پاکستان میں بیوروکریسی کا گرتا ہوا معیار اور بے ہودہ پالیسیاں

سلمان احمد صوفی

"ایک روز حمام میں ایک خوشبودار مٹی
میرے ہاتھ میں ایک محبوب کے ہاتھ سے آئی
میں نے اس سے کہا کہ تو مشک ہے یا عبیر ہے
کیونکہ تری دل کش خوشبو سے میں مست ہوں
اس نے کہا میں ایک ناچیز مٹی تھی
لیکن زمانے تک میں پھول کے ساتھ رہی
ساتھی کے حُسن نے مجھ میں اثر کیا
ورنہ میں تو وہی مٹی کی مٹی ہوں
— شیخ سعدی

صحبت سعید ہی سب کچھ ہے جو عامی کو خاص اور خاص کو خاص تر بناتی ہے۔

جلال الدین اکبر کا نام تاریخ کی چند بڑی اہم ہستیوں میں نہ ہوتا اگر وہ اپنے وقت کے اعلیٰ و دانا انسانوں کی صحبت میں نہ گِھرا رہتا۔

برِصغیر پر علاؤ الدین خلجی، بابر، شیر شاہ سوری، اکبر اور عالمگیر جیسے اعلیٰ منتظمین نے حکومت کی۔ شیر شاہ سوری کو تو چند سال ہی میسر آئے مگر ان میں بھی انہوں نے وہ کارنامے انجام دے ڈالے جو بعض عشروں میں بھی نہ کر پائے۔

بدقسمتی سی بدقسمتی ہے کہ اب اس خطے میں ‘لیڈرز’ کم شعبدہ باز اور خوابوں کے سوداگر زیادہ حکمران ہیں۔ چند عشرے پہلے ذوالفقار علی بھٹو نے عوام کے جذبات کی بھٹی میں ایندھن انڈیل کر اقتدار کی راہ ہموار کی تو عمران خان نے بھی اسی فارمولے پر عمل کرکے مقبولیت حاصل کی۔ مگر جب اقتدار ملا تو وعدے وفا نہ کرپائے۔

ذوالفقار علی بھٹو بھی اپنی بیوروکریسی سے نالاں تھے، اور انہوں نے سیکڑوں سرکاری افسران کو نوکری سے فارغ بھی کیا۔ ان کی معاملات پر گرفت بہت مضبوط تھی پھر بھی بیوروکریسی کی ناک میں نکیل ڈالنے کی ان کی خواہش پوری نہ ہوسکی۔ بہت سی خرابیاں بھٹو صاحب کے غلط فیصلوں کی بدولت بھی پیدا ہوئیں۔ انہی کے دور سے بابو ریاست سے زیادہ حکومتِ وقت کے مطیع و فرمانبردار ہونے لگے۔ 1970ء کی دہائی کے بعد سے سرکاری بابو اس معیار کے نہ رہے جو کبھی ہوا کرتے تھے اور ان میں کرپشن کا زہر بھی سرایت کرنے لگا۔

پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی پہ در پہ حکومتوں کے بعد بیوروکریٹس کا معیار پاتال کی گہرائیوں میں جا گِرا۔ حکمرانوں کو اس کی فکر بھی نہ تھی، بس ایک چیز کی فکر تھی اور وہ تھی ‘وفاداری’۔ اگر آپ دل و جان سے حکمرانوں کے ساتھ ہیں، جو وہ کہتے ہیں وہ کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں تو آپ کامیاب ہیں ورنہ آپ جتنے بھی ذہین ہوں آپ کی دال گلنے والی نہیں۔

پاکستان میں بیوروکریسی اک منہ زور گھوڑے کی مانند ہے جو کسی کو اپنے اوپر آسانی سے سوار نہیں ہونے دیتا مگر شہ سوار وہی ہوتا ہے جو بدکے ہوئے جانور کو بھی قابو کرسکے۔ اس حکومت نے آتے ہی بیوروکریٹس کے ساتھ ‘اٹ مٹکا’ لگا لیا تھا، ان سے سختی سے نمٹنے کی کوشش کی گئی مگر انہوں نے ڈرنا کیا خاک تھا الٹا انہوں نے نیب کے ڈر سے کام کرنا ہی چھوڑ دیا

موجودہ بیوروکریسی جو پچھلی 2 حکومتوں میں شریف خاندان کے ساتھ کام کرتی رہی ہے اور ان کے لیے نرم گوشہ بھی رکھتی تھی، ان کو مزید اپنے خلاف کرنے سے معاملات میں بہت بگاڑ آیا ہے۔

پاکستان کی پاور پالیٹکس کے کھیل میں اسٹیبلشمنٹ، بیوروکریسی اور سیاستدان ہی حکومت کرتے آئے ہیں۔ انہوں نے خوب اچھی طرح سمجھ لیا ہے کہ اس ملک کی بھولی عوام کو ‘رج’ کے بے وقوف بنانا ہے۔ ایک ہی خاندان میں سے کچھ لوگ طاقتور اداروں میں چلے جاتے ہیں تو کچھ قانون کے ‘پاسبان’ بن جاتے ہیں اور کچھ مختلف سیاسی جماعتوں کا حصہ بن جاتے ہیں کہ جب جس کی حکومت آئی، اس کا حصہ بن جایا جائے.

جلال الدین اکبر سے ہمارے کسی بھی حکمران نے نہ سیکھا تو اندازِ حکمرانی نہ سیکھا مگر ایک بات اس سے ضرور سیکھی۔ اکبر نے اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کی خاطر ‘مقامی اشرافیہ’ کے ساتھ رشتے داریاں قائم کرلیں جس کے باعث اس کی مقبولیت میں بھی اضافہ ہوا اور ملک میں انتظام و انصرام کے قیام میں بھی آسانی میسر ہوئی۔

یہ نکتہ برِصغیر کی اشرافیہ نے بخوبی سمجھ لیا، اور امرا نے اپنی کیمبرج اور آکسفورڈ پلٹ اولادوں کو پاکستانی کی افسر شاہی میں گھسایا۔ کوئی جج بنا تو کوئی جرنل اور کوئی ضلع کا بادشاہ ڈپٹی کمشنر بن گیا۔ انہوں نے آگے آپس میں رشتے داریاں بنالیں، کسی کی بیٹی بہو بنالی تو کسی کا بیٹا کسی کا داماد بن گیا۔ اب کسی ایک پر ہاتھ ڈالا جاتا ہے تو اس کی پشت پناہی کے لیے سب ایک ہوجاتے ہیں۔

دوسری طرف اس نظام کی قباحتیں ملاحظہ ہوں کہ جس بھی شخص نے بی اے کا امتحان پاس کیا ہو اور اس کی عمر 30 سال سے کم ہو تو وہ سی ایس ایس کے امتحان میں بیٹھ سکتا ہے، جس کا رٹا اور انگریزی اچھی ہو وہ اس امتحان میں نمایاں کامیابی حاصل کرلیتا ہے۔ امتحانات کے بعد 12 گروپس میں سے کسی ایک میں ہونہار نوجوانوں کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ بھرتی کا یہ طریقہ کار نہایت بوسیدہ ہوچکا ہے اب جس انسان نے ساری عمر میڈیکل یا انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کی ہو اسے کامرس، زراعت، ریلوے یا پولیس کا کیا پتا؟

معاف کیجیے گا میں اسے بے ہودگی کہنے کی جسارت کروں گا کہ اسپیشلائزیشن کے اس دور میں آپ کسی بھی آرٹس کے مضمون میں بی اے پاس کو کیسے دفترِ خارجہ کی کنجیاں تھما دیں گے؟ جسے بین الاقوامی تعلقات کے مضمون کی ابجد بھی نہیں آتی مگر وہ پورے ملک کی خارجہ پالیسیز دیکھے گا یا پھر جسے منیجمنٹ کا کچھ نہیں پتا اسے اٹھا کر ڈسٹرکٹ منیجمنٹ گروپ میں کسی شہر کا اسسٹنٹ کمشنر لگا دیا جائے گا۔ چلو بھئی ‘آن دی جاب ٹریننگ’ سے سیکھ لو۔

قصور اس نوجوان کا نہیں پالیسیاں بنانے والوں کا ہے اگر ہمارا کان یا ہماری آنکھ خراب ہوجائے تو کیا ہم ایک جنرل فزیشن کے پاس جاتے ہیں یا اسپیشلسٹ ڈاکٹر کے پاس؟ مگر ملک کے کلیدی اداروں میں ان لوگوں کو لگا دیا جاتا ہے جن کے پاس اس شعبے سے متعلق تعلیم ہوتی ہی نہیں۔

2018ء میں آخری بار جب محکمہ تعلیم میں اساتذہ کو بھرتی کیا گیا تو خاص طور پر ایم بی اے، ایم کام، انجینئرز، بی فارمیسی، ایگریکلچر کی ڈگری ہولڈرز کو ان سیٹوں کے لیے ناموزوں قرار دے کر ان پر پابندی لگا دی گئی کہ یہ پرائمری اسکولوں میں الف انار ،ب بلی پڑھانے کے اہل نہیں۔ مگر کوتاہ اندیش پالیسی سازوں نے سی ایس ایس کے امتحانات کے لیے جس نے بھی بی اے یا اس کے مساوی ڈگری حاصل کرلی ہو اسے دعوتِ عام ہے کہ وہ آئے اور تباہ حال بیوروکریسی کو مزید تباہ کرنے میں اپنا حصہ ڈالے۔

سینئر صحافی رؤف کلاسرا بھی اس موضوع پر بہت بار اظہارِ خیال کرچکے ہیں کہ ان کا واسطہ بہت سے بیوروکریٹس سے ہوتا ہے مگر چند کے سوا کسی کو کتاب پڑھنے کا کوئی شغف نہیں۔ بیوروکریسی کا معیار وہ نہیں رہا جو 1970ء کی دہائی تک تھا، کتنے بابو ہیں جو ریٹائرمنٹ کے بعد کتابیں لکھتے ہیں؟ ان کے نام انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں۔ اکثریت کی کوشش ہوتی ہے کہ یورپ کے کسی ملک میں ڈیرے ڈال لیے جائیں اور باقی عمر گولف کھیل کر گزاری جائے۔

پی ٹی آئی کی حکومت نئی نئی آئی تھی تو ڈھیروں ٹاسک فورسز قائم کی گئی تھیں ان میں سے ایک بیوروکریسی اصلاحات پر بھی تھی جس کی صدارت کی بھاری ذمہ داری ڈاکٹر عشرت حسین کے ناتواں کاندھوں پر ڈالی گئی تھی۔ میں حیران ہوں کہ ان کے پاس نہ جانے کس پہنچے ہوئے سنیاسی کی گیدڑ سنگھی ہے کہ ہر بادشاہ کے دربان بن جاتے ہیں۔

انہوں نے تاریخی تبدیلیاں لانی تھیں، حکومت کے تقریباً 3 سال ہوگئے ہیں مگر اس ٹاسک فورس نے بھی دھیلے کا کام نہیں کیا۔ اک شہباز شریف ہیں جنہوں نے ایک ‘دھیلے’ کی کرپشن نہیں کی، دوسرے ڈاکٹر عشرت حسین ہیں جنہوں نے ایک دھیلے کا کام نہیں کیا۔ کرپشن سے متعلق شہباز شریف کے مؤقف کے بارے میں تو شدید شکوک وشبہات کا اظہار کیا جاتا ہے مگر عشرت حسین پر عمومی طور پر سب متفق ہیں کہ ان کی بس ‘آنیاں جانیاں’ ہی ہیں مگر کارکردگی صفر بٹا صفر ہے۔

بیوروکریسی میں اصلاحات کوئی راکٹ سائنس نہیں۔ استاد محترم اظہار الحق صاحب جو ریٹائرڈ بیوروکریٹ اور کمال کے لکھاری ہیں وہ بھی اس مسئلے پر بہت بار لکھ چکے ہیں مگر اربابِ اختیار کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔

تمام سیاسی جماعتیں اس بارے میں خاموشی کی چادر تانے سو رہی ہیں۔ ان جماعتوں میں موجود افراد میں سے کوئی بھی نہیں چاہتا کہ اداروں میں اصلاحات ہوں اور ان کی ‘چودھراہٹ’ کو خطرہ لاحق ہوجائے۔ جب تک ملک کو چلانے میں کلیدی کردار ادا کرنے والے دقیانوسی بیوروکریسی کے نظام کو نہیں بدلا جاتا تب تک ہمارا دائروں کا سفر کبھی ختم نہیں ہوگا۔
بشکریہ ڈان نیوز

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close