بحریہ ٹاؤن، ریاست کے اندر ایک ریاست

امر گل

بحریہ ٹاؤن کی طرف سے کراچی کے مضافات میں کاٹھوڑ اور گڈاپ کے علاقوں میں صدیوں سے آباد دیہاتیوں کے خلاف ان کی زمینوں پر قبضہ کرنے کے لیے وحشیانہ طاقت کا استعمال وقتاً فوقتاً جاری ہے۔

بحریہ ٹاؤن کے عہدیداروں نے ان رہائشیوں پر فائرنگ کی جس سے دو افراد زخمی ہوگئے جو غیر قانونی قبضے  کی مزاحمت کر رہے تھے۔ صوبائی حکومت اور پولیس کاروائی کرنے سے قاصر رہی

پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے گذشتہ ہفتے بحریہ ٹاؤن کے ذریعہ کی جانے والی بے دخلیوں کو روکنے کا حکم دیتے ہوئے اس معاملے پر رپورٹ طلب کی تھی۔ یہ بیان اس طرح کی کارروائی پر سوشل میڈیا کے غم و غصے کے تناظر میں سامنے آیا، جس میں بحریہ ٹاؤن انتظامیہ نے بلڈوزر لائے اور زبردستی زمین پر قبضہ کرنے کی کوشش کی۔ پولیس نے دیکھتے ہی مزاحمت کرنے والے دیہاتیوں کو مارا پیٹا

حلقے کے نمائندے بھی مقامی لوگوں کے تیور اور سوشل میڈیا پر اس اشو کے ٹاپ ٹرینڈ بننے پر ہی حرکت میں آئے.

پیپلز پارٹی کے چیئرمین کے مقامی لوگوں کے خلاف بحریہ ٹاؤن کی کارروائی کا نوٹس لینے کے باوجود ، ایک بار پھر جمعہ کو بحریہ انتظامیہ کی طرف سے دیہاتیوں کو مار پیٹ اور ہراساں کیا گیا۔ لوگوں نے اپنی آبائی موروثی زمین پر قبضے سے روکنے کے لیے شدید مزاحمت کی، جس پر بحریہ ٹاؤن کے لوگوں نے مزاحمت کرنے والوں پر سیدھے فائر کھول دیے، زخمی ہونے والوں کو بحریہ ٹاؤن کے بدمعاش موبائلوں میں ڈال کر ہسپتال کے بجائے تھانے لے گئے. اس واقعے کی ویڈیوز جب سوشل میڈیا پر چلیں تو ملیر کے ساتھ ساتھ پورے سندھ میں تشویش کی ایک شدید لہر پھیل گئی. جس کے بعد حلقے کے نمائندوں اور حکومت کے لیے چند نمائشی اقدامات لینے ناگزیر ہوگئے

زرداری کے ساتھ ملک ریاض کی پارٹنرشپ اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں. حد تو یہ ہے کہ ان ساری کاروائیوں میں پولیس بھی بحریہ ٹاؤن کے ساتھ شامل رہی. کیا آپ اس بارے میں تصور بھی کر سکتے ہیں، جو کچھ یہاں ہو رہا ہے؟ فیض محمد گبول بحریہ کے خلاف اپنی زمینوں کا کیس جیت چکے تھے، لیکن ان کے حق میں عدالتی فیصلے پر عمل درآمد کی پابند پولیس آج ان کے بیٹے مراد گبول کے بجائے بحریہ کے متکبر قابضین کی دم چھلا بنی ہوئی ہے، جو اب بھی ناجائز عمارات کی تعمیر جاری رکھے  ہوئے ہے. پولیس اور انتظامیہ مراد گبول کی بچی کھچی زمینوں پر قبضہ کرنے کے لیے بحریہ ٹاؤن کے ساتھ کھڑی ہے

تو یہاں اگر آپ ایک منٹ ٹھہر کر سوچیں، تو کیا آپ اس بات پر یقین کریں گے کہ یہ سب کچھ پولیس خود سے کر رہی ہے؟
یہ ناقابل یقین ہے..!
اس تناظر میں جہان خان کا محاورہ ساری صورتحال کو واضح کرتے ہوئے اس بات کو عیاں کرتا ہے کہ کچھ اہلکاروں کی معطلی اور چند سیکیورٹی گارڈز کے خلاف ایف آئی آر منتوں ترلوں سے فیس سیونگ کے لیے حاصل کیا گیا محض ایک نمائشی اقدام ہی ہے

گزشتہ حکومتوں کی طرح اس حکومت میں بھی ریاست کے اندر قائم ریاست کے والی ملک ریاض کو شہزاد اکبر جیسے لوگ میسر ہیں. آپ نے کبھی غور کیا کہ دسمبر 2019ع میں ، ملک ریاض کی جائیدادوں کی تحقیقات نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے) نے یوکے میں کی۔ تحقیقات کے بعد ، این سی اے نے ملک ریاض کے اہل خانہ کے ساتھ 190 ملین پاؤنڈ سٹرلنگ (38 ارب روپے) جرمانہ طے کرلیا تھا۔ این سی اے نے ملک ریاض سے بازیاب ہونے والی رقم حکومت پاکستان کو دے دی، جس نے حیرت انگیز طور پر اسے سپریم کورٹ آف پاکستان کے کھاتوں میں منتقل کردیا۔ بعد میں یہ بات سامنے آئی کہ بحریہ ٹاؤن کی غیر قانونی سرگرمیوں سے متعلق ایک معاملے میں ملک ریاض پر عائد جرمانے کے ایک حصے کے طور پر یہ رقم عدالت عظمیٰ کو ادا کی گئی تھی۔

ڈان کی ایک حالیہ رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ ملک ریاض کے برطانیہ کے حکام کے ساتھ معاملات طے کرنے میں وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر نے سہولت فراہم کی تھی، جس نے معاملے کو طے کرنے کے لئے این سی اے کو راضی کرنے کے لئے سخت تکلیفیں اٹھائیں۔ ملک ریاض اور برطانیہ کے تفتیشی حکام کے مابین معاہدہ کرنے والی حکومت ریاست اور متنازعہ کاروباری طریقہ کار کے مابین ناجائز ملی بھگت کی سطح کو بے نقاب کرتی ہے.

وزیر اعظم عمران خان کے ’احتساب‘ بیانیے کا کوئی وزن نہیں بچا، جو خود بے بسی سے ہاتھ جھٹک کر کہہ رہا ہے یہ ملک مافیاؤں کے چنگل میں ہے.  وزیر اعظم کو جواب دینا ہوگا، کہ اگر پی ٹی آئی کی حکومت کرپٹ افراد کو جوابدہ ٹھہرانے میں سنجیدہ ہے، تو ملک ریاض مستثنٰی  کیوں ہے؟

سندھ حکومت کی قیادت ایک ایسی جماعت کر رہی ہے، جو انسانی حقوق کی چیمپئن کہلاتی ہے. روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ لگانے والوں نے صدیوں سے آباد لوگوں کے پیروں تلے سے زمین بھی چھین لی ہے اور ملیر کو مقبوضہ ملیر بنا دیا ہے. غریب دیہاتیوں کے حقوق کی پامالی اس کی نگرانی میں جاری ہے۔

اس ملک میں طاقت کے جو اصل دھنی ہیں، وہ رٹائرڈ ہونے کے انتظار کی زحمت اٹھائے بغیر ہی ملک ریاض کی دلالی کرتے ہوئے اس کے پروجیکٹس میں ملازمت کر رہے ہیں. اس ملک کے اصل مالک بھی ملک ریاض کے ملازمین میں شامل ہونے کو اپنا اصل تمغہ سمجھتے ہیں.

سچ تو یہ ہے کہ بحریہ ٹاؤن ریاست کے اندر ایک ایسی ریاست کا روپ دھار چکی ہے، جو خود ریاست سے بھی زیادہ طاقتور ہو چکی ہے!

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close