آزادی ہند فوج کے سپہ سالار جنرل شاہ نواز اور شاہ رخ خان

سجاد اظہر

جنرل شاہ نواز کے بارے میں جاننے سے پہلے آپ کے لیے یہ جاننا بھی ضروری ہے:

انڈین فلم انڈسٹری کے معروف فلم اسٹار شاہ رخ خان جنرل شاہ نواز کے نواسے ہیں۔ لطیف فاطمہ جنرل شاہ نواز کی لے پالک بیٹی تھیں، جن کی شادی آزاد ہند فوج کے ایک پختون فوجی میر تاج محمد سے ہوئی، جن سے ان کا اکلوتا بیٹا ہوا، جسے دنیا آج کنگ خان کے نام سے جانتی ہے۔

 جنرل شاہ نواز کی جدوجہد تشدد سے عدم تشدد تک

اب آتے ہیں اصل کہانی کی طرف، جس سے پہلے یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ آزاد ہند فوج، جس کی تعداد 43 ہزار تک پہنچ گئی تھی، اس کی قیادت ایک پنجابی پنڈی وال نے کی تھی۔

جنرل شاہ نواز 24 جنوری 1914 کو ضلع راولپنڈی کی تحصیل کہوٹہ کے ایک گاؤں مٹور میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کیپٹن سردار ٹکا خان بھی فوج میں تھے۔

1935 میں انہوں نے پرنس ویلز انڈین ملٹری کالج ڈیرہ دون میں کمیشن حاصل کیا۔ دوسری جنگ عظیم میں سنگاپور کے محاذ پر جاپانی فوج نے بڑی تعداد میں برطانوی فوجیوں کو قیدی بنا لیا ،جن میں جنرل شاہ نواز بھی شامل تھے۔

1943 میں سبھاش چندر بوس کے ذریعے ان فوجیوں کو رہائی ملی، جو اس وقت ایک جلا وطن حکومت بنائے ہوئے تھے اور ہندوستان کی آزادی کی مسلح جدوجہد کر رہے تھے اور جن کے خیالات سے متاثر ہو کر جنرل شاہ نواز بھی باغی ہو کر آزاد ہند فوج میں شامل ہو گئے۔

1946 میں امداد صابری کی چھپنے والی ایک کتاب ’سبھاش بابو کے ساتھی‘ جو ریختہ پر موجود ہے، اس کے صفحہ 108 پر جنرل شاہ نواز کے بارے میں تفصیلات درج ہیں، جبکہ ان کی اپنی کتاب ‘I.N.A & Neta Ji‘ میں بھی آزاد ہند فوج کی پوری کہانی رقم کی گئی ہے، جس کے مطابق ان کا تعلق راول پنڈی کے ایک فوجی گھرانے سے تھا۔

ان کے چچا پنجاب اسمبلی کے ممبر تھے، ملایا کی لڑائی میں کپتان شاہ نواز کو اعلٰی افسروں کی سفارش پر پنجاب ریجمنٹ میں تعینات کر کے بھیجا گیا تھا۔

جاپانیوں کی قید سے رہائی کے بعد جنرل موہن سنگھ کی آزاد ہند فوج میں شامل ہو گئے۔ انہیں لیفٹیننٹ کرنل کا عہدہ دے کر آزاد ہند کے فوجی ٹریننگ کیمپ کے اسکول میں تعینات کیا گیا۔ بعد ازاں چیف آف جنرل اسٹاف مقرر کر دیے گئے۔

وہ اپنے ماتحت فوجیوں کو کہا کرتے تھے کہ ’آزاد فوج کا نصب العین آزادی ہے، جس میں جاپانی ہماری مدد کر رہے ہیں۔ جنگ کرنا ہر ہندوستانی کا فرض ہے تاکہ برطانوی راج سے چھٹکارا حاصل کیا جا سکے۔ کوئی فوجی بزدلی کا مظاہرہ نہ کرے، جس سے جاپانیوں کے سامنے ہماری سبکی ہو۔

’ہندوستان میں اگر کوئی جاپانی فوجی آپ کے سامنے کسی عورت یا بزرگ کی بے عزتی کرے تو اسے منع کرو، اگر وہ نہ مانے تو اسے بھی گولی سے اڑا دو، ہماری لڑائی ہندوستان کی عزت اور حفاظت کے لیے ہے نہ کہ جاپانیوں کے لیے۔‘

سبھاش چندر بوس نے جب برما کے راستے اپنی فوجیں ہندوستان بھیجیں تو انہوں نے فوج کی کمان جنرل شاہ نواز کے سپرد کرتے ہوئے کہا کہ یہ جنرل شاہ نواز کی حب الوطنی اور جنگی پالیسیوں کو خراجِ تحسین پیش کرنے کا بہترین انداز ہے کیونکہ یہ جنرل شاہ نواز ہی تھے، جنہوں نے آزاد ہند فوج میں ہزاروں عام ہندوستانیوں کو بھرتی کر کے فوجی تربیت دی۔

یہ جنگ 23 اکتوبر 1943 کو شروع ہوئی جب آزاد ہند فوج کی کل تعداد 43 ہزار تھی، جس میں 23 ہزار عام شہری اور 20 ہزار سپاہی تھے اور جن کی تقسیم گاندھی بریگیڈ، نہرو بریگیڈ، آزاد بریگیڈ، سبھاش بریگیڈ اور رانی آف جھانسی ریجمنٹ میں کی گئی تھی۔

سبھاش بریگیڈ کی قیادت بھی ایک پنڈی وال میجر جنرل محمد زمان کیانی کے پاس تھی، جبکہ بھمبر کے گاؤں پنجیڑی سے بریگیڈیئر حبیب الرحمٰن بھی اس فوج میں شامل تھے۔

اس طرح تین پوٹھوہاری اس فوج کے کرتا دھرتا تھے۔ برما کی سرحد سے متصل ہندوستانی علاقوں میں فوج داخل ہوئی ناگا لینڈ میں منی پور، امپھال، کوہما کے محاذ میدان جنگ بنے۔

جنگ کے ابتدائی ایام میں زبردست کامیابیاں حاصل کیں اور دو جگہوں پر برطانوی فوج کو پسپا ہونے پر مجبور کر دیا مگر پھر جاپانیوں کی طرف سے عدم دلچسپی، اسلحہ اور راشن کی عدم فراہمی کی وجہ سے ان کی پیش قدمی رک گئی۔

جنرل شاہ نواز اپنی ڈائری میں لکھتے ہیں کہ: ’15 جولائی 1944 ہمارے فوجی فاقوں سے مر رہے ہیں اور کچھ لوگ خود کشی کر رہے ہیں، جاپانی بھی کوئی مدد نہیں کر رہے۔‘

اس بے سروسامانی کے باوجود آزاد ہند فوج نے تقریباً دو سال مزاحمت جاری رکھی۔ جنگ کے اختتام پر 16 ہزار فوجی گرفتار ہوئے۔ 13 مئی 1945 کو جنرل شاہ نواز بھی گرفتار کر لیے گئے۔

ان کے ساتھ گربخش سنگھ ڈھلوں اور پریم سنگھ جو ان کی فوج کے اعلی ٰ افسر تھے، ان سب کے خلاف کورٹ مارشل کی کارروائی کا مقدمہ لال قلعہ میں چلا، جس میں آزاد ہند فوج کے وکلا میں جواہر لال نہرو بھی شامل تھے۔

عام فوجیوں پر برطانوی حکومت نے مظالم کی انتہا کر دی انہیں قید با مشقت دی گئی رنگون میں نالیوں کی صفائی اور جمعداروں کا کام دیا گیا اور رشتہ داروں سے خط و کتابت تک کی اجازت نہ دی گئی۔

اس پر جواہر لال نہرو نے برطانوی حکومت کو خبردار کرتے ہوئے کہا ’تقریباً 25 ہزار ہندوستانی فوجی جن میں سے بیشتر سکھ اور مسلمان تھے، سنگاپور کے ہاتھ سے نکل جانے کے بعد جاپانیوں سے مل گئے اور انہوں نے انڈین نیشنل آرمی بنائی۔

’یہ لوگ غلط راستے پر تھے لیکن انہوں نے جو کچھ کیا، حب الوطنی کے جذبے سے کیا۔ اگر ان کے ساتھ بد سلوکی کی گئی اور پھانسیاں دی گئیں تو یہ افسوس ناک سانحہ ہوگا۔ برطانوی حکومت وسیع النظری کا ثبوت دے۔‘

کانگریس نے آزاد ہند فوج کے دفاع کے لیے ایک ڈیفنس کمیٹی تشکیل دی۔ انگریز نے لال قلعہ میں فوجی عدالت لگائی، جس کی کھلی سماعت منعقد کی گئی تاکہ عام لوگوں کو آزاد ہند فوج کے مظالم بتا کر انہیں متنفر کیا جائے۔ تاہم دو سال مقدمہ چلنے کے بعد تمام گرفتار فوجی افسر رہا کر دیے گئے۔

اس کی ایک وجہ تو برطانیہ کی جانب سے ہندوستان سے جلد انخلا کا فیصلہ تھا اور دوسری وجہ ان سے اظہار یکجہتی کے لیے انڈین نیوی اور ایئر فورس کے اہلکاروں کی ہڑتال تھی جو اتنی مؤثر ثابت ہوئی کہ فوج میں بغاوت کا خطرہ پیدا ہو گیا۔ لارڈ ماوئنٹ بیٹن نے صرف اس شرط پر جواہر لال نہرو سے ضمانت لی کہ آزادی کے بعد ان میں سے کسی کو بھی فوج میں نوکری نہیں دی جائے گی۔ خاکسارتحریک کے علامہ مشرقی بھی رہائی کی تحریک میں پیش پیش تھے۔

 جنرل شاہ نواز پاکستان کیوں نہیں آئے؟

یہ بات حیرت انگیز ہے کہ آزاد ہندوستان کے خواب دیکھنے والا پہلے پہل سبھاش چندر بوس سے متاثر ہوا تو برطانوی فوج سے بغاوت کر کے آزاد ہند فوج میں شامل ہو گیا اور جب وہ اس ذریعے سے اپنا مقصد حاصل نہ کر سکا تو وہ گاندھی کی عدم تشدد تحریک کا حصہ بن گیا۔

دونوں جگہ مقصد آزادی تھا۔ آزادی کے اس متوالے کے حصے میں یہ اہم اعزاز بھی آیا کہ جب آزادی کے بعد لال قلعہ پر برطانوی پرچم کی جگہ انڈین پرچم لہرانے کا موقع آیا تو نظر انتخاب ان پر ہی آ کر ٹھہری۔

جنرل شاہ نواز خان گاندھی کے اتنے قریب ہو گئے کہ 1946 میں بنگال کے خون ریز فسادات کے بعد امن و امان کی بحالی کے لیے گاندھی جب وہاں پہنچے تو ان کے ہمراہ خان عبدالغفار خان اور شاہ نواز بھی تھے۔

بعد میں نہرو کی درخواست پر شاہ نواز کانگریس میں شامل ہو گئے۔ ان کے بیوی بچے اگرچہ پاکستان میں ہی تھے، جن میں سے دو بیٹے اور بیوی بعد میں ان کے پاس دہلی آ گئے۔

1952 کے انتخابات میں پہلی بار وہ میروت اتر پردیش سے لوک سبھا کے رکن منتخب ہو گئے۔ وہ چار مرتبہ لوک سبھا کے ممبر بنے اس دوران پارلیمنٹری سیکریٹری اور مختلف محکموں کے وزیر رہے۔

1965 کی پاک انڈیا جنگ کے موقع پر ان کا بیٹا محمود پاکستان فوج کی طرف سے جنگ میں شریک تھا، جس پر اپوزیشن نے واویلا کیا کہ انہیں حکومت سے برطرف کیا جائے لیکن لال بہادر شاستری نے کہا کہ وہ ہماری آزادی کے ہیرو ہیں۔

وہ بائیں بازو کے خیالات رکھتے تھے ۔انڈیا میں زرعی اصلاحات اور زمین کی منصفانہ تقسیم کے حامی رہے۔ جب انہوں نے انڈیا میں بسنے والی مذہبی اقلیتوں کے لیے الگ پرسنل لا کا مطالبہ کیا تو وہ اس بنا پر 1967 کے انتخابات میں شکست کھا گئے۔

جب انڈین نیشنل کانگریس کی تقسیم ہوئی تو انہوں نے اندرا گاندھی کا ساتھ دیا۔

1971میں ’غربت مکاؤ مہم‘ کی وجہ سے وہ دوبارہ رکن پارلیمنٹ بن گئے۔ 1977 کے انتخابات میں جنتا پارٹی سے وہ ہار گئے اور پھر کبھی لوک سبھا میں نہیں آ سکے مگر وہ اپنی جماعت کانگریس کے ونگ ’سیوا دل‘ کے مرتے دم تک صدر رہے۔

ان کا انتقال 1983 میں ہوا۔ سبھاش چندر بوس پر 2017 میں بننے والی فلم ’راگدیش‘ میں ان کا کردار کونال کپور نے ادا کیا۔ جنرل شاہ نواز خان کے تین بیٹے اور تین بیٹیاں تھیں۔

ایک بیٹی لے پالک تھی۔ بیٹوں میں محمود نواز ،اکبر نواز اجمل نواز جبکہ بیٹیوں میں لطیف فاطمہ ان کے پاس دہلی میں تھیں، جو کہ شاہ رخ خان کی والدہ تھیں ۔ باقی دونوں بیٹیاں پاکستان میں تھیں، پاکستان میں ہی ان کی شادیاں ہوئیں۔

 ایک غلطی جس کی تصحیح ضروری ہے

جب لیفٹیننٹ جنرل ظہیر الاسلام ڈی جی آئی ایس آئی بنے تو پاکستان کے معروف دفاعی تجزیہ کار اکرام سہگل کا بیان انڈین اخبارات میں شائع ہوا تھا کہ جنرل ظہیر الاسلام جنرل شاہ نواز خان کے بھتیجے ہیں۔

اس طرح شاہ رخ خان کے بھی وہ ماموں لگتے ہیں۔ اس بیان کی تردید اس وقت آئی ایس پی آر نے کر دی تھی۔

انڈیپنڈنٹ اردو نے جب اس حوالے سے معروف سیاست دان اور مسلم لیگ ن کے چیئرمین سابق وفاقی وزیر راجہ ظفر الحق سے رابطہ کیا، جن کے والد جنرل شاہ نواز کے چچا زاد بھائی تھے، تو انہوں نے بتایا کہ جنرل شاہ نواز کے رشتہ دار جنرل ظہیر الاسلام نہیں بلکہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) خالد نواز تھے جو ٹین کور کو کمانڈ کر چکے ہیں، وہ 2015 میں ریٹائر ہو گئے تھے۔ وہ جنرل شاہ نواز کے بھتیجے ہیں۔ جنرل خالد نواز کی بھابی جنرل شاہ نواز کی بیٹی ہیں۔

جنرل شاہ نواز کے تین بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں۔ ایک بیٹا اور دو بیٹیوں کی شادی پاکستان میں ہوئی جبکہ دو بیٹے اپنی والدہ کے ساتھ ان کے پاس دہلی چلے گئے تھے۔

ان کے بیٹے محمود نواز بھی پاکستان فوج میں کرنل کے عہدے پر پہنچے، جن کے بیٹے اور جنرل شاہ نواز کے پوتے میجر جنرل اسد نواز حاضر سروس افسر ہیں۔ جنرل شاہ نواز خان کا خاندان اب دو ملکوں میں بٹا ہوا ہے۔

پوٹھوہار میں جنرل شاہ نواز کے حوالے سے ایک محاورہ زبان زد عام ہے کہ ’ماں مولی تے پیئو پیاز، پتر جمیا شاہ نواز‘ یعنی عام ماں باپ کا بیٹا بھی شاہ نواز جیسا بن سکتا ہے۔

شاہ نواز کا تعلق جنجوعہ راجپوت قبیلے سے ہے اور یہ قبیلہ سکندر اعظم کی ٹیکسلا آمد کے وقت راولپنڈی کا حکمران تھا۔ جنجوعوں سے اقتدار بھٹیوں نے لیا اور پھر بھٹیوں سے گکھڑوں نے اور ان سے سکھوں نے اقتدار حاصل کیا تھا۔

بشکریہ: انڈپینڈنٹ اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close