اتنے میں وہاں ایک پولیس اہلکار بھی پہنچ گیا۔ اسے دیکھ کر مجھے امید کی کرن نظر آنے لگی۔ وہ پولیس اہلکار مجھے مشتعل لوگوں سے بچانے کی کوشش کرنے لگا۔ لوگوں نے اسے اردو میں کچھ بتایا، تو وہ انہیں سمجھانے کی کوشش کرنے لگا۔ اس نے لوگوں کو بتایا کہ اس شخص کے پاس ابھی بھی پستول موجود ہے۔ یہ سن کر لوگ پیچھے ہٹنے لگے۔ اب میرے ساتھ کار میں ایک پولیس اہلکار بھی تھا۔ اس نے مجھے تسلی دیتے ہوئے کہا کہ سب ٹھیک ہو جائے گا لیکن ہوا یہ کہ وہ بہانے سے میرا پستول لے کر رفوچکر ہو گیا۔ اتنی دیر میں وہاں پنجاب رینجرز پہنچ گئی اور انہوں نے مجھے تھانہ انارکلی پہنچا دیا۔ یہاں پولیس اہلکار محمد اور رینجرز مجھے ایک کمرے میں لے گئے۔ وہاں پولیس افسران نے مجھ سے پنجابی، اردو اور انگریزی میں سوالات کرنے شروع کر دیئے۔ میں نے اپنا بیج نکالا اور انہیں دکھاتے ہوئے کہا کہ میں امریکن قونصلیٹ جانا چاہتا ہوں۔ پولیس آفیسر کا لہجہ بلند ہو گیا لیکن اس کمرے کی صورت حال باہر انارکلی کی صورت حال سے پھر بھی بہتر تھی۔ میں نے ہاتھ کے اشارے سے اسے بتایا کہ مجھے پیاس لگی ہے۔ ایک شخص نے مجھے کہا کہ پیسوں کے بنا پانی نہیں ملے گا۔ انہوں نے میرے سامان کی تلاشی لی اور مجھے بتایا کہ یہاں میری موجودگی میرے لئے خطرناک ثابت ہو سکتی ہے لہٰذا وہ مجھے کسی محفوظ مقام پر منتقل کرنے کا انتظام کرتے ہیں۔ انہوں نے میرے سر پر کمبل لپیٹا اور مجھے وہاں سے باہر لے آئے۔ جب میرے سر سے کمبل ہٹایا گیا تو میں پاکستانی فوج کے ایک کیمپ میں تھا۔ وہاں موجود آفیسر میری طرف دیکھ کر مسکرایا اور کہا کہ تم نے ایک مشکل دن گزارہ ہے۔ ایک اور کہنے لگا ’’سر آپ توبہت اچھے شوٹر ہیں اور آپ کے پاس بہت اعلٰی معیار کی تربیت ہے‘‘ میں نے اس کی بات سے اتفاق کیا۔ اس کے بعد میں نے انہیں اس روز کی ساری داستان سنائی۔
اس رات میں محض پندہ منٹ ہی سو سکا۔ اپنے تحفظ کے حوالے سے میں شدید تشویش کا شکار تھا۔ اس کی وجہ یہ بھی تھی کہ جو گارڈ میری نگرانی پر متعین تھا اس نے اپنی پستول نکال کر ہاتھ میں پکڑی ہوئی تھی۔
جیسے ہی صبح ہوئی میں نے سکون کا سانس لیا۔ گارڈ نے مجھے عدالت میں پیشی پر لے جانے کے لئے اٹھایا۔ مجھے بتایا گیا کہ ناشتہ کے لئے مجھے میکڈونلڈ لے جایا جا رہا ہے۔ ناشتہ کے دوران میں نے مقامی چینل پر اس واقعہ اور اپنے خلاف فوٹیج دیکھیں جن میں لوگ احتجاج کر رہے تھے اور مجھے سزائے موت دینے کا مطالبہ کیا جا رہا تھا۔ اس دوران میری نگرانی پر موجود لیفٹیننٹ نے مجھے بتایا کہ جن دو افراد کو میں نے گولی ماری تھی وہ ہلاک ہو گئے ہیں اور ان میں سے ایک نوجوان کی بیوی نے رات زہر کھا کر خودکشی کر لی ہے۔ اس نے کہا کہ ان تمام اموات کے ذمہ دار تم ہو۔ مجھے لگا کہ لیفٹیننٹ میرا ردعمل دیکھنا چاہتا ہے لہٰذا میں نے کوئی جواب نہ دیا اور خود کو پُر اعتماد ظاہر کرنے لگا۔
مجھے ہتھکڑی لگا کر عدالت میں پیش کیا گیا۔ کمرۂ عدالت لوگوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا اور وہاں میں واحد امریکی تھا۔ وہاں میری پیروی کرنے والا بھی کوئی نہ تھا۔ یہاں تک کہ امریکن قونصلیٹ کی جانب سے بھی کوئی نمائندہ نہ آیا۔ جج نے تفصیلات دریافت کیں تو ڈی ایس پی کاظمی نے مزنگ چونگی کا واقعہ بیان کیا۔ یہ وہی سب تھا جو میں نے پولیس کو بیان میں بتایا تھا۔ ڈی ایس پی کاظمی کے اس بیان سے مجھے حوصلہ ہوا کہ پولیس حقائق تک پہنچنے کی کوشش کر رہی ہے۔ پراسیکیوٹر نے مجھ سے سوال کیا کہ کیا میں اردو جانتا ہوں۔ مجھے اردو کے محض چند الفاظ ہی آتے تھے لیکن پراسیکیوٹر یہ ظاہر کرنے کی کوشش کر رہا تھا کہ میں اردو جانتا ہوں اور درحقیقت ایک جاسوس ہوں۔ عموماً یہ سمجھا جاتا ہے کہ جاسوس کو مقامی زبانوں سے آگہی ہوتی ہے۔ یہی بات ظاہر کرنے کے لئے پراسیکیوٹر نے جج سے اردو میں گفتگو شروع کر دی جس پر میں نے اعتراض کیا کہ مجھے صرف انگریزی آتی ہے، لہٰذا میں کمرۂ عدالت کی کارروائی سمجھنے سے قاصر ہوں۔ اس کے بعد مجھے معلوم ہوا کہ میں نے جن لڑکوں کو گولی ماری تھی وہ پولیس ریکارڈ یافتہ تھے اور متعدد بار گرفتار ہو چکے تھے۔ اس واقعہ کے بعد بھی ان کے قبضہ سے ناجائز اسلحہ اور چوری شدہ موبائل برآمد ہوئے تھے۔ اس کے باوجود پراسیکیوٹر نے مجھے مجرم ثابت کرنے کی پوری کوشش کی اورجج نے مجھے چودہ روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا۔
پولیس نے مجھے عدالت سے کینال روڈ پر واقع پولیس ٹریننگ سینٹر منتقل کر دیا۔ یہاں درجنوں اہلکار حفاظت پر مامور تھے جو کلاشنکوف سے مسلح تھے۔ مجھے یہاں ایک چھوٹے سے کمرے میں رکھا گیا، کئی گھنٹوں بعد ایک پولیس اہلکار نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے’’ انٹرویو ‘‘کا لفظ بولا۔ مجھے لگا کہ اب مجھ سے مزید تفتیش کی جائے گی۔ وہ اہلکار مجھے اس کمرے سے نکال کر ایک بڑے کمرے میں لے گیا۔ یہاں مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ قونصلیٹ جنرل لاہور کی ایک ٹیم مجھ سے ملنے آئی ہوئی تھی۔ اس ٹیم میں قونصلیٹ جنرل کارمیلا بھی شامل تھی۔ ان سے میری پہلے بھی کئی بار ملاقات ہو چکی تھی۔ قونصلیٹ کی ٹیم میں شامل میڈیکل ٹیم کے رکن نے میرا طبی معائنہ کیا۔ اس دوران میں نے ٹیم پر واضح کر دیا کہ مجھ پر کسی قسم کا تشدد نہیں کیا گیا، کارمیلا نے مجھے کاپی اور پین تھماتے ہوئے کہا کہ اگر میں اپنی فیملی کو کوئی پیغام بھجوانا چاہتا ہوں تو اس کاپی پر لکھ دوں۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ میری رہائی کے لئے بھی کوشش کی جا رہی ہے.
میرے لئے سب سے زیادہ اذیت ناک بات یہ تھی کہ قونصلیٹ جنرل کی ذاتی دلچسپی کے باوجود مجھے یہ علم نہ تھا کہ میں کب تک پولیس کی حراست میں رہوں گا۔ قونصلیٹ جنرل کی جانب سے میری رہائی کے حوالے سے کوئی واضح تاریخ نہ ملنے پر مجھے یقین ہونے لگا تھا کہ اب مجھے کئی برس تک قید رہنا پڑے گا۔ کسی غیر ملک میں گرفتاری جس قسم کی مایوسی اور بے چارگی کے احساسات کو جنم دیتی ہے ، وہ مجھے محسوس ہونے لگی تھی..
(جاری ہے)