باب دوئم: کراچی میں تعمیر شدہ و زیر تعمیر رہائشی اسکیمیں
1974ء میں اسٹیل مل کے لیے 18660 ایکڑ زمین حاصل کی گئی، جہاں 15 سے زائد قد میم گوٹھ تھے۔ اسی طرح 1973ء میں پورٹ قاسم اتھارٹی کے لیے 13663 ایکڑ زمین حاصل کی گئی، جہاں قائم 35 قدیم گوٹھوں کو بے دخل کیا گیا۔ روزگار کے وسائل ختم ہونے سے یہ لوگ در بدر ہوگئے۔ ان کے لیے روزگار کا متبادل بندوبست نہیں کیا گیا. یہ زمینیں دیہہ باکران اور دیہہ پپری میں حاصل کی گئیں۔ پورٹ قاسم نے یہیں پر بس نہیں کی بلکہ پورٹ انتظامیہ کی طرف سے ابراہیم حیدری سے گھارو تک 20000 ایکڑ اراضی پر اپنے بورڈ آویزاں کر دیئے گئے ہیں، جس کے باعث مستقبل میں دو لاکھ سے زائد لوگ متاثر ہوں گے۔ ان کے روزگار کے وسائل چھن جائیں گے۔ مقامی لوگوں کی لیز کردہ یہ زمین پورٹ قاسم اتھارٹی نے صرف 6 ہزار روپے فی ایکڑ کے حساب سے حکومت سندھ سے حاصل کی۔ اب پورٹ قاسم یہ زمین کمرشل بنیادوں پر کروڑوں روپے فی ایکڑ کے حساب سے مختلف پرائویٹ صنعتی یونٹوں کو فروخت کر رہی ہے، جہاں 100 سے زائد کمپنیاں گزشتہ برسوں سے پیداوار دے رہی ہیں، جن میں 10 ہزار سے زائد لوگ کام کر رہے ہیں، جہاں مقامی اور متاثر لوگوں کی تعدادصرف 25 ہے۔ ان فیکٹریوں میں کام کرنے والے مزدوروں کو، جن کا تعلق کراچی سے نہیں ہے، کچی آبادیوں کے ذریعے آباد کیا جا رہا ہے، جس سے مستقبل میں مقامی آبادی کی سیاسی قوت کو بھی شدید ضرب پہنچے گی۔ جاوداں سیمنٹ فیکٹری کی وجہ سے دیہہ منگھو پیر میں مزدوروں کی بڑی کالونیاں بن گئیں، جس کے نتیجے میں گزشتہ مشرف دور کے بلدیاتی نظام کے آخری ٹرم میں یونین کونسل منگھو پیر کے ناظم اور نائب ناظم دونوں پختون منتخب ہوکر آئے۔ اس وقت یہاں طالبان کا بڑا نیٹ ورک موجود ہے۔
جب سوات، باجوڑ اور وزیرستان کے حالات خراب ہوئے تو ان علاقوں سے ایک لاکھ لوگوں نے کراچی کا رخ کیا اور نئی سبزی منڈی سے سہراب گوٹھ اور ناردرن بائی پاس تک آباد ہوگئے۔ یہ سلسلہ تاحال تھما نہیں ہے۔
ضیاءالحق کے، اقتدار پر قبضے کے بعد ایک پلاننگ کے تحت کراچی میں رہائشی اسکیمیں شروع کی گئیں۔ یہاں کے مقامی لوگوں کی سیاسی وابستگیاں پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ ہیں۔ اس اثر و نفوذ کوختم کرنے کے لیے مقامی لوگوں کی زرعی زمینوں پر 1980ء کے بعد مختلف اسکیمیں شروع کی گئیں جن کی تفصیل اس طرح ہے:
° سور جانی ہاؤسنگ اسکیم: تپونگھو پیر -6 ہزار ایکڑ
° ہلکانی ہاؤسنگ اسکیم: تپونگھو پیر -38 ہزار ایکڑ
° ہاکس بے ہاؤسنگ اسکیم: تپو گابوپٹ۔ 11 ہزار 4 سو 50 ایکڑ
° گلستان جوہر: دیہہ صفوراں- 2700 ایکڑ
° اسکیم 33: تپوسونگل- 3000 ایکڑ
° گلشن معمار ہاؤسنگ اسکیم۔ دیہہ تائیسر -1500 ایکڑ
° تائیسر ہاؤسنگ اسکیم۔ دیہہ تائیسر، دیہہ موکھی، دیہہ شاہی چھب، دیہہ بجاربُٹھی، دیہہ ناراتھر، دیہہ ناگن، دیہہ اللہ پھہائی اور دیہہ مہیو 20500 ایکڑ
° شاہ لطیف ہاؤسنگ اسکیم: تپو لانڈھی۔ 2700 ایکڑ
° نیو ملیر ہاؤسنگ اسکیم: دیہہ گھگھر- 6000 ایکڑ
° دیہہ دھابیجی میں انڈسٹریل زون کے لیے 13 ہزار ایکڑ
مقامی لوگوں کے سخت احتجاج کے بعد کچھ اسکیموں ہاکس بے، سورجانی، تائیسر، شاہ لطیف اور اسکیم 33 پر کام روکا گیا۔ گوٹھوں کو چہار دیواری میں محدود کیا گیا۔
اس دوران دو بار پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہوئی لیکن ان اسکیموں کو ختم نہیں کیا گیا۔ صرف مقامی لوگوں کا ایک پرانا مطالبہ ضلع ملیر بنانے کا پورا کیا گیا۔ کراچی ڈولپمنٹ اتھارٹی (K.D.A) کو توڑ کر دو حصوں ملیر ڈولپمنٹ اتھارٹی (M.D.A) اور لیاری ڈولپمنٹ اتھارٹی (L.D.A) کا وجود عمل میں لایا گیا۔ جیسا کہ یہ اسکیمیں ختم نہیں کی گئیں اور کسی نہ کسی طریقے سے ان پر کاغذی کام جاری تھا۔ پرویز مشرف نے جب اقتدار پر قبضہ کیا تو سندھ میں سارے اختیارات متحد ہ قومی موومنٹ (ایم کیوایم) کے حوالے کئے گئے تو ان منصوبوں پر عمل شروع کیا گیا۔ زمین حاصل کرنے کے اختیارات وزیراعلیٰ کے بجائے گورنر کو تفویض کئے گئے۔ جس کے نتیجے میں گزشتہ 15 برسوں میں سورجانی، ہلکانی اور اسکیم 33 کا 80 فیصد مکمل کیا گیا جہاں بڑی تعداد میں لوگوں کو آباد کیا گیا ہے، دوسری جانب شاہ لطیف، نیو ملیر، ہاکس بے اور تائیسر پر کام تیزی سے جاری ہے۔
دیہہ ناگن میں ایک پرائیویٹ ادارے سائبان نے، جس کے روح رواں ایک ریٹائرڈ افسر تسنیم احمد صدیقی ہیں، ’’خدا کی بستی“ کے نام سے ایک رہائشی اسکیم مکمل کی ہے، جہاں شہر کے مختلف علاقوں سے 25 ہزار لوگوں کو آباد کیا گیا ہے۔
لیاری ایکسپریس وے کے متاثرین کو گڈاپ ٹاؤن کے دیہہ ناگن اور کیاماڑی ٹاؤن کے دیہہ لال بکھر میں آباد کیا گیا ہے۔ ان متاثرین میں مقامی لوگوں کو 50 ہزار فی گھر دے کر اٹھایا گیا جب کہ ندی کے اندر قبضہ کرنے والوں کو وفاقی حکومت کی نگرانی میں گڈاپ ٹاؤن میں آباد کیا گیا ہے، جن کی تعداد ایک لاکھ سے اوپر ہے۔ 3000 ایکڑ پر مشتمل اس رہائشی آبادی کو گیس، بجلی، پانی، سڑک، اسکول اور صحت کی سب بنیادی سہولتیں مہیا کی گئی ہیں۔ اس آبادی میں تین قدیم گوٹھ ہیں، انہیں آج بھی کوئی سہولت فراہم نہیں ہے۔ ان قدیم لوگوں کو قبضہ گروپ قرار دے کراٹھانے کے لیے نوٹس دیئے گئے ہیں۔ یہ گوٹھ قیام پاکستان سے قبل یہاں آباد ہیں۔اس اسکیم کی آڑ میں بڑی تعداد میں لیاقت آباد ٹاؤن، گلشن اقبال ٹاؤن، نارتھ کراچی ٹاؤن کے دیگر لوگوں کو بھی متاثرین قرار دے کر آباد کیا جار ہا ہے۔ لیاری ایکسپریس وے کا کام ایک طرف ایک سال سے مکمل ہے لیکن متاثرین کی آبادکاری تا حال جاری ہے۔ اس اسکیم میں 50 فیصد سرکاری افسروں کے رشتہ داروں اور دوسری جگہوں سے آنے والے لوگوں کو آباد کیا گیا ہے۔ دیہہ کھدیجی میں سپر ہائی وے کے نزدیک لکی سیمنٹ فیکٹری کو 750ا یکڑ زمین دی گئی ہے۔ یہ پوری زمین مقامی لوگوں کی لیز شدہ تھی، جہاں وہ بارانی طریقے سے کاشت کاری کرکے روز گار کرتے تھے۔ اس وقت فیکٹری میں صرف ایک فیصد مقامی مزدور ہیں۔ باقی 99 فیصد مزدور باہر کے ہیں۔ ٹریٹمنٹ پلانٹ نہ ہونے کی وجہ سے آس پاس کی آبادی دھول مٹی کے باعث مختلف بیماریوں میں مبتلا ہے۔ دیہہ ڈانڈو میں پاک لینڈ سیمنٹ فیکٹری بھی مقامی لوگوں کی لیز شدہ زمین پر قائم ہے۔ جس کے لئے 500 ایکڑ زمین حاصل کی گئی ہے۔
اب کچھ ذکر کراچی کے اسٹریٹجک پلان کا، جسے شہری حکومت نے 2020 Vision کا نام دیا تھا۔ یہ پلان کراچی کی شہری حکومت کی طرف سے شروع کیا گیا جس کے لیے گڈاپ اور کیاماڑی ٹاؤن کے 28 دیہوں پر پلان کیا گیا۔ کراچی شہری حکومت کے مطابق اس وقت کراچی شہر کی آبادی 15.01 ملین ہے جو دس برسوں میں 27.55 ملین ہو جائے گی۔ اس بے پناہ اضافے کی وجہ کہیں بھی بیان نہیں کی گئی ہے۔ یہ منصوبہ اس وقت کے سٹی ناظم مصطفیٰ کمال کی طرف سے دیا گیا تھا جس کے لیے ہاکس بے سے لے کر ضلع جام شورو تک نیا شہر تمیر کرنا تھا۔
شہری حکومت کے مطابق وژن 2020 کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ نارتھ کراچی، لیاقت آباد اور جمشید ٹاؤنز میں لوگوں کی اکثریت رہتی ہے، انہیں دوسری جگہ گڈاپ ٹاؤن میں منتقل کرنا ہے، جس کے لیے گڈاپ ٹاؤن کے علاقے میں 20 لاکھ گھر بنانے کا پلان وضع کیا گیا۔ وژن 2020 کے مطابق کراچی کی ہول سیل مارکیٹ اور الیکٹرانک مارکیٹ کے لیے 3000 ایکڑ زمین، اسمال انڈسٹریل زون کے لئے 9000 ایکڑ زمین، بس اڈوں اور قبرستانوں کے لئے 5000 ایکڑ، ایجوکیشن سٹی کے لیے دیہہ چوہڑ میں 9000 ایکڑ زمین حاصل کی گئی ہے۔ اس پلان کے تحت گڈاپ ٹاؤن میں دو نئے ایئر پورٹ بھی بنائے جائیں گے۔
ملیر ڈولپمنٹ اتھارٹی اور شہری حکومت کی جانب سے اس پلان پر تیزی سے کام شروع کیا گیا، جس کے تحت ایک جانب گڈاپ شہر دوسری جانب حب ندی تک ایک نئی کراچی بنانے کا منصوبہ ہے۔
وژن 2020 کے پلان کے بعد گڈاپ، بن قاسم اور کیاماڑی ٹاؤن جو سندھی اور بلوچ اکثریتی علاقے ہیں، ان کی آبادی میں آنے والے دس برسوں میں درج ذیل تناسب سے اضافہ ہوگا
1۔ گڈاپ ٹاؤن، جس کی آبادی اس وقت 439674 ہے، آنے والے دس برسوں میں اس میں 60 فیصد اضافہ ہوگا۔
2- بن قاسم ٹاؤن، جس کی آبادی اس وقت 4808540 ہے، آنے والے دس برسوں میں 348 فیصد اضافہ ہوگا۔
3- کیاماڑی ٹاؤن، جس کی آبادی اس وقت 58364 ہے، آنے والے دس برس برسوں میں 230 فیصد اضافہ ہوگا۔
اس تناسب سے آئندہ دس برسوں میں تینوں ٹاؤنز میں 65 لاکھ لوگوں کا اضافہ ہوگا، جو 100 فیصد باہر کی آبادی ہوگی، جس سے 8 لاکھ مقامی لوگ بے روزگار ہوں گے۔ زرعی زمینوں کے ہتھیانے کے باعث نقل مکانی پر مجبور ہونگے.
جاری ہے