کوئٹہ : بلوچستان حکومت کی جانب سے قومی شاہراہوں پر ٹریفک حادثات روکنے کے لیے مسافر کوچوں میں ٹریکر لگانے کا کام شروع کر دیا گیا ہے، صوبائی ٹرانسپورٹ اتھارٹی کے حکام مسافر کوچوں میں ٹریکر لگانے کا کام کررہے ہیں
ٹریکنگ کے ذریعے گاڑیوں کو مقررہ رفتار سے تیز چلانے سے روکنے کے علاوہ ڈرائیوروں پر بھی نظر رکھی جارہی ہے
غیرسرکاری تنظیم بلوچستان یوتھ اینڈ سول سوسائٹی کے کا کہنا ہے کہ صوبے میں اتنے لوگ بم دھماکوں میں ہلاک نہیں ہوئے، جتنے قومی شاہراہوں پر ٹریفک حادثات کا شکار ہورہے ہیں
سیکرٹری صوبائی ٹرانسپورٹ اتھارٹی ظفر کبدانی نے بتایا کہ بلوچستان میں ٹریفک حادثات کی ایک وجہ مسافر کوچوں کی طرف سے تیز رفتاری کو بھی قراردیا جاتا ہے، جس کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ فیصلہ کیا گیا کہ مسافر کوچوں پر نظر رکھنے کے علاوہ ان کی رفتار بھی کنٹرول کی جائے۔ چونکہ بلوچستان ایک پسماندہ صوبہ ہے اور ٹرانسپورٹ مالکان ٹریکر کا خرچہ برداشت کرنے سے قاصر تھے اس لیے حکومت نے انہیں مفت لگانے کا فیصلہ کیا جس پر باقاعدہ عمل درآمد شروع کردیا گیا ہے
صوبائی ٹرانسپورٹ اتھارٹی کے حکام کے مطابق اب تک 215 مسافر کوچوں میں ٹریکر لگائے جاچکے ہیں
ظفر کبدانی نے مزید بتایا کہ اس وقت صرف کوئٹہ، کراچی، پشین اور چمن سے کراچی جانے والے روٹ کی مسافر کوچوں میں ٹریکر لگائے جارہے ہیں۔ دوسرے مرحلے میں بلوچستان کے تمام روٹس پر جانے والی کوچوں میں ٹریکر لگائے جائیں گے۔ اس وقت صوبے میں ٹرانسپورٹ اتھارٹی کی جانب سے مذکورہ روٹس پر 316 پرمٹ جاری ہوئے ہیں۔ فی گاڑی ٹریکر خرچہ 80 ہزار روپے ہے اور یہ مکمل منصوبہ دو کروڑ 52 لاکھ روپے کا ہے
واضح رہے کہ ٹریکر لگانے کے بعد مسافرکوچوں کو مانیٹر کرنے کے لیے کنٹرول روم بھی قائم کیا گیا ہے، جس میں ہر گاڑی کی جگہ، رفتار اور ڈرائیور کو مانیٹر کیا جاتا ہے۔ اس دوران اگر کوئی ڈرائیور مقررہ رفتار سے تیز سفر کرتا ہے تو اس کی کمپنی کو وارننگ دی جاتی ہے، جرمانہ کیا جاتا ہے اور دوبارہ یہی غلطی دہرانے پر کمپنی کے خلاف مزید سخت کارروائی کی جاتی ہے
ٹریکر کی ٹمپرنگ کی روک تھام کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں ظفر کبدانی نے بتایا کہ ٹریکر ٹمپرنگ کرنے کا خدشہ ہمیں بھی تھا، اسے مدنظر رکھتے ہوئے ہم نے کنٹرول روم قائم کیا۔ مانیٹرنگ کے دوران ہم نے دیکھا کہ دو کمپنیوں کے ڈرائیوروں نے ٹریکروں کو ٹمپر کرنے کی کوشش کی، جس پر پہلے کارروائی کرتے ہوئے کمپنیوں کو نوٹسز دیئے گئے۔ جن پر عمل نہ کرنے پر ان کے دفاتر کو سیل کیا گیا۔ دوسرا یہ الزام بھی لگایا جاتا ہے کہ مسافر کوچوں میں کم عمر ڈرائیور لگائے جاتے ہیں، جس کے لیے ہم نے کمپنیوں کے ذمہ داران کو طلب کرکے ان کو ہدایت کی کہ وہ ایسے ڈرائیور بھرتی کریں جو کم عمر نہ ہوں اور وہ باقاعدہ تربیت یافتہ ہوں
سیکرٹری صوبائی ٹرانسپورٹ اتھارٹی کا کہنا ہے کہ پبلک ٹرانسپورٹ میں ٹریکر کی تنصیب کا کام انتہائی مشکل تھا۔ ہمیں مسافر کوچوں کے مالکان کو قائل کرنے میں بہت عرصہ لگا جن کا اعتراض تھا کہ ٹریکر اور کیمرے خواتین کی وڈیوز رکارڈ کریں گے، جس سے قبائلی معاشرے میں مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ جب ہم نے انہیں بتایا کہ یہ ٹریکر ان کے فائدے اور کیمرے ان کی حفاظت کے لیے ہیں تو انہوں نے بہت حیل و حجت کے بعد رضامندی ظاہر کی
انہوں نے بتایا کہ حال ہی میں ایک کوچ کے ساتھ حادثہ پیش آیا، جس میں مسافر کوچ نے موٹرسائیکل کو ٹکر ماردی جو سکیورٹی فورسز کے اہلکار تھے۔ انہوں نے کوچ کو تحویل میں لے لیا۔ جب ہم نے اس کوچ پر لگی وڈیو کی رکارڈنگ نکالی تو اس میں یہ واضح سامنے آیا کہ اس حادثے کا ذمہ دار مسافر کوچ کا ڈرائیور نہیں تھا بلکہ غلطی موٹر سائیکل سوار کی تھی جو ایک دم ان کے سامنے آ گیا۔ اس واقعہ کے بعد نہ صرف معاملہ واضح ہوگیا بلکہ سکیورٹی فورسز نے اپنی غلطی تسلیم کرکے مسافر کوچ کو مالکان کے حوالے کر دیا
اس کیس کے سامنے آنے کے بعد نہ صرف اس کمپنی نے بلکہ دیگر نے بھی ٹریکر کے لیے تمام گاڑیاں پیش کر دیں
بلوچستان میں ٹریفک حادثات کے اعداد وشمار جمع کرنے والی غیر سرکاری تنظیم بلوچستان یوتھ اینڈ سول سوسائٹی کے سربراہ سمجھتے ہیں کہ ٹریکر اچھا اقدام ہے تاہم اس سے ٹریفک حادثات کو مکمل طور پر روکا نہیں جاسکتا، کسی حد تک کمی ہو سکتی ہے
تنظیم کے اعداد وشمار کے مطابق بلوچستان میں صرف جنوری 2021 کے دوران 995 ٹریفک حادثات رونما ہوئے۔ جن میں 1446 افراد لقمہ اجل بنے
تنظیم کے سربراہ نجیب زہری نے بتایا کہ حادثات کی وجہ صرف مسافر کوچوں کی تیز رفتاری نہیں ہے بلکہ اس کے علاوہ قومی شاہراہوں کی خستہ حالی، ٹرالر ٹرک سمیت دیگر بڑی گاڑیاں بھی ٹریفک حادثات کا باعث بن رہی ہیں۔ اس کےعلاوہ موٹروے پولیس کے اہلکاروں کی تعداد بھی کم ہے۔ قومی شاہراہوں پر جب کبھی مرمت کے لیے سڑک کی کٹائی کی جاتی ہے تو ٹھیک کرتے کرتے چھ ماہ لگ جاتے ہیں. ہم جب ٹریفک حادثات کے اعداد وشمار جمع کررہے تھے تو ہم نے کچھ حادثات کی وجوہات میں سڑک کی تاخیر سے مرمت کو پایا ہے
نجیب کے مطابق نہ صرف مسافر کوچوں بلکہ کار کمپنیوں میں کام کرنے والے ڈرائیور بھی اکثر ڈبل شفٹ میں کام کرتے ہیں جن کی وجہ سے اکثر حادثات رونما ہوتے ہیں۔
دوسری جانب آل بلوچستان ٹرانسپورٹ ایکشن کمیٹی مسافر کوچوں میں ٹریکر لگانے سے مطمئن نظر آتی ہے۔
آل بلوچستان ٹرانسپورٹ ایکشن کمیٹی کے جنرل سیکرٹری اکبر لہڑی کا کہنا ہے کہ اس سے کچھ معاملات بہتر ہوئے ہیں۔ ہم تو پہلے سے اس حق میں ہیں کہ یہاں پر تیز رفتاری سے گریز کیا جائے۔
انہوں نے بتایا کہ ٹریفک حادثات میں صرف مسافر کوچ وجہ نہیں بلکہ بڑی گاڑیاں جن میں ٹرالر اور پتھر لانے والے ٹرک شامل ہیں وہ بھی مسائل کا باعث بن رہے ہیں
اکبر لہڑی نے بتایا کہ ٹریکر لگانے سے ہمیں کچھ فائدہ ہوا جس کی وجہ سے ہمارے ڈرائیور اب تیز رفتاری سے ڈرتے ہیں
انہوں نے اس الزام کی تردید کی کہ مسافر کوچوں میں غیر تربیت یافتہ ڈرائیور کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ہماری ایک گاڑی کی قیمت ڈھائی کروڑ روپے تک ہے، تو ہم کس طرح اس کو اناڑی کے ہاتھ میں دے سکتے ہیں۔ ہمارے پاس اس وقت 15 سال سے لے کر 20 سال تک تجربہ کار ڈرائیونگ کرنے والے موجود ہیں
ٹریکر نصب کرنے والی کمپنی کے جنرل مینیجر یاسر خان نے بتایا کہ مسافر کوچوں میں ٹریکر لگانے میں آدھے گھنٹے یا اس کچھ زیادہ وقت لگتا ہے۔ اگر کسی ڈرائیور نے تیزرفتاری کی تو اس کو تین دفعہ تنبیہ کی جائے گی اور اس کے باوجود خلاف ورزی پر اس کمپنی کا لائسنس منسوخ کیا جاسکتا ہے۔ ابتدائی طور پر ایک بار مقررہ رفتار سے تجاوز کرنے پر دس ہزار جرمانہ کیا جائے گا۔ اس سسٹم کے ذریعے نہ صرف ہم ڈرائیور کو مانیٹر کرتے ہیں کہ وہ کس طرح گاڑی چلارہا ہے، وہ خود ہے یا گاڑی کسی ہیپلر کے ہاتھ میں ہے، اس کے علاوہ وہ کسی اور کام میں تو مشغول نہیں ہے
انہوں نے بتایا کہ اگر کوئی ٹریکر کےساتھ چھیڑ چھاڑ کرتا ہے تو ہمارے سسٹم میں اس کی نشاندہی ہوجائے گی۔ جس پر اس کے خلاف کارروائی ہوگی۔
مسافر کوچوں میں ٹریکر لگانے والے صوبائی ٹرانسپورٹ اتھارٹی کے حکام کا کہنا ہے کہ مستقبل میں وہ مانیٹرنگ کے نظام کو نیشنل ہائی وے اتھارٹی اور ریسکیو کے ادارے کے ساتھ بھی منسلک کریں گے تاکہ حادثات کی صورت میں زخمیوں کو بروقت ہسپتال پہنچانے اور علاج معالجے میں آسانی ہوسکے.