بیجنگ : ایک سروے سے معلوم ہوا ہے کہ دنیا بھر میں امراضِ قلب سے سالانہ جتنی اموات ہو رہی ہیں، ان میں سے آدھے واقعات کا تعلق ایشیائی ممالک سے ہے
جرنل آف امریکن کالج آف کارڈیالوجی (جے اے سی سی) نے اپنی تازہ اشاعت میں شامل تحقیق میں اس خوفناک رحجان کو ایک وبا قرار دیا ہے
تحقيق میں کہا گیا ہے کہ ایشیا میں دل اور دل کی رگوں (کارڈیو ویسکیولر) امراض کی شرح تیزی سے بڑھ رہی ہے
جے اے سی سی ایشیا نے زور دیا ہے کہ مقامی سطح پرامراضِ قلب کو روکنے کے لیے تمام وسائل بروئے کار لینا بہت ضروری ہے
تحقیق کے مطابق 1990 سے 2019 کے درمیان سالانہ دل کے امراض سے مرنے کی شرح سالانہ 56 لاکھ سے ایک کروڑ آٹھ لاکھ تک پہنچ چکی ہے۔ یعنی اموات کی شرح 39 فیصد تک بڑھ چکی ہے اور ان میں اکثر افراد کی عمریں 70 برس سے کم ہیں، یعنی اکثر اموات قبل از وقت رونما ہورہی ہیں۔ یہ شرح امریکا سے بھی زیادہ ہے
ماہرین نے کہا ہے کہ ایشیائی ممالک میں بڑے پیمانے پر سماجی، معاشی، ماحولیاتی اور غذائی تبدیلیوں کی ضرورت ہے تاکہ ایک صحتمند اور امراضِ قلب سے پاک معاشرے کی بنیاد رکھی جاسکے
واضح رہے کہ یہ تحقیق چینی سائنسدانوں نے کی ہے جن میں بیجنگ انسٹی ٹیوٹ آف ہارٹ کے پروفیسر ڈون ژیاؤ اس رپورٹ کے مرکزی مصنف ہیں
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امراضِ قلب کے بڑھتے ہوئے واقعات ہر لحاظ سے معاشرے پر مرض کا بوجھ بڑھا رہے ہیں۔ ان سے نبرد آزما ہونے کے لیے جنگی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ دل کے امراض مردوں اور عورتوں دونوں میں عام ہیں اور بلاتخصیص عمر و جنس اموات کی وجہ بن رہے ہیں
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دل کے امراض سے سب سے زیادہ اموات جارجیا میں ہو رہی ہیں، جہاں اموات کی شرح 810 اموات فی لاکھ ہے، جبکہ سب سے کم شرح قطر میں ہیں جہاں 39 اموات فی لاکھ یے۔ لیکن اس ضمن میں فالج کو شامل کیا گیا ہے کیونکہ فالج بھی اموات کا بڑا حصہ بنا ہوا ہے
ماہرین نے کہا ہے کہ امراضِ قلب سے بچنے کے لیے باقاعدہ ورزش، غذائی احتیاط، تمباکو اور شراب نوشی سے پرہیز ضروری ہے، تاکہ ذیابیطس کے مؤثر علاج اور بلڈ پریشر قابو رکھنے کے ذریعے ناگہانی موت کی بڑھتی ہوئی شرح کو روکا جا سکے.