ہر سال بہت بڑی تعداد میں طالب علم اسکالرشپس کےلیے اپلائی کرتے ہیں۔ بہت سے لوگوں کو اسکالرشپ مل جاتی ہے اور اکثریت کو نہیں ملتی۔ اس بار بھی بہت سے نتائج آگئے ہیں اور میرے اردگرد بہت سارے دوست پریشان ہیں۔ یہ تحریر ان سب کے نام ہے۔
سب سے پہلی بات یہ ہے کہ جتنے لوگ بھی اپلائی کرتے ہیں، سب کو اسکالرشپ نہیں مل سکتی۔ کچھ ہی لوگوں کو ملے گی۔ یہ ایسے ہی ہے کہ آپ دوڑ لگاتے ہیں تو جیتتا کوئی ایک ہی ہے لیکن پھر بھی بارہ پندرہ لوگ دوڑ لگاتے ہیں۔ اس ڈر سے رک نہیں جاتے کہ ہم ہار جائیں گے۔ اور جو ایک مرتبہ نہیں جیت پاتے، وہ اگلی مرتبہ اپنی خامیوں کو دور کرکے دوبارہ دوڑ لگاتے ہیں اور کئی مرتبہ ہوا کہ پھر وہ جیت بھی گئے، اس لیے آپ کا عزم آپ کا حوصلہ ٹوٹنے نہ پائے کہ اسکالرشپ نہیں ملی۔ بس اس بار نہیں ملی، کیا معلوم اگلی باری آپ کی ہو۔ لہٰذا محنت اور کوشش جاری رکھیے۔
ہاں یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ کیوں نہیں ہوئی؟ کہاں پر کمی رہ گئی تھی؟ اس کےلیے لازمی ہے کہ جس اسکالرشپ کےلیے اپلائی کریں پہلے لازمی اس اسکالرشپ کے پرانے ونرز سے بات کریں۔ اسکالرشپس کی گائیڈ لائنز پڑھیں، اور پھر جو بھی ضروری باتیں ہیں ان کے مطابق اپنی درخواست دوبارہ سے ترتیب دیں۔ بغیر سوچے سمجھے مناسب منصوبہ بندی کے بغیر ایسے اپلائی کیے جانا بھی مناسب نہیں ہے۔ مثال کے طور پر چین میں جو سائنس کے طالب علم اچھی یونیورسٹیز میں اپلائی کرتے ہیں، وہاں ریسرچ پیپرز کا ہونا بہت ضروری ہے۔ اگر آپ کے پاس نہیں ہیں تو متبادل میں آپ نے کیا تیاری کی ہے؟ کہیں اگر IELTS چاہیے تو صرف پاسنگ بینڈز ہیں آپ کے یا بہت اچھے بینڈز ہیں؟
آپ نے ساری تیاری بہت اچھی کی ہے، پھر بھی ممکن ہے کہ رہ جائیں۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ قابلیت میں کوئی کمی تھی۔ ہوسکتا ہے یونیورسٹی والوں نے محض diversity کےلیے آپ کو چھوڑ دیا ہو۔ لہٰذا خود پر بھروسہ ہر گز نہ ختم ہونے دیجئے۔ یقین کیجیے کہ ساری دنیا آپ کو ہرانا چاہے تو بھی آپ نہیں ہار سکتے لیکن جس دن آپ خود سے ہار گئے، اور آپ نے خود ہی یہ سوچ لیا کہ آپ ایک ناکام انسان ہیں تو ساری دنیا کے انسان مل کر بھی آپ کو کامیاب نہیں کرسکتے۔ اور جب آپ خود سے ہار جائیں گے تو کچھ بھی کرنے کے قابل نہیں رہیں گے۔ لہٰذا اپنی ہمت و حوصلہ جمع رکھیے اور دوبارہ سے پھر کوشش کیجئے۔
ایک اور بات یہ کہ سوشل میڈیا کی کہانیوں پر زیادہ یقین نہ کیا کیجئے۔ یہاں لوگ صرف اپنی جیت کی خوشیاں مناتے ہیں لیکن یہ ہرگز نہیں بتاتے کہ وہ کتنی مرتبہ ناکام بھی ہوئے ہیں۔ بہت ہی کم خوش نصیب ہوں گے جن کا پہلی مرتبہ ہی داخلہ ہوجائے۔ 90 فیصد سے زیادہ لوگوں کو ایک مرتبہ یا اس سے بھی زیادہ مرتبہ مسترد کیا جاچکا ہوتا ہے، پھر کہیں جا کر داخلہ ہوتا ہے۔ میرا ایک دوست بی ایس میں گولڈ میڈلسٹ ہے، برطانیہ سے اس نے امتیازی پوزیشن کے ساتھ ایم ایس کیا (ایسی یونیورسٹی سے جو ٹاپ 50 میں ہے) اس کے باوجود پچھلے دنوں وہ بتا رہا تھا کہ تقریباً 10 جگہ سے ریجکٹ ہوچکا ہے۔ اس کا پروفائل بہترین ہے۔ ایک جاننے والی طالب علم جو 2 بچوں کی ماں بھی ہیں اور خود ہی کما بھی رہی ہیں، تین سال سے کوششیں کر رہی تھیں اور سچی بات یہ ہے کہ وہ اتنے برے حالات میں کوشش کررہی تھیں کہ میرے پاس تو انہیں حوصلہ دینے کے الفاظ نہیں ہوتے تھے۔ ان کا انتخاب اس مرتبہ ہوا۔
بتانا یہ تھا کہ ہم سارے لوگ ہی گرتے پڑتے یہاں تک آئے ہیں اور اگر آپ کو بھی کوئی ٹھوکر لگ گئی ہے تو پریشان نہیں ہونا۔ بس اٹھیے اور پہلے سے بہتر تیاری سے پھر کوشش کیجئے۔
بہت سے لوگ تو بس اس فکر میں ہوتے ہیں کہ کہیں gap نہ آجائے۔ گیپ آ بھی گیا تو کیا ہوگا؟ میرے ایف ایس سی سے بی ایس میں داخل ہونے میں ایک سال کا گیپ ہے، اسی طرح بی ایس کے بعد ایم ایس میں داخل ہونے میں ایک سال کا گیپ ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑا بلکہ الٹا مجھے فائدہ ہی ہوا۔ گیپ کئی مرتبہ تو جان بوجھ کر لے لینا چاہیے، تاکہ آپ ایک سال میں اپنا پروفائل زیادہ بہتر بناسکیں۔ جو کچھ کمیاں رہ گئی تھیں انہیں دور کرسکیں۔ کسی جگہ کوئی ساف ویئر استعمال ہوتے ہیں، وہ سیکھیے۔ انگلش صحیح نہیں ہے، اسے بہتر بنائیے۔ کسی مضمون کی تیار میں مشکل ہے تو آن لائن کورسز کیجئے۔
اپنے لیے ایک سے زیادہ آپشن رکھیے، کم از کم تین تو ہونے چاہئیں۔ شاید ایک جگہ نہ ہوا تو دوسری جگہ ہوجائے۔ اگر گنجائش ہو تو پاکستان میں بھی کسی یونیورسٹی میں داخلہ لے لیجئے تاکہ آپ کو وقت ضائع کرنے کا زیادہ خوف نہ ہو۔ اسی طرح اگر مالی مسائل ہیں تو کہیں چھوٹی موٹی نوکری کرلیجئے جس سے تھوڑا بہت خرچہ نکلتا رہے اور گھر والے باتیں نہ سنائیں۔
خیر ساری کہانی کا نتیجہ یہ ہے کہ یہ جنگ آپ کی ہے اور آپ نے ہی لڑنی ہے، لہٰذا خود پر بھروسہ رکھیے۔ خود سے نہ ہاریں۔ بار بار کوشش کیجئے، لوگوں کی باتوں پر کان نہ دھریں اور اپنے آپ کو مسلسل بہتر بنانے کی کوشش میں لگے رہیں۔ آج کا دن آپ کےلیے اگر برا ہے تو شاید کل کا دن اچھا ہو۔ بس اتنا سا انتظار کرنا ہے۔
نوٹ : مضمون کے لکھاری کامران امین کا تعلق باغ آزاد کشمیر سے ہے اور وہ اس وقت بیجنگ میں ممتاز CAS-TWAS فیلوشپ پر نیشنل سینٹر فار نینو سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، چائنیز اکیڈمی آ ف سائنسز سے میٹیریلز سائنسز (Materials Scineces) میں پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔ چین میں تعلیمی زندگی اور تعلیم سے متعلقہ موضوعات پر لکھنے سے دلچسپی ہے اور ساتھ ساتھ گزشتہ تین سال سے بلامعاوضہ پاکستانی طلبہ کو چین میں اسکالرشپ حاصل کرنے کےلیے مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر رہنمائی بھی فراہم کر رہے ہیں۔ ان سے فیس بک آئی ڈی kamin.93اور ٹوئٹر ہینڈل @kamraniat پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔
بشکریہ ایکسپریس اردو