پہلی رات (افسانہ)

شزا حسین

اوائل جنوری کی سرمئی شام جب سیاہ ردا اوڑھ چکی، تب وہ یہاں پہنچا۔ چند گھنٹوں کے اِس سفر میں صدیوں کی بازگشت سنائی دی تھی لیکن اُسے شاید اپنی بھی خبر نہ تھی ۔ پہنچنے کے کچھ دیر بعد قیدِ تنہائی با مشقت کاٹنے کے لیے دو نوالے حلق سے اتار کر بستر ملتے ہی ڈھیر ہو گیا ۔ رگ رگ میں اذیت بھری تھی، پھر بھی وہ اس قدر مطمئن دکھائی دے رہا تھا، جیسے کسی مندر میں دیوتا پُرسکون نظر آتا ہے

بڑے سے اس کمرے میں پلنگ کے پاس کھڑکی سے آسمان پہ کچھ تلاشتی جمیل احمد کی آنکھوں کو کوئی تارا دکھائی دیا نہ جگنو۔۔۔ ”آہ جگنو۔۔۔۔“ آہ بھرتے ہی یکدم کئی جگنو ہولے ہولے بھولی بسری یادوں کی ڈالی پہ اُترنے لگے۔۔۔

”یہاں آج پہلی رات ہے پیارے، عادت ہو ہی جائے گی پھر“ زہر خیز مسکراہٹ نے طنز کیا تھا

”پہلی رات۔۔۔ ہاں وہ بھی تو پہلی رات تھی، جب بلوری آنکھوں والی قرۃالعین میری زندگی میں آئی تھی، اماں کی پسند پہ بنا دیکھے اُسے بیاہ لایا مگر پھر ایک جھلک نے ہی اُس کا دیوانہ بنا دیا۔۔۔“ وہ بڑبڑا رہا تھا۔۔ شاید کسی جگنو سے مخاطب تھا ۔

”جانتے ہو، میں اُسے پیار سے جگنو کہا کرتا تھا ۔ جب وہ ہنستی تھی تو گالوں میں بھنور پڑ جاتے اور میں اپنا آپ ہار جاتا ۔ اُن دنوں نئی نئی ملازمت تھی، گزر بسر بڑی مشکل سے ہوتی لیکن جگنو نے سدا میری ہمت بندھائی۔۔ وہ ساتھ تھی تو پت جھڑ کا موسم بھی گل و گلزار رہا۔۔۔ وہ میری پہلی محبت تھی اور پہلی محبت تو روح میں بسیرا کر جاتی ہے، پھر ذات کے اندر سدا رہتی ہے“

باتیں کرتے کرتے پھر آہ بھری۔۔ اِس پہلی رات میں وہ کئی سال پیچھے کا سفر کر کے، اُس پہلی رات تک پہنچ چکا تھا ۔ شادی کی خوشی میں چھوٹے سے بنیرے پہ دیپ جلائے گئے تھے، جن کی لو آج بھی یادوں کے چراغوں میں جذبات کی باتی پر ٹمٹما رہی تھی۔۔ پھر یہ جنگو بھی کہیں کھو گئے۔۔۔ آنکھیں مسل کر کروٹ بدلی اور سونے کی کوشش کرنے لگا پر بادلوں کی اوٹ سے چاند بھی بےقرار سا نکل آیا۔۔ چاند کی چاندنی بھی تھکی ہاری اُسے تکنے لگی

”کیا سوچ رہے ہو جمیل بابو۔۔ تمہیں یاد ہے سیلن زدہ چار دیواری کے چھوٹے سے آنگن میں بیٹھ کر تم اِسی روشنی میں پڑھا کرتے تھے، جب اماں تمہیں اپنے ہاتھ سے چُوری بنا کر دیا کرتی اور کہا کرتی تھی میرے چاند اتنا نہ پڑھا کر دماغ کمزور ہو جاوے گا۔۔۔ اور تم کہتے اماں پڑھوں گا نہیں تو بڑا آدمی کیسے بنوں گا اور کیسے تیرے صبر کو صلہ ملے گا “ چاندنی میں تیرگی اتر آئی

”ہاں سب یاد ہے، اماں نے بیوگی کا چولا پہن کر جیسے مجھے پڑھایا، وہ اُس کے لیے اتنا آسان بھی نہ تھا۔۔ پلکوں پہ سپنے ٹانکتی وہ اِس آس پہ دنیا سے چلی گئی کہ اُس کا بیٹا اچھی نوکری پہ لگ جائے تو لبمی کالی رات کو سویرا مل جائے گا۔۔ وہ الگ بات کہ جب بارہ جماعتیں پاس کرتے ہی معمولی سی نوکری ملی تو جگنو کی مانگ میرے نام کے ستاروں سے سجا کر دو ماہ بعد ہی اماں مجھے چھوڑ کر چلی گئی“ سینے میں ٹیس سی اٹھی تھی ۔ حلق نے پانی کا سوال کیا تو وہ اٹھ بیٹھا۔۔۔۔

پانی تو پلنگ کے پاس نہیں تھا، ہاں دو قطرے پلکوں سے چھن کر دامن میں ضرور سما گئے ۔ پلکیں اٹھائیں تو آسمان پہ کہیں کہیں ادھورے بادل مگر چاند پورا دکھائی دیا ۔ آنکھیں پھر دھندلا سی گئیں ۔ اماں کی ’چاند کی پریاں‘ یاد آنے لگیں تو اُنہی میں سے اک پری اپنے دلکش پر پھیلائے دھیرے سے اُس کے قریب آ بیٹھی

”کیسے کیسے رنگوں سے سجے خوابوں کو کاغذ کے کینوس پہ اتارا کرتے تھے تم، تمہیں یاد ہے شادی کے چند ماہ بعد جب تم نے قلم کو رفیق بنایا تو تمہاری جُگنو محبت کے مان سے روٹھ گئی تھی، تب تم نے اُسے محبت سے سمجھایا۔۔۔ اور پھر، یاد کرو وہ وقت جب ملازمت سے تھکے ہارے شام ڈھلے لوٹتے اور رات کو دیر تک لالٹین کی روشنی میں قلم سے دوستی نبھایا کرتے تھے“ وہ دھیرے سے مسکرا دیا۔۔۔

”قلم کی دوستی تو سانس کی ڈور ٹوٹنے پر ہی ٹوٹے گی۔۔۔“ بے بسی نے پر پھیلائے تو جانے کس خیال میں پری کو چھونا چاہا مگر وہ غائب ہو گئی، البتہ سوچوں کا سلسلہ جاری رہا۔۔۔

زندگی کی راہگزر پہ چلنے کے لیے سہارا دے کر ساتھ چلنے والا کتنا اہم ہوتا ہے، اس کا اندازہ جگنو کے جانے کے بعد ہوا، جب وہ اُس کی زندگی کے اُجالوں کو اندھیروں میں بدل گئی۔۔۔ ہاں جاتے جاتے جینے کا سہارا دے گئی تھی

اب وہ بے چین ہو کر دوبارہ لیٹ گیا۔۔۔ سوچوں اور یادوں کے اس ادھیڑ بن میں اس کی ہستی کُرلانے لگی۔۔ دلاسہ دینے کو اُس کے رفیق نے الفاظ بھیجے۔۔۔ جنہیں کسی زمانے میں وہ سینے سے نکال کر قرطاس پہ سجایا کرتا تھا ”تم تو زندگی کو بہار لکھتے تھے۔۔۔ پھر بہار لُٹ گئی اور درد کو ٹھکانے مل گئے۔۔۔ یاد ہے نا وہ وقت، جب جگنو کی جدائی کے غم نے تمہیں زمانے سے بیگانہ کر دیا، یہاں تک کہ تم ملازمت سے ہاتھ دھو بیٹھے اور جگنو کی نشانی کو سینے سے لگائے ہر دم رویا کرتے ۔ پھر اس کے لیے جینے لگے۔۔۔ کہتے ہیں جب برا وقت آتا ہے تو ہر طرف سے آتا ہے ۔ تمہیں نوکری نہیں ملتی تھی اور جو تھوڑی بہت جمع پونجی تھی، وہ ختم ہو رہی تھی، تب اپنے چاند کے لیے تم نے مزدوری کی ۔ دن بھر پڑوس والی خالہ کے پاس اُسے چھوڑ کر کام پہ جاتے اور شام کو واپسی پر اس کے لیے دودھ اور بسکٹ لانا نہ بھولتے۔۔۔ تب تو وہ ڈیڑھ سال کا ہو چکا تھا جب خالہ نے کہا میاں کب تک اسے چاند کہہ کر پکارو گے، اب اس کا نام بھی رکھ دو اور پھر کتنے فخر سے اس کو انعام الحسن نام دیا“

مزدوری کے چھالے ہاتھوں سے مٹ چکے تھے مگر زندگی کی مزدوری میں روح پہ بنے چھالے آج بھی تازہ تھے۔۔ اُس نے تو سب کچھ ہار کے اک شخص کمایا تھا، جس سے اُسے عشق تھا۔۔ ہاں انعام الحسن اس کا عشق ہی تو تھا۔۔۔ سینے میں ایک اور ٹیس اٹھی۔۔

”بس کرو اب مجھے سونے دو، آدھی رات بیت چکی، چاند بھی گھر چلا گیا اور میں بیابان مسافتوں کے مسافر کی طرح بھٹک رہا ہوں۔۔۔“ تنہائی کے درد کی شدت نے اسے پوری طرح اپنی آغوش میں لے لیا، سرہانے رکھی گٹھڑی کو قریب کر کے سینے سے لگایا تو کچھ قرار آیا

”بابا، استاد جی کہتے ہیں کہ بیٹے ماں باپ کا سہارا ہوتے ہیں، مگر یہ سہارا کیا ہوتا ہے بابا؟“ معصوم سے سوال نے یاد کے کان میں سرگوشی کی تو وہ سراپا سماعت بن گیا

”بابا کی جان، اللہ میاں اپنے بندوں کو جینے کے لیے سانس دیتا ہے نا، اگر سانس بند ہو جائے تو زندگی ختم ہو جاتی ہے۔ بس یوں سمجھو کہ سہارا بھی سانس جیسا ہوتا ہے، جس کے بغیر زندگی کا تصور نہیں کیا جاتا۔۔ اور تم میرے لیے جینے کا سہارا ہو بیٹا“ اور بیٹا مسکرا کے سینے سے لگ گیا ”بابا میں سہارا ہوں آپ کا اور ہمیشہ ساتھ رہوں گا۔۔“

پھر دھوپ چھاؤں کے سفر میں انعام الحسن کو سرد و گرم سے بچاتے بچاتے اُس نے اپنا آپ تیاگ دیا لیکن اپنے خوابوں کی تعبیر بیٹے کے مستقبل کے حوالے کر دی، اُسے ڈاکٹر بنایا ”ڈاکٹر مسیحا ہوتا ہے بیٹا، کبھی اپنی مسیحائی کی قیمت مت لگانا“

جمیل احمد بیٹے کو دیکھ دیکھ کر جیتا تھا۔۔ اس کے لیے محنت مزدوری کی، ملازمت کی دن رات ایک کر کے اسے کامیاب انسان بنا دیا

یادوں کو سینے سے لگائے ساری رات آنکھوں میں کٹ گئی۔۔

صبح کی سپیدی نے رات کی سیاہی کو مٹا دیا تو وہ پلنگ سے اٹھ کر کھڑکی کے پاس جا کھڑا ہوا ۔ پلنگ پہ سرہانے رکھی گٹھڑی کو دیکھنے لگا، جس میں اس کی زندگی بھر کی جمع پونجی بندھی تھی، ہاں کمائی تو لٹا کر آیا تھا

سامنے دروازے سے مخصوص وردی پہنے ایک نوجوان اُس کے پلنگ کی جانب آیا تو وہ دیوار سے ٹیک لگا کر غور سے نوجوان کو دیکھنے لگا ”ارے میری کُل متاع کو کیوں ٹٹول رہے ہو“ جمیل احمد نوجوان سے مخاطب ہوا مگر اُس نے توجہ نہ دی اور اپنا کام کرتا رہا

”سر یہ تو مسودہ ہے, شاید بابا جی لکھاری رہ چکے ہیں اور یہ ٹوٹی ہوئی کھلونا گاڑی ہے“ نوجوان نے ریپورٹ دینے کے انداز میں کہا

”بچے اس میں کیا ڈھونڈ رہے ہو۔۔“ جمیل احمد نے پھر آواز دی مگر ان سنی کر دی گئی تو وہ خاموش ہو گیا

”اس میں کیا ہے یاسر؟“

”سر یہ تو شاید کسی نومولود کے سر کے بال ہیں، جو پہلی بار اتروائے جاتے ہیں۔۔“

سر نے آنکھوں میں کرب کا پانی لیے بوڑھے کی طرف دیکھا۔۔۔۔ لیکن بوڑھا جمیل کرب کے اس احساس سے منہ موڑے چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا چلنے لگا، محبت اور عشق کے سودے میں زندگی کی بازی لگا دی تھی، اُس نے عمر بھر کمائی کی لیکن صرف عشق کمایا اور آج وہ ہارا ہوا ایسا شخص تھا، جس نے ہر کائنات ہی ہار دی۔۔ اب یادوں اور سوچوں سے دامن چھڑا کر آوازوں سے دور جا رہا تھا لیکن۔۔ ہاں پیچھے سے اسے آواز سنائی دی
”بابا جی کے بیٹے کو فون کر دو یاسر، جس بیٹے نے بیوی کے سامنے باپ کو داؤ پہ لگا دیا اور ایک فلاحی ادارے کے حوالے کر دیا، اُس کا باپ زندگی کی بازی ہار چکا ہے“

جمیل احمد نے چلتے چلتے پیچھے مڑ کر دیکھا۔۔۔۔ پلنگ پہ بے حس و حرکت اُس کا بے قیمت وجود پڑا تھا اور آس پاس کچھ لوگ افسردہ سے کھڑے تھے ۔۔۔!!!

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close