔‘

گل حسن کلمتی کہتے ہیں: ‘عدالتی فیصلے پر عمل درآمد تو پولیس کرواتی ہے جو بحریہ ٹاؤن انتظامیہ کے ساتھ ہے۔ اس وقت 50 کے قریب درخواستیں دائر ہیں جن میں سے 35 پر عدالت کی طرف سے سٹے آرڈر ہے لیکن بحریہ کا کام نہیں رکا ہے اور ان درخواستوں کی سماعت بھی نہیں ہو رہی ہے۔’

ان کا کہنا ہے کہ گذشتہ کئی سال سے وہ احتجاج کرتے چلے آ رہے ہیں تاہم ابھی تک وہ حکمران و اپوزیشن جماعتوں کی حمایت حاصل نہیں کر سکے ہیں اور نہ ہی ان کے احتجاج اور مبینہ طور پر بحریہ ٹاؤن حکام کی جانب سے کی گئی کارروائیوں کو الیکٹرانک میڈیا میں جگہ ملتی ہے۔

بشکریہ بی بی سی اردو ڈاٹ کام

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close