°عدالتی فیصلے کہاں گئے؟
بحریہ ٹائون کا کراچی میں سپر ہائی وے پر میگا رہائشی منصوبہ شروع ہوتے ہی بحریہ ٹائون کے خلاف مختلف عدالتوں میں مختلف اوقات میں سائلین پہنچے اور مقدمات چلے۔ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں مقدمات کئی برسوں تک چلتے رہے۔
اس دوران بحریہ ٹائون کے بارے میں قومی احتساب بیورو (نیب) کی تحقیقات بھی جاری رہیں. نیب کو تفتیش کے دوران مقامی افراد نے کئی ثبوت بھی فراہم کیئے۔ نیب کی جانب سے سپریم کورٹ میں پیش کردہ ایک رپورٹ کے مطابق ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی (ایم ڈی اے) نے بحریہ ٹائون کے لئے سات ہزار ایکڑ اراضی مختص کی ہے لیکن بحریہ ٹائون کا منصوبہ اس سے کئی گنا بڑا ہے. سپریم کورٹ کو یہ بتایا گیا کہ ایم ڈی اے نے جس قانون کے تحت بحریہ ٹائون کو زمین فراہم کی ہے، وہ سندھ ریونیو ایکٹ 1912 کی خلاف ورزی ہے۔ بحریہ ٹائون کے متعلق نیب نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ سندھ حکومت کے مختلف افسران اور مختلف محکموں نے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا اور اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے بحریہ ٹائون کو فائدہ پہنچایا۔
سپریم کورٹ نے جب نیب سے یہ سوال کیا کہ نیب نے بحریہ ٹائون اور سرکاری افسران کے خلاف ریفرنس کیوں دائر نہیں کیا؟ تو نیب نے کہا کہ بحریہ ٹائون پہلے ہی لوگوں کو ہزاروں پلاٹ اور گھر فراہم کر چکا ہے. جب عدالت نے بحریہ ٹائون پر اضافی زمین کی قیمت ادا کرنے کی بات کی تو بحریہ ٹائون کے وکیل نے کہا کہ بحریہ ٹائون کے چھہ لاکھ ممبران ہیں تئیس ہزار ملازمین ہیں بحریہ ٹائون پہلے ہی سخت مالی بحران کا شکار ہے، اس لئے بحریہ ٹائون رقم نہیں دے سکتا۔
یہاں صرف اس بات کو ذہن میں رکھا جائے کہ بحریہ ٹائون نے اپنے چھہ لاکھ ممبران ظاہر کیئے ہیں۔ بحریہ ٹائون کے متعلق سپریم کورٹ کا جو آخری فیصلہ آیا جس میں بحریہ ٹائون کو 164 ارب روپے ادا کرنے کا حکم دیا گیا یہ رقم اضافی زمین ہتھیانے کی وجہ سے بحریہ ٹائون ادا کرے گا کیونکہ بحریہ ٹائون نے تسلیم کیا تھا کہ اس نے مختص زمین سے زیادہ اراضی استعمال کی ہے۔
اس کیس میں بحریہ ٹائون کے وکیل نے سپریم کورٹ کو آگاہ کیا کہ اب بحریہ ٹائون کا منصوبہ 16896 ایکڑ پر مشتمل ہے. اسی بنیاد پر سپریم کورٹ نے 164 ارب روپے ادا کرنے کا حکم دیا۔ اس فیصلے میں ایک جانب سپریم کورٹ نے بحریہ ٹائون کو 16897 ایکڑ اراضی تک محدود کیا دوسری اہم بات رقم کی ادائیگی کا فیصلہ ہوا اضافی زمین کی قیمت کی مد میں، مگر بحریہ ٹائون کو کوئی سزا نہیں ملی۔ دوسری اہم بات یہ بھی ہے کہ جن دیہاتیوں کی زمین پر بحریہ ٹائون نے قبضہ کیا ان کو کچھ بھی نہیں ملا۔
عدالتی فیصلے سے جو رقم وصول ہوئی وہ وفاقی حکومت کے پاس جمع ہوئی، اس رقم پر سندھ حکومت اور وفاقی حکومت کے مابین جاری سرد جنگ تو ایک الگ بحث ہے، کیونکہ زمین سندھ کی ہے رقم وفاق کے پاس پڑی ہے. اصولی طور پر یہ رقم اگر ملیر کے مذکورہ دیہات پر خرچ کی جائے جس علاقے میں بحریہ ٹائون کی تعمیرات جاری ہے تو شاید اس پورے علاقے کی قسمت بدل جائے گی اور لوگ بحریہ ٹائون کی وجہ سے آنے والی تباہی کو بھول جاتے مگر ایسا نہیں ہوا۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کو بنیاد بنا کر بحریہ ٹائون نے تو اپنی ترقی کے سفر کو جاری رکھا، لیکن اسی فیصلے کو بنیاد بنا کر بحریہ ٹائون قدیمی گوٹھوں کو مسمار کرنے اور قبضے کرنے کے سلسلے کو بھی ہنوز جاری رکھے ہوئے ہے
یہ ہی وجہ ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کو بہانہ بنا کر سندھ حکومت، ملیر کی ضلعی انتظامیہ اور پولیس عوام کا تحفظ کرنے کے بجائے بحریہ ٹائون کے محافظ بنے ہوئے ہیں۔ پولیس نے بحریہ ٹائون کا ساتھ کیوں دیا؟ یہ کہانی بدنامِ زمانہ ایس ایس پی رائو انوار نے شروع کی تھی۔ رائو انوار کو سندھ حکومت یا صرف وڈے رئیس کی ہی حمایت حاصل نہیں تھی بلکہ تمام طاقت ور قوتوں کی بھی مکمل آشیر باد حاصل تھی. اس وجہ سے ملیر میں ریتی بجری سے لینڈ مافیا تک، بحریہ ٹائون سے طالبان تک ہر کاروبار میں رائو انوار کو طاقت ور حلقوں کی آشیر باد حاصل رہی۔
بحریہ ٹائون کے خلاف عدالت کا رخ کرنے والا پہلا شخص بھی ماما فیضو گبول تھا، جس نے مزاحمت کی پہلی اینٹ رکھی تھی۔ چھوٹی عدالتوں، ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں بحریہ ٹائون کراچی کے خلاف بیس سے زائد مقدمات بنے، لیکن ان تمام مقدمات کو بحریہ ٹائون نے ایک نفسیاتی کھیل کے طور پر استعمال کیا اور سپریم کورٹ کے فیصلے کی غلط تشریح کرتے ہوئے ہمیشہ یہ کہا گیا اب بحریہ ٹائون کو سپریم کورٹ نے 164 ارب روپے کے عوض ہر قسم کی اجازت دے رکھی ہے۔ یہ تشریح بلکل غلط ہے اور توہین عدالت ہے۔ کورٹ نے یہ کبھی بھی نہیں کہا کہ ملک ریاض جو کچھ کرتا پھرے اس کو اجازت ہے، بلکہ کورٹ نے تو بحریہ ٹائون کو سولہ ہزار آٹھ سو چھیانوے ایکڑ تک محدود کیا ہے۔ کوئی اگر جاکر سپریم کورٹ کو بتا دے کہ بحریہ ٹائون عدالتی فیصلوں کو بھی دیہات کی طرح بلڈوز کر رہا ہے اور کوئی قانونی ماہر اگر ایک بار پھر سپریم کورٹ کو نشاندہی کروا لے اب تو بحریہ ٹائون سولہ ہزار سے ایک لاکھ ایکڑ تک پہنچ گیا ہے، میں کوئی قانونی ماہر تو نہیں، لیکن میرا خیال ہے کہ شہاب اوستو جیسا کوئی ماہر غریبوں کا کیس لڑنے کے لئے اگر سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹائے گا تو شاید نقشہ تبدیل ہو سکتا ہے۔ (جاری ہے)
بحریہ ٹائون کے متعلق یہ مضمون روزنامہ عوامی آواز میں قسط وار شایع ہوا، جس کا اردو ترجمہ قارئین کے لئے یہاں مصنف کی اجازت اور مصنف اور عوامی آواز کے شکریے کے ساتھ شایع کیا جا رہا ہے.