بلوچستان کے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے کوئٹہ کی جانب 776 کلو میٹر طویل لانگ مارچ

ویب ڈیسک

کوئٹہ – بلوچستان کے ایران سے متصل ضلع کیچ سے تعلق رکھنے والے گلزار بلوچ صوبے میں لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے تقریباً 776 کلومیٹر پیدل مارچ کر کے تربت سے کوئٹہ پہنچ رہے ہیں

ان کا کہنا ہے ”یقین تھا کہ ننگے پاﺅں مارچ کرسکوں گا کیونکہ بلوچستان میں دوردراز کے علاقوں میں غربت کے باعث ہماری مائیں، بہنیں اور بھائی ننگے پاﺅں ہی پھرتے ہیں…“

طوالت کے لحاظ سے گذشتہ آٹھ برسوں کے دوران بلوچستان سے یہ دوسرا بڑا پیدل لانگ مارچ ہے، جس میں ان کے ساتھ خواتین نے بھی شرکت کی ہے

انہوں نے بتایا کہ مارچ کے دوران خواتین نے ان سے کہا ’اگر میں جوتے نہیں پہنوں گا تو وہ بھی میرے ساتھ ننگے پاﺅں کوئٹہ تک مارچ کریں گی۔‘

بلوچستان سے لاپتہ افراد کے رشتہ داروں کی تنظیم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ کے نام سے منسوب اس مارچ کے چار مقاصد تھے

گلزار بلوچ کے مطابق، وہ اس مارچ کے ذریعے چار مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں جن میں سے سب سے اہم لاپتہ افراد کی بازیابی ہے

ان کا کہنا ہے ‘ہم چاہتے ہیں کہ دنیا کی توجہ لاپتہ افراد کے مسئلے کی جانب مبذول ہو اور جتنے بھی لاپتہ بلوچ ہیں ان کی باحفاظت بازیابی یقینی ہو۔’

انہوں نے کہا ‘دوسرا بڑا مسئلہ صوبے میں منشیات کی اسمگلنگ اور آزادانہ استعمال کا ہے ۔ اس وقت بلوچستان اور سندھ کی بلوچ آبادیوں کو منشیات کا عادی بنایا جا رہا ہے۔ منشیات ایک زہر ہے اور اس کے ذریعے سے بلوچوں کی نسل کشی کی جا رہی ہے۔’

گلزار نے بتایا کہ اس مارچ کا ایک مقصد یہ ہے کہ فرنٹیئر کور کا بلوچستان کی آبادیوں سے انخلا کیا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ برطانوی راج کے دوران 1894 میں ہندوستان پر جو لینڈ ایکویزیشن ایکٹ لاگو کیا تھا، وہی ایکٹ ابھی تک چلا آ رہا ہے

انھوں نے الزام عائد کیا کہ اس ایکٹ کے ذریعے بلوچستان کے لوگوں کو ان کی قیمتی اراضی سے محروم کیا جا رہا ہے اور اب تک بلوچوں کی ہزاروں ایکڑ اراضی پر اس ایکٹ کے تحت قبضہ کیا گیا ہے

گلزار دوست کا کہنا ہے ‘ہم چاہتے ہیں کہ بلوچوں کو ان کی اراضی سے کسی بھی بہانے سے بے دخل کرنے کا سلسلہ بند کیا جائے۔’

واضح رہے کہ گلزار دوست نے ضلع کیچ کے صدر مقام تربت سے پیدل لانگ مارچ کا آغاز رواں سال27 فروری کو کیا تھا۔ اس احتجاجی لانگ مارچ میں ان کی منزل بلوچستان کا دارالحکومت کوئٹہ تھا

تربت سے لے کر کوئٹہ تک انہوں نے جس شاہراہ پر لانگ مارچ کیا، وہ زیادہ تر خشک صحرائی اور پہاڑی علاقوں پر مشتمل ہے۔ کوئٹہ پہنچنے پر 776 کلومیٹر کا فاصلہ بائیس دنوں میں طے کر لیں گے

گلزار دوست بلوچ نے بتایا کہ وہ اوسطاً روزانہ پینتیس کلومیٹر پیدل چلتے رہے

گلزار دوست نے بتایا کہ انہوں نے اور تربت سول سوسائٹی نے اس مارچ کو منفرد بنانے کے لیے اسے ننگے پاﺅں کرنے کا فیصلہ کیا تھا

ان کا کہنا تھا کہ ‘مجھے یہ یقین تھا کہ میں اس مارچ کو ننگے پاﺅں کر سکوں گا کیونکہ بلوچستان میں دور دراز کے علاقوں میں غربت کے باعث ہمارے لوگ ننگے پاﺅں پھرتے رہتے ہیں۔’

وہ کہتے ہیں کہ ‘تربت سے روانگی کے بعد دو دن تک میں نے ننگے پاﺅں مارچ کیا اور ان دو دنوں کی مارچ سے میرے پیر شدید زخمی ہوئے۔ روڈ کی سختی کی وجہ سے پیروں پر پہلے آبلے پڑ گئے اور بعد میں وہ پھٹ گئے اور ان سے خون بہنا شروع ہو گیا۔’

ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ پیر زخمی ہونے کے باعث چلنے میں بہت مشکل پیش آ رہی تھی مگر انھوں نے مارچ جاری رکھا، لیکن دو دن بعد ڈاکٹر حنیف شریف کی والدہ نسیمہ بلوچ اور ان کی بیٹی میرے پاس آئیں اور مجھے جوتے پہننے پر مجبور کیا

ان کا کہنا تھا کہ ‘میری ان کے لیے عقیدت والدہ کی طرح ہے لہذا جب میں نے انکار کیا تو پھر انھوں نے بھی میرے ساتھ ننگے پاﺅں مارچ کرنا شروع کر دیا۔ چونکہ یہ میں دیکھ نہیں سکتا تھا اس لیے میں نے ان کی بات کو مانتے کرتے ہوئے جوتے پہن لیے۔’

گلزار بلوچ نے بتایا کہ اس مارچ کو منفرد بنانے کا جو دوسرا فیصلہ تھا وہ یہ کہ اس مارچ کو انھوں نے تربت سے کوئٹہ تک اکیلا کرنا تھا

انہوں نے بتایا کہ تربت سول سوسائٹی کے فیصلے کے مطابق اس مارچ کو پنجگور تک انھوں نے بالکل اکیلے ہی کیا لیکن پنجگور میں ان کے کلاس فیلو اور دوست یعقوب جوسکی سمیت دیگر دو ساتھی زبیر آسکانی اور سلام بلوچ نے بھی ساتھ چلنے کی درخواست کی

انہوں نے کہا کہ ان کی درخواست پر سوسائٹی کے ساتھیوں سے مشورہ کیا اور ان کی اجازت سے یہ تینوں دوست پنجگور سے میرے ساتھی بنے

مارچ کو ماما قدیر کے نام سے منسوب کرنے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ماما قدیر بلوچ لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے ایک توانا آواز ہیں، اس لیے انھوں نے اپنے مارچ کو ماما قدیر کے نام سے منسوب کیا

وہ کہتے ہیں کہ ماما قدیر بلوچ نے نہ صرف طویل لانگ مارچ کیا بلکہ انہوں نے جدید دنیا کی تاریخ میں طویل ترین علامتی بھوک ہڑتالی کیمپ بھی قائم کیا جسے اب تک چار ہزار چھ سو سے زائد دن ہوئے ہیں

گلزار بلوچ کا کہنا ہے کہ وہ جو مارچ کر رہے ہیں اس کا ماما قدیر کے مارچ سے کسی طرح موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ ‘ماما قدیر نے عمر کے جس حصے میں مارچ کیا، اس جدید دور میں ایسے مشکل اور طویل پیدل مارچ کے بارے میں لوگ سوچ بھی نہیں سکتے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ماما قدیر کا مارچ مشکلات سے بھرپور تھا جبکہ ان کے مقابلے میں انھیں کسی بیرونی مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑا کیونکہ تربت سے کوئٹہ تک ان کا گزر بلوچ آبادیوں والے علاقے سے ہوا

‘ہر جگہ لوگوں نے ہمارا استقبال کیا اور ہمارے لیے کھانے پینے کے علاوہ رہائش کا انتظام کیا۔’

گلزار دوست بلوچ نے کہا کہ بلوچستان کے لوگ اس وقت ایک مشکل صورتحال سے دوچار ہیں اور ان کی یہ معمولی سی جدوجہد اپنے حصے کا فرض پورا کرنے کی ایک کوشش ہے

اس سوال پر کہ کیا اس طرح کے مارچ کا کوئی فائدہ ہے، تو ان کا کہنا تھا کہ دنیا میں کوئی بھی جدوجہد رائیگاں نہیں جاتی ہے۔ ”اس سے قبل ماما قدیر بلوچ نے لانگ مارچ کیا۔ اس سے کتنے لاپتہ بلوچ بازیاب ہوئے یا نہیں ہوئے لیکن ماما قدیر نے پوری دنیا کو باور کرایا کہ جبری گمشدگی بلوچستان کا سب سے بڑا اور سنگین مسئلہ ہے اور انھوں نے پوری دنیا کی توجہ لاپتہ افراد کے مسئلے کی جانب دلائی“

انھوں نے کہا کہ ان کے مارچ کا ایک اہم مقصد تمام بلوچوں کو متحرک کرنا ہے اور یہ احساس دلانا ہے کہ ہر بلوچ لاپتہ افراد کے مسئلے کو اپنے گھر کا مسئلہ سمجھے

یاد رہے کہ بلوچستان سے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے پہلے کوئٹہ سے کراچی اور بعد میں کراچی سے اسلام آباد تک پیدل لانگ مارچ ماما قدیر بلوچ کی قیادت میں 2014 کے اوائل میں کیا گیا تھا

اس لانگ مارچ میں ایک بچے کے علاوہ خواتین بھی شامل تھیں ۔ ماما قدیر کے لانگ مارچ کے بعد بلوچستان میں لوگوں نے اپنے مسائل کے حل کے لیے کوئٹہ تک متعدد پیدل مارچ کیے

گلزار دوست بلوچ کا تعلق بلوچستان کے ایران سے متصل ضلع کیچ کے علاقے تجابان سے ہے۔ انہوں نے بنیادی تعلیم ضلع کیچ سے حاصل کی تاہم پوسٹ گریجویشن کوئٹہ سے کی

انہوں نے یونیورسٹی آف بلوچستان سے جرنلزم اور پولیٹیکل سائنس میں ایم اے کی ڈگریاں حاصل کی ہیں

زمانہ طالب علمی میں ان کا تعلق طالب علموں کی معروف تنظیم بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن سے رہا۔ وہ بلوچستان سول سوسائٹی کے چیئرمین اور تربت سول سوسائٹی کے کنوینر بھی ہیں.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close