کراچی: سندھ کی سرکاری یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز یونیورسٹیوں کو درپیش بدترین مالی بحران اور اربوں روپے کی بجٹ کٹوتی کے معاملے پر پہلی بار ہم آواز ہوکر میدان میں آگئے ہیں
سندھ کی سرکاری یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز نے مشترکہ طور پر وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین اور وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کو علیحدہ علیحدہ خطوط ارسال کیے ہیں، جن میں گزشتہ دو مالی سال کے بجٹ میں کٹوتی اور بڑھتے ہوئے اخراجات کا تذکرہ کرتے ہوئے ان یونیورسٹیوں کو قائم رکھنے اور انھیں مزید چلانے کے لیے بجٹ میں کئی ارب روپے کے فوری اضافے کا مطالبہ کیا گیا ہے
وفاقی وزیر خزانہ کو بھیجے گئے خط میں وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود کو بھی مخاطب کیا گیا ہے، جبکہ خط کی کاپی ایچ ای سی اسلام آباد، وفاقی سیکریٹری فنانس اور وفاقی سیکریٹری ایچ ای سی کو بھی بھجوائی گئی ہے
اسی طرح وزیر اعلیٰ سندھ کو لکھے گئے خط کی کاپی چیئرمین سندھ ہائر ایجوکیشن کمیشن ڈاکٹر عاصم حسین، ایڈیشنل چیف سیکریٹری یونیورسٹیز اینڈ بورڈز اور صوبائی سیکریٹری فنانس کو بھی ارسال کی گئی ہے
اس سلسلے میں سندھ کی سرکاری یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز کا ایک آن لائن اجلاس بھی ہوا، جو سندھ زرعی یونیورسٹی ٹنڈوجام کے وائس چانسلر ڈاکٹر فتح مری کی جانب سے بلایا گیا تھا، جبکہ سندھ کے وائس چانسلرز کی جانب سے مذکورہ خطوط کا مسودہ بھی ڈاکٹر فتح مری کی جانب سے تیار کیا گیا ہے
ان خطوط میں وفاقی وزیر خزانہ، وفاقی وزیر تعلیم اور وزیر اعلیٰ سندھ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ پاکستان بھر کی سرکاری یونیورسٹیاں بالعموم اور سندھ کی یونیورسٹیاں بالخصوص بدترین مالی بحران کی جانب بڑھ رہی ہیں، جس سے معیاری تعلیم اور تحقیق متاثر جبکہ اکیڈیمیا ، طلبہ اور ریسرچرز میں بے چینی پھیل رہی ہے
وفاقی حکومت نے رواں مالی سال میں ہائر ایجوکیشن کا 64 بلین روپے کا بجٹ مختص کیا تھا جو گزشتہ مالی سال سے ایک بلین کم تھا، جبکہ گزشتہ مالی سال 2019/20 میں ایچ ای سی اور فنانس ڈویژن کی جانب سے مشترکہ طور پر یونیورسٹیوں کی ضروریات کا تخمینہ ایک سو تین ارب روپے لگایا گیا تھا
اس بدترین صورتحال کے سبب سندھ کی بعض یونیورسٹیوں کو ملازمین کی تنخواہیں اور پینشن تک ادا کرنے کے بھی لالے پڑے ہوئے ہیں، طلبہ و محققین کو سہولیات فراہم کرنا تو کہیں دور کی بات ہے
خطوط میں کہا گیا ہے کہ اب اس بات کی اطلاع ملی ہے کہ وفاقی حکومت نئے بجٹ میں پینشن اور تنخواہوں میں 15 سے 20 فیصد تک اضافے کا ارادہ رکھتی ہے، جبکہ دوسری جانب وفاقی حکومت اور ایچ ای سی کی جانب سے ہائر ایجوکیشن کے بجٹ میں عدم اضافے کی بھی اطلاعات آرہی ہیں جس کے سبب جو یونیورسٹیاں اس وقت 30 فیصد تک مالی خسارے میں ہیں اب وہ 50 فیصد تک مالی خسارے کا سامنا کریں گی
خط میں سندھ کی یونیورسٹیوں کی مالی پوزیشن کو واضح کرتے ہوئے مزید کہا گیا ہے کہ اعلیٰ تعلیمی کمیشن آف پاکستان کی جانب سے سندھ کی 17 سرکاری جامعات کی اسسمنٹ کی گئی ہے، جس کے بعد معلوم ہوا ہے کہ صرف ان 17 یونیورسٹیوں کے سالانہ اخراجات 31 ارب روپے سے زائد ہیں تاہم انھیں ایچ ای سی کی جانب سے صرف 7.83 ارب روپے دیے گئے ہیں، 12 ارب روپے یہ جامعات اپنی آمدنی سے لاتی ہیں جبکہ پانچ ارب روپے حکومت سندھ دیتی ہے
اس طرح سندھ کی سرکاری یونیورسٹیوں کو اس وقت چھ ارب روپے کے خسارے کا سامنا ہے، مزید یہ کہ حکومت نے گذشتہ دو مالی سال میں پینشن اور تنخواہوں میں 10 فیصد اضافہ کیا ہے جس کے باعث یہ 17 یونیورسٹیاں بدترین خسارے میں جاچکی ہیں
خط میں واضح کیا گیا ہے کہ خسارے اور بجٹ ضروریات کا تذکرہ جن17 یونیورسٹیوں کے لیے کیا گیا ہے ان میں سندھ میں نئی قائم کی گئی یونیورسٹیاں شامل نہیں ہیں
ان نئی قائم کی گئی یونیورسٹیوں میں بی این بی وومن یونیورسٹی سکھر، شیخ ایاز یونیورسٹی شکارپور، شہید ﷲ بخش یونیورسٹی آف آرٹس اینڈ ڈیزائن جامشورو، صوفی یونیورسٹی بھٹ شاہ، جی سی یونیورسٹی حیدرآباد اور کچھ سب کیمپس شامل ہیں
خط میں مطالبہ گیا ہے کہ اس صورتحال کے پیش نظر سندھ کی یونیورسٹیوں کے لیے مختص 7.83 ارب روپے کے بجٹ کو بڑھا کر 15 ارب روپے کر دیا جائے
خط میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر این ایف سی ایوارڈ کے پیٹرن کو مد نظر رکھا جائے تو بھی سندھ کی یونیورسٹیوں کی گرانٹ سولہ ارب روپے بنتی ہے
علاوہ ازیں خط میں وائس چانسلرز نے وزیر اعلیٰ سندھ سے اس معاملے پر ملاقات کی درخواست بھی کی ہے.