مشینی انسان

حرا احمد

ٹیکنالوجی نے جہاں ہماری زندگیوں میں بے پناہ آسانیاں پیدا کی ہیں، وہاں ہماری زندگیوں کو پیچیدگی سے ہمکنار کرنے کا سہرا بھی اسی دشمنِ جاں کے سر جاتا ہے۔ آج کا انسان اپنے زیادہ تر معاملات کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کےلیے بری طرح مشینوں کا محتاج ہوچکا ہے۔ مشینوں پر مسلسل انحصار نے انسان کو نفسیاتی اور جذباتی طور پر ایک مشین بنا کر رکھ دیا ہے

یہ مشینوں کی صحبت کا ہی اثر ہے کہ آج کا انسان جذبات اور احساسات کے ساتھ ساتھ عقل اور ذہنی سکون سے بھی عاری ہوتا جارہا ہے۔ مصنوعی جذبات اور جھوٹی محبت کا رویہ اس قدر عام ہوچکا ہے کہ دوست دشمن لگتا ہے اور دشمن دوستوں کی جگہ لیتا جارہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر طرف بے حسی اور بدنظمی کا دور دورہ ہے

مشینوں کی قربت نے ہمارے اندر مادہ پرستی کی ہوس کو اس نہج پر پہنچا دیا ہے، جہاں انسان کی اپنے اصل کی طرف واپسی کی سبھی امیدیں دم توڑتی جارہی ہیں۔ آج ہر طرف بے راہ روی، حسد، کینہ، بغض، لالچ، ہوس، ناجائز دولت اور اسلحے کی ریل پیل ہے۔ وہ سینے جہاں کبھی دل دھڑکا کرتے تھے، اب وہاں انجن دھڑک رہے ہیں۔ وہ دل جن میں کبھی پیار اور مہر و وفا کی باتیں ہوتی تھیں، اب سب رشتے ناتے ضرورتوں کی شکل اختیارکرتے جارہے ہیں۔ وہ بہن بھائی جو ایک دوسرے کی جان ہوا کرتے تھے، آج ان کےلیے ایک دوسرے کو ملنا محال ہے۔ میاں بیوی کے رشتے کو ہی دیکھ لیجئے۔ کہیں شوہر بیویوں سے مخلص نہیں، تو کہیں بیویاں شوہروں سے بے خبر اور بے نیاز ہیں۔ اور تو اور یار دوست سب ضرورت کے وقت ایسے غائب ہوجاتے ہیں جیسے گدھے کے سر سے سینگ

اب رشتے سیرت کی بنا پر نہیں اسٹیٹس کی بنا پر بنائے جاتے ہیں۔ ہمدردی، محبت، وفا، احساسات اور جذبات ختم ہوچکے ہیں۔ ہم انجن والے انسان بن چکے ہیں، جسے صرف بھاگنا ہے۔ پیسے کے پیچھے، دولت کے پیچھے، شہرت کے پیچھے

پہلے دلوں میں پیار، محبت، احساس، وفا اور ہمدردی ہوتی تھی۔ ایک دوسرے کے دکھ درد کو محسوس کیا جاتا تھا۔ لیکن جیسے جیسے ہماری زندگی میں مشینوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہا ہے، ویسے ویسے انسان خود بھی مشین بنتا جارہا ہے۔ ہمارے سارے تعلقات اور رشتے احساس اور محبت کے بجائے مال و دولت اور مادی مفادات سے شروع ہوکر انہی پر ختم ہوجاتے ہیں۔ اب لوگ نکاح کو بوجھ سمجھنے لگے ہیں۔ تعلق اور عاشقی معشوقی کو انٹرٹینمنٹ کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ کون کس سے کتنا مخلص ہے، کوئی نہیں جانتا۔ محبت جیسے خوبصورت جذبے کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ لوگ ایک دوسرے کو دھوکا دینے میں عار محسوس نہیں کرتے۔ خوبصورت رشتوں کا تقدس پامال کیا جاتا ہے۔ صرف مادی اشیا ہی ہماری توجہ کا مرکز بنتی جارہی ہیں، چاہے وہ ناجائز طریقے سے ہی کیوں نہ حاصل کی جائیں

آج زندگی کا کوئی بھی شعبہ ایسا نہیں جہاں رشوت، سود اور دھوکا دہی نہ ہو۔ اب تو ہماری دوستیاں بھی محض فائدہ حاصل کرنے کےلیے کی جاتی ہیں۔ گھر، پیسہ، گاڑی، زیورات اور ہر خوشی ہونے کے باوجود آج کا انسان خود کو ناخوش اور نامکمل محسوس کرتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ صرف یہی ہے کہ ہم اپنے رشتوں سے دور ہیں۔ اپنے اصل سے دور ہیں۔ انسان دوسرے کے بغیر ادھورا ہے۔ آج بھی ہمارے اندر دل ہی دھڑکتے ہیں، فرق صرف اتنا ہے کہ ہم اپنے دلوں کو بھی مشینوں کی طرح جذبات اور احساسات سے عاری رہنے کا ہنر سیکھا چکے ہیں

سائنس اور ٹیکنالوجی نے انسان کو فطرت سے بہت دور اس مقام پر لاکھڑا کیا ہے جہاں واپسی کا سفر تقریباً ناممکن نظر آتا ہے۔ آج ہماری زندگیوں میں بڑھتی ہوئی نفسیاتی اور جذباتی پیچیدگیاں چیخ چیخ کر کہہ رہی ہیں کہ اے انسان! ہوش کے ناخن لے

اگرچہ وقت کے پلوں کے نیچے بہت سا پانی بہہ چکا ہے اور بے شمار غلطیوں کی تلافی کا کوئی راستہ سجھائی نہیں دیتا، لیکن مزید تباہی کو روکنے کا ایک طریقہ یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ خود کو مشینوں کی اندھا دھند غلامی سے جس حد تک ممکن ہوسکے آزاد کروا لیا جائے۔ کیونکہ پرسکون اور بامقصد زندگی کےلیے ضروری ہے کہ مصنوعی طرز حیات کو اپنانے کے بجائے کم ازکم ایسا راستہ ضرور تلاش کیا جانا چاہیے جو بے سکونی، بربادی اور اخلاقی اقدار کی تباہی کی طرف نہ جاتا ہو۔ اور اگر ایسا کرنے کی سنجیدہ کوششیں نہ کی گئیں تو ہمارا مستقبل بھی زنگ آلود مشینوں سے زیادہ مختلف نہیں ہوگا.

بشکریہ : ایکسپریس نیوز

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close