کینیڈا: ایک اور سابقہ قبائلی اسکول میں اجتماعی قبریں دریافت

ویب ڈیسک

اوٹاوا: کینیڈا میں قبائلی افراد کے گروپ فرسٹ نیشن نے جنوبی شہر ساسکیچیوان میں ایک اور سابق مقامی رہائشی (بورڈنگ) اسکول میں سینکڑوں نامعلوم افراد کی قبروں کا پتہ لگایا ہے

تفصیلات کے مطابق مقامی میڈیا نے بدھ کے روز بتایا ہے کہ کینیڈا میں ایک سابق بورڈنگ اسکول میں ایسی اجتماعی قبریں دریافت ہوئی ہیں، جن میں سینکڑوں قبائلی بچوں کی لاشیں دفن تھیں۔

واضح رہے کہ اس تازہ انکشاف سے قبل گزشتہ ماہ برٹش کولمبیا صوبے میں بھی مقامی آبادی کے ایک سابق بورڈنگ اسکول سے 215 بچوں کی باقیات ملی تھیں۔ ان میں سے بعض بچے تین برس کے تھے، اس انکشاف نے پوری دنیا کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا. کینیڈا کے وزیر اعظم نے اسے کینیڈا کی تاریخ کا سیاہ باب اور دھبہ قرار دیا تھا

کینیڈا میں قبائلی افراد کی نمائندگی کرنے والی تنظیمیں کاوسیسیز فرسٹ نیشن اور کینیڈا کے فیڈریشن آف ساورین انڈیجینس فرسٹ نیشن (ایف ایس آئی این)کے اراکین نے کہا ہے کہ یہ قبریں ساسکچیوان صوبے میں سابق مارییویل انڈین ریزیڈینشیئل اسکول میں دریافت ہوئی ہیں۔

ایک بیان میں کہا گیا ہے، ”جتنی بڑی تعداد میں نامعلوم قبریں دریافت ہوئی ہیں وہ کینیڈا میں آج تک کی تاریخ میں سب سے بڑی تعداد ہے۔”

یہ سابقہ بورڈنگ اسکول، جس سے اجتماعی قبریں دریافت ہوئی ہیں، 1899 سے 1997کے درمیان تک چل رہا تھا۔ یہ ساسکچیوان کے دارالحکومت ریگینا سے مشرق میں تقریباً ایک سو چالیس کلومیٹر دور وہیں واقع ہے، جہاں آج کل کاوسسیز آباد ہیں

فرسٹ نیشن نے 1970ع میں اسکول کے قبرستان کا کنٹرول اپنے ہاتھوں میں لیا تھا۔ جس کے بعد سے وہ تمام سابقہ قبائلی رہائشی اسکولوں میں ممکنہ اجتماعی قبروں کا پتہ لگا رہی ہے

کیملوپس اسکول، جہاں گزشتہ ماہ اجتماعی قبریں ملی تھیں، کی طرح ہی مارییویل اسکول بھی عیسائی کیتھولک چرچ کی نگرانی میں چل رہا تھا۔ یہ مقامی آبادی کے اسکول کینیڈا کی پرتشدد تاریخ کا حصہ رہے ہیں، جہاں بچوں کو ان بورڈنگ اسکولوں میں جبراً رکھا جاتا تھا

کینیڈا میں سن 1840ء سے لے کر سن 1996ء کے دوران حکومت اور مذہبی اداروں کی زیر نگرانی قائم بورڈنگ ہاؤس اسکولوں کی تعداد ایک سو سے زائد تھی۔ سارے کینیڈا میں ڈیڑھ لاکھ سے زائد بچوں کو تعلیم دینے کے نام پر والدین سے جدا کیا گیا اور انہیں بورڈنگ ہاؤس اسکولوں میں منتقل کر دیا گیا۔ اس کا مقصد مقامی قدیمی آبادی کے بچوں اور آباد کاروں کے بچوں میں یورپی نو آبادیاتی کلچر اور عیسائی مذہب کا فروغ تھا

ان بورڈنک اسکولوں میں تشدد اور جنسی زیادتیاں عام تھیں۔ اس دوران بچوں کو زبردستی مسیحی مذہب اپنانے پر مجبور کیا جاتا تھا۔

یاد رہے کہ کینیڈا کی حکومت نے سن 2008ع میں اس غیر انسانی سلوک کے لیے باضابطہ معافی بھی مانگی تھی

اُس دور میں بچوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک پر یونائیٹڈ، پریسبیٹیرین اور اینجلیکن چرچ بھی معذرت پیش کر چکے ہیں۔ تاہم ابھی تک کیتھولک چرچ نے نادم ہوئے بغیر اپنے لب سی رکھے ہیں.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close