وہ اپنے بچپن سے بکریاں چرا رہا ہے. اس نے بچپن کے سارے کھیل بکریاں چراتے ہی کھیلے… بکری کے چھوٹے پیارے سے بچے ہی اس کا کھلونا بھی ہوتے تھے…
بارش کے بعد جنگل ہرے بھرے لگ رہے ہیں، دور دور تک سبز چادر بچھی ہوئی ہے۔ حسب معمول گیم واچر یعنی جنگلات کا محافظ درختوں کے بیچوں بیچ ایک پگڈنڈی سے نمودار ہوتا ہے.. چرواہے پر نظر پڑتے ہی گیم واچر اسے زور سے "ہو چاچا” کہہ کر بلاتا ہے.. پھر رسمی علیک سلیک کے بعد گیم واچر بوڑھے چرواہے سے پوچھتا ہے "اور سناؤ چاچا… کوئی درخت وغیرہ کاٹا ہے یا نہیں؟”
چاچا نفی میں سر ہلاتا ہے، گیم واچر چاچا کو جتانے کے انداز میں بتاتا ہے کہ درخت کاٹنا جرم ہے، اگر درخت کاٹتے ہوئے پائے گئے تو جرمانہ ہوگا۔
بوڑھا چرواہا اپنے کھردرے ہاتھ سے آنکھوں کے اوپر چھجا بنا کر اسے دیکھتا اور پھر ملائم لہجے میں جواب دیتا ہے "ہم بھلا کیوں کاٹنے لگے درخت… یہ درخت ہی تو ہماری زندگی ہیں ہمیں سایہ بھی دیتے ہیں، اور ہمارے مال مویشی کو چارہ بھی… کوئی اپنے ہاتھ کیوں کاٹے گا صاحب”
گیم واچر کھسیانا سا ہو کر بات بدلنے کے لیے پوچھتا ہے "اور سناؤ… کیا ہو رہا ہے آج کل… ”
” ہونا کیا ہے سائیں… آج کل یہاں پر پرندوں اور خرگوش کا شکار بہت زیادہ ہو رہا ہے… آپ کو تو شاید…..”
"ہاں ہاں ٹھیک ہے… ٹھیک ہے… ہم دیکھ لیں گے۔”
بات بدلنے کا کوئی فائدہ نہ دیکھ کر گیم واچر اس کی بات کو کاٹ کر آگے بڑھ جاتا ہے..
اکتوبر کا مہینہ ہے… کھیرتھر پر سورج کے دل کھول کر برسنے کا مہینہ.. زمین پر پھیلی بارانی گھاس بھی اب سوکھ گئی ہے.. برساتی نالوں میں کہیں کہیں، گئی رُت کی بارش کا پانی اب بھی نشیبوں میں موجود ہے.. لیکن کہیں اس کی موجودگی کے صرف آثار ہی باقی بچے ہیں.. ان آثاروں کو دیکھ کر چرواہا من ہی من سوچتا ہے کہ کچھ برس پہلے تک یہ پانی سالہا سال تک ان برساتی نالوں موجود ہوتا تھا، مال مویشیوں اور جنگلی حیات کی پیاس بجھاتا رہتا تھا.. لیکن اب……
دن کے گیارہ بجے کا وقت ہے، تین چھوٹے پتھروں کا چولہا بنا کر وہ آس پاس بکھری ہوئی لکڑی کے چھوٹے موٹے ٹکڑے اس میں ڈال رہا ہے، دودھ اس نے دوہ لیا ہے، جو مسلسل آگ کے دونہیں کی وجہ سے کالی پڑ جانے والی کاپر کی ٹوٹی پھوٹی اور پرانی کیتلی میں پڑا ہے.. درخت کے سائے میں بیٹھا، وہ میٹھی چائے بنانے کی تیاری رہا ہے… یہ خود بھی پرانی، ٹوٹی پھوٹی اور باہر سے کالی پڑ جانے کیتلی ہی کی طرح ہے، جس کے اندر محبت اور خلوص کا سفید خالص دودھ بھرا ہے..
اسے دور سے اِس طرف آتی گاڑیوں کا شور سنائی دیتا ہے، دھول اڑاتی گاڑیاں کچھ فاصلے پر آکر رک جاتی ہیں.. گاڑیوں کے اس جتھے میں پولیس کی بھی ایک دو گاڑیاں دکھائی دے رہی ہیں.. بڑی بڑی سفید گاڑیوں سے کالے چشمے لگائے لوگ اترتے ہیں، ان کے ہاتھوں میں بڑے بڑے نقشے ہیں، ان میں کچھ سامنے پہاڑوں کی طرف اشارہ کر کے آپس میں باتیں کر رہے ہیں..
بوڑھا چرواہا خود سے کافی فاصلے پر موجود ان لوگوں کو حیرت سے دیکھ رہا ہے… باتوں کی آواز اس تک نہیں آ رہی، وہ ان کے ہاتھ کے اشاروں سے معاملے کو سمجھنے کی کوشش کر رہا ہے..
کچھ دیر کے بعد یہ سب گاڑیوں میں بیٹھ کر آگے کی طرف نکل جاتے ہیں اور پیچھے صرف اڑتی دھول رہ جاتی ہے.. بوڑھا چرواہا دل ہی دل میں خیال کرتا ہے کہ یہ محکمہ جنگلات کے سرکاری ملازم ہونگے، جنگلات کے یہ رکھوالے جنگلات کی دیکھ بھال کے لئے آئے ہونگے….
سوچتا ہے کہ سرکاری ملازم ہیں جنگل کے رکھوالے ہیں، اور تو کوئی معاملہ نہیں ہو سکتا کیونکہ اس جنگل پر کسی نے بھی اج تک ملکیت کا دعوی تو کیا نہیں ہے…
لیکن کچھ ہی دنوں کے بعد چرواہے کی بوڑھی آنکھیں بڑی بڑی مشنری کو جنگل میں آتے دیکھتی ہیں، ان کے آتے ہی جنگل کی کٹائی شروع ہوجاتی ہے.. وہ جواں سال درختوں کے گبھرو جوانوں کو ماں جیسی دھرتی کے سینے سے کاٹ کر ٹرکوں میں بھر کر لے جا رہے ہوتے ہیں… ندی نالوں سے ریتی بجری کا بے دردی سے صفایا ہو جاتا ہے.۔.. صرف دو تین مہینے کے بعد پورے جنگل کا صفایا ہو جاتا ہے….
چرواہے کی آنکھیں ان دو تین مہینوں میں جانے کتنے برس بوڑھی ہو جاتی ہیں… زمین کا چہرہ سپاٹ دیکھ کر، ان دو تین مہینوں میں اس کے بوڑھے چہرے کی جھریاں اپنے اندر صدیوں کی سلوٹیں سمیٹ لیتی ہیں….
بھاری مشنری صرف اس کے سامنے بچھی زمین پر نہیں چل رہی، اس کا سینہ اس کی زمین سے زیادہ چھلنی ہو چکا ہے..
جیسے جیسے فطرت مر رہی ہے، وہ اپنی حیرت زدہ خاموش آنکھوں کی ساکت پتلیوں میں سمٹتا جا رہا ہے.. وہ ٹوٹ رہا ہے، آہستہ آہستہ مر رہا ہے…. اس نے کئی دنوں سے اپنی بکریوں سے باتیں نہیں کیں، بکریوں نے دودھ دینا کم کردیا ہے… بوڑھے چرواہے کا دل بھاری اور بکریوں کے تھن ہلکے ہو رہے ہیں…
وہ اب میٹھی چائے نہیں پیتا..
موسم سرما آکر گزر گیا…… لیکن…. بہار کا موسم اس بار نہیں آیا، پرندے ہجرت کر گئے، پیچھے رہ جانے والے بچے کھچے پرندے حیرت کے جنگل میں گم ہو گئے ہیں، خشک ندیوں کو دیکھ کر ان کی آنکھوں میں پیاس بہنے لگی ہے…. ہر طرف دھول اڑ رہی ہے.
اپریل کے مہینے کا وسط ہے، گرمی چبھ رہی ہے.. دھوپ کی تپش بہت زیادہ ہے…. دور دور تک کوئی بھی سایہ نہیں… دور دور تک کوئی درخت نہیں. زمین، گھاس کی چادر کے بغیر ننگی ہو گئی ہے… بکریاں پانی ڈھونڈ رہی ہیں. اس دن بوڑھا چرواہا اپنی بکریوں کو بہت دور تک لے جاتا ہے، کافی آگے تک……. کہ شاید بھوک سے بلکتی بکریوں کے لیے تھوڑی گھاس مل جائے،
پیاس سے بے حال بکریوں کے لیے کہیں تھوڑا سا پانی مل جائے
دوپہر کا وقت ہے، آس پاس کوئی آدمی بھی نظر نہیں آ رہا اور اس کے مشکیزے میں موجود پانی ختم ہو چکا ہے، اس نے ندی نالوں کے جوڑ میں پانی ڈھونڈنے کے بھی جتن کر دیکھے مگر پانی اسے کہیں بھی نہیں ملا، اور پھر اس نے مشکیزے کو منہ کے سامنے جھٹک جھٹک کر آخری قطرے پینے کی کوشش کی
اب وہ نڈھال بیٹھا ہے اور سورج سوا نیزے پر ہے…
اس کے بعد پھر اگلے دن سے اس نے اپنے ساتھ لائے جانے والے پانی کی مقدار بڑھا دی ہے، اب وہ ایک کی جگہ، دو مشکیزے اپنے کاندھوں پر رکھنے لگا ہے۔
مئی کا پہلا ہفتہ چل رہا ہے۔
سورج غروب ہو چکا ہے، بکریاں آج بہت دیر سے گھر پہنچی ہیں، مگر بکریوں کے ساتھ بوڑھا چرواہا گھر نہیں پھنچا۔ گھر والوں میں سے کوئی بھی اس بات پر دھیان نہیں دے رہا۔ مگر کافی دیر بعد جب چرواہے کی بیوی اور بیٹی شام کا کھانا بنانے کے لیے اٹھتی ہیں… بیوی دودھ کا کٹورہ ہاتھ میں لیے ریوڑ کے پاس پہنچ کر بھی اسے نہیں دیکھتی تو اسے آوازیں دینے لگتی ہے… اور اسے وہاں نہ پا کر تیز تیز قدموں سے کاکا جمن کے گھر کی طرف چل پڑتی ہے، لیکن وہاں چاچا جمن گاؤں کے دیگر دو بزرگوں کے ساتھ بیٹھا ریڈیو پر خبریں سن رہا ہے…. بوڑھا چرواہا، اس کا شوہر ساون وہاں بھی موجود نہیں ہے…
اور پھر اگلے ہی لمحے چند جھونپڑیوں پر مبنی اس چھوٹے سے گاؤں میں ہاہاکار مچ جاتی ہے کہ چاچا ساون ابھی تک گھر نہیں لوٹا۔۔
اس ہڑبونگ میں چاچا جمن ریڈیو کو بند کیے بغیر وہیں چھوڑ کر گاؤں کے لوگوں کے ساتھ ساون کو ڈھونڈنے نکل پڑتا ہے….وہ پریشانی کے عالم میں امکانات اور اندیشوں پر باتیں کرتے گاؤں سے باہر اندھیرے میں گم ہو جاتے ہیں…
ریڈیو چارپائی پر دھرا ہے….
بی بی سی پر خبریں چل رہی ہیں
خبروں میں بتا رہے ہیں کہ اج ملک بھر میں درجہء حرارت میں ریکارڈ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، جس سے گرمی کا پچھلی کئی دہایوں کا رکارڈ ٹوٹ گیا ہے…. گرمی کی اس لہر کی وجہ دو سو اٹھائیس لوگوں کی موت واقع ہوئی ہے…
لیکن یہ تعداد دو اٹھائیس نہیں، بلکہ دو سو انتیس تھی… یا شاید اس سے بھی زیادہ!