انگریز دور میں سال 1865ء میں شہر میں پانی کی قلت کے باعث میونسپل کمیشن نے ایک قرار داد کے ذریعے حکومت سے مطالبہ کیا کہ میونسپلٹی کو قرض دیا جائے، تاکہ دریائے سندھ سے ایک نہر کھود کر پانی کراچی تک لایا جاسکے۔ برطانوی حکومت نے قرض دینے سے انکار کردیا مجبور ہوکر میونسپل حکام نے تاجروں سے قرض کی اپیل کی
اس کے جواب میں انہوں نے ’’ٹرانزٹ ڈیوٹی‘‘ کے خاتمے کا مطالبہ کیا۔ میونسپلٹی کی آمدنی کا انحصار ’’ٹرانزٹ ڈیوٹی ‘‘ پر تھا۔ 1865ء سے 1866ء تک تاجروں اور میونسپلٹی حکام سے مذاکرات کے کئی دور ہوئے، جو ناکام رہے، جس کے باعث یہ منصوبہ تعطل کا شکار ہوگیا۔
1854 سے 1867ء تک آبی ماہرین کی طرف سے پانی کی فراہمی کے لیے حکومت کو تجاویز دی گئیں۔ 1854ء میں کراچی میں پینے کے پانی کی فراہمی کے لیے میونسپلٹی نے چار انجینئرز کی خدمات حاصل کیں۔
ان میں کیپٹن ڈیلائیل ، کرنل میری میسن، جیمز اسٹریچن اور فورسٹ برنٹ شامل تھے۔ ڈیلائیل نے 1856 ء میں پہلی بار ملیر ندی سے پانی لانے کا منصوبہ تیار کیا تھا۔ انہوں نے 13 انچ قطر کی لائنوں کے ذریعے پانی پہنچانے کا منصوبہ پیش کیا تھا. 1873ء میں کرنل میری میسن نے اپنی رپورٹ میں 15 لاکھ 25 ہزار روپے کے خرچ سے 60 ہزار کی آبادی کے لیے 1200 گیلن فی منٹ پانی روزانہ کا منصوبہ پیش کیا۔ یہ منصوبہ بھی سرخ فیتے کی نذر ہوگیا۔
1880ء میں انجینئر جیمز اسٹریچن نے دوبارہ یہ منصوبہ اپنے ذمے لیا۔ اسٹریچن کے دوسرے منصوبے میں آٹھ گیلن فی فرد روزانہ کے حساب سے 850000روپے کا منصوبہ پیش کیا گیا، جو منظور کرلیا گیا۔اس نے پہلے پتھر کا ایک چوکور حوض بنوایا۔
پانی کی تقسیم کے لیے جٹ لین والی جگہ پر حوض بنوایا گیا۔ 18 فروری 1880ء میں بمبئی کے گورنر ’’رچرڈ ٹیمپل‘‘ نے اس کا سنگ بنیاد رکھا۔ ان کے نام کی مناسبت سے حوض کا نام ’’ٹیمپل حوض‘‘ رکھا گیا۔ اس منصوبےپر کل 854973 روپے لاگت آئی اور یہ رقم میونسپلٹی نے ادا کی تھی۔ حوض کا افتتاح سندھ کے جیوڈیشل کمشنر ’’ایچ ایم برڈوڈ ‘‘ نے 21 اپریل 1883ء کو کیا تھا. اس میں 20 لاکھ گیلن پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش تھی۔
1896ء میں جٹ لین میں ایک دوسرا حوض ’’کوری حوض‘‘ بنایا گیا جس میں 30 لاکھ 30 ہزار گیلن پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش تھی۔
تیسرا ’’سنڈنہم حوض‘‘ 1912ء میں خداداد کالونی میں تعمیر کیا گیا.
میونسپلٹی نے 1867ء میں کچھ دیگر ماہرین کی خدمات حاصل کیں۔ انہوں نے جو اسکیمیں پیش کیں ان کی تفصیل ذیل میں پیش کی جارہی ہے:
کیپٹن بیکر نے ملیر ندی سے 13 میل (میمن گوٹھ اور جام گوٹھ کے نزدیک) تک پانی حاصل کرنے کا منصوبہ پیش کیا، جس پر اخراجات کا تخمینہ 1 لاکھ 86 ہزار 760 روپے لگایا گیا تھا، جس سے 70 گیلن پانی روزانہ شہر کو پہنچانے کا منصوبہ تھا۔مسٹر ہال نامی انجینئر نے بھی کم لاگت میں پانی کے حصول کی ایسی ہی اسکیم پیش کی جس کے مطابق اخراجات کا تخمینہ 1لاکھ 10ہزار 803روپے لگایا گیا۔
مسٹر ڈیلائیل نے دو اسکیمیں پیش کیں، جو ملیر ندی کی ڈملوٹی والی جگہ سے شہر سے 16 میل دور پانی پہنچانے کے بارے میں تھیں۔ ایک اسکیم پر 327000اور دوسری اسکیم پر 10لاکھ روپے اخراجات کا تخمینہ لگایا گیا تھا۔
ان دونوں اسکیموں سے کراچی شہر کو 12لاکھ 15ہزار گیلن پانی روزانہ ملنے کا منصوبہ بنایا گیا تھا۔
ایک اور انگریز انجینئر مسٹر برنٹن نے ڈملوٹی کے مقام سے شہر سے 23 میل دور پانی کی فراہمی کا منصوبہ پیش کیا جس پر اخراجات کا تحخمینہ 20لاکھ روپے لگایا گیا تھا، جس سے20لاکھ 52ہزار گیلن پانی روزانہ شہر کو ملنے کی نوید سنائی گئی تھی۔
مسٹر فائف نامی انجینئر نے ملیر ندی سے دس میل کے فاصلے پر اسکیم کا منصوبہ پیش کیا جس پر اخراجات کا تخمینہ 32400 روپے لگایا گیا تھا۔ اس سے 6لاکھ گیلن یومیہ پانی ملنے کی خوش خبری دی گئی تھی۔
ایک مقامی انجینئر ، مراد خان درانی نے فراہمی آب کی دو اسکیمیں پیش کیں۔ اس میں سے پہلی اسکیم پر اخراجات کا تخمینہ 10لاکھ 31ہزار روپے لگایا گیا تھا، جس سے 23لاکھ گیلن پانی روزانہ شہر کو پہنچایا جاتا۔ دوسرے منصوبے پر 16لاکھ روپے کا تخمینہ لگایا گیا تھا۔
مسٹر نیو نہام کی طرف سے 100 میل دور دریائے سندھ سے لوہے کے پائپ کے ذریعے کراچی شہر کو پانی کی فراہمی کا منصوبہ پیش کیا گیا، جس پر اخراجات کا تخمینہ 90لاکھ روپے لگایا گیا تھا۔
ان تمام اسکیموں میں سے مسٹر برنٹن اور مسٹر مراد خان کی پیش کردہ اسکیمیں قابل عمل قرار دی گئیں۔
اس طرح کراچی کو جدید طریقے سے پینے کا پانی مہیا کرنے کے لیے ملیر ندی کے نزدیک ڈملوٹی کے علاقے میں میونسپلٹی کے انجینئر ، جیمز اسٹریچن نے 1884ء میں شہر سے 18 میل دور ’’ملیر بنگلے‘‘ کے قریب کنوئیں کھودنے کی ابتدا کی، جو پہلے اور دوسرے کنوئیں کے طور پر مشہور ہیں، جو حوض کم اور کنوئیں زیادہ لگتے ہیں ۔ پانی پہلے کنوئیں اور پھر دونوں حوضوں میں آتا تھا۔ یہاں سے ٹیمپل حوض میں پانی پہنچایا جاتا تھا۔ مذکورہ بالا دونوں کنوؤں کی گہرائی ابتدا میں 38فٹ تھی۔
ان کے پیندے سے دو فٹ کے فاصلے سے 2 انچ قطر کی پائپ لائن کے ذریعے پانی کی سپلائی شروع کی گئی تھی۔ یہ پائپ سنگی حوض میں آکر ملتے تھے، جہاں سے ساڑھے 16 میل طویل فاصلے پر پانی ٹیمپل حوض تک پہنچایا جاتا تھا۔
1896ء میں بارش کم ہونے کی وجہ سے فوریسٹ برنٹن نے اپریل 1900ء میں ڈملوٹی میں 5533 روپے اخراجات سے تیسرا ، 1901ء میں 4358روپے کے اخراجات سے چوتھا کنواں کھدوایا۔ 1912ء میں سپرنٹنڈنگ انجینئر، ڈاسن کی سفارش پر ڈملوٹی میں 37 فٹ گہرا 35فٹ چوڑا پانچواں کنواں کھودا گیا جس پر 39932روپے کی لاگت آئی۔ اس کنوئیں سے 2400 گیلن فی منٹ پانی حاصل کیا جاتا تھا۔
ڈملوٹی کے مقام پو مزید کنوؤں کا منصوبہ اور ڈیزائن اسٹریچن نے تیار کیا تھا۔ برنٹن اور انجینئر مشام لی نے یہ منصوبہ مکمل کیا۔ 1929ء میں چھٹا ، 1933ء میں ساتواں، 1936ء میں آٹھواں اور 1937ء میں نواں کنواں کھودا گیا۔ ۔ 1937 تک اس پورے منصوبے پر 16089000روپے اخراجات آئے تھے۔ 1938ء میں دسواں، 1940ء میں دو کنوئیں A-11 اور -B-11مکمل کیے گئے۔ ڈملوٹی کے پہلے کنوئیں کے افتتاح سے لے کر مختلف اوقات میں ملیر انسپیکشن بنگلے پر موجودلنک روڈ کے پار ملیر ندی کے کنارے کل 12 کنوئیں کھودے گئے، جہاں پتھر کی پختہ گیلری اور بعد ازاںلوہے کے پائپوں کے ذریعے کراچی کو پانی پہنچایا جاتا تھا۔
ان تمام کنوئوں کو پکی اینٹوں سے پختہ کیا گیا۔ خام تیل سے چلنے والے انجنوں کے ذریعے ان کا پانی باہر نکالا جاتا تھا۔ یہ انجن ایک بڑے کمرے میں بند ہوتے تھے۔ ان پر انتہائی خوب صورت کمرہ تعمیر کیا گیا تھا جو آج بھی دیکھنے والوں کا دل موہ لیتا ہے۔ ڈملوٹی کے کنوئوں کی تعمیر اس دور کی انجینئرنگ کا بے مثال کارنامہ ہے۔ یہ آج بھی قابل دید ہیں۔ کنوئوں کے اوپر باریک جالی لگائی گئی ہے تاکہ پہاڑ سے تنکے، پتے اور کچرا کنوئیں میں نہ گرے۔ آج یہ سب کنوئیں بند ہوچکے ہیں۔ صرف دو کنوئیں، کنواں نمبر B-1 اور کنواں نمبر 6 چل رہے ہیں۔ ڈملوٹی اسکیم کے نام سے یہ کنوئیں اس وقت کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈکے انتظام ہیں۔
تین کنوئیں ملیر ندی کے ریلے میں بہہ گئے۔ ان کنوئوں کے افتتاح سے تاحال اس اسکیم کے قریب جو گوٹھ ہیں، انہیں اس اسکیم سے پانی نہیں دیا گیا۔ آج بھی ان کنووں سے 10لاکھ گیلن پانی ملیر کینٹ اور کاٹھوڑ میں واقع ابوظہبی کے فارم کو دیا جاتا ہے۔ اگر باقی ماندہ کنوئوں کو مزید تباہی سے بچا کر ان کی دوبارہ صفائی کی جائے تو میمن گوٹھ جیسی بڑی آبادی سمیت 50کے لگ بھگ گوٹھوں کو اس اسکیم سے پینے کا پانی دیا جاسکتا ہے۔ ان تمام کنوؤں، ان پر بنی عمارات، اور ملیر ندی سے آنے والی گیلریوں کو قومی ورثہ قرار دے کر محفوظ کرنے کی ضرورت ہے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ