آسٹریلوی کھلاڑیوں کی جوتوں میں شراب پینے کے پیچھی وجہ کیا ہے؟

نیوز ڈیسک

دبئی : اس بار آئی سی سی ٹی ٹوئنٹی کرکٹ ورلڈ کپ آسٹریلیا کے نام رہا، یہ اس ٹورنامنٹ میں اب تک اس کا پہلا اعزاز ہے جبکہ نیوزی لینڈ اس بار بھی حسبِ معمول صرف دل ہی جیت سکی، فائنل نہیں

آسٹریلوی کھلاڑیوں نے فائنل میچ جیتنے کے بعد بھرپور جشن منایا۔ لیکن اس جشن کے دوران کئی لوگوں نے ایک منظر پہلی بار دیکھا، جو ان کے لیے نہ صرف حیرانی کا باعث بنا بلکہ کئیوں نے اس منظر کا مشاہدہ انتہائی کراہت کے ساتھ کیا

یہ منظر فتح کا جشن مناتے ہوئے آسٹریلوی کھلاڑیوں میتھیو ویڈ اور مارکس اسٹوئنس کی جانب سے جوتے میں شراب پینے کا تھا

کئی لوگوں کے لیے ممکنہ طور پر یہ کوئی نئی بات تھی، لیکن درحقیقت ایسا نہیں ہے. ماضی قریب پر نظر ڈالی جائے تو نہ صرف آسٹریلوی کھلاڑی بلکہ دیگر کھیلوں کے کئی فاتح بھی یہ عمل کرتے رہے ہیں

جوتے میں شراب ڈال کر پینے کے عمل کو انگریزی میں ’شوئی‘ (Shoey) کہا جاتا ہے۔ ایک روایت کے مطابق ’شوئی‘ کا آغاز انیسویں صدی میں جرمنی سے ہوا تھا، تاہم اس کے آغاز کے بارے میں کوئی حتمی اور مستند معلومات دستیاب نہیں ہیں اور اسے عام طور پر آسٹریلیا اور آسٹریلویوں سے ہی منسوب کیا جاتا ہے

کسی بڑے اسٹیج پر جوتوں میں شراب ڈال کر پینے کی ابتدا آسٹریلوی کار ریسر ریئال ہیرس نے 2015ع میں ایک مقابلہ جیتنے کے بعد کی۔ تاہم اس وقت اس عمل کو بہت زیادہ توجہ حاصل نہیں ہوئی۔ مگر اسی سال ایک اور آسٹریلوی کار ریسر ڈیوڈ رینالڈز نے ریس میں جیت کے بعد شوئی کو انجام دیا۔ یہ ماضی قریب میں کسی بڑے اسٹیج پر شوئی کی پہلی مثال تھی. اس کے بعد آسٹریلوی موٹو جی پی ریسر جیک ملر عالمی سطح پر شوئی انجام دینے والے ایتھلیٹ بنے۔ انہوں نے 2016ع میں اپنی پہلی موٹو جی پی فتح کے بعد جوتے میں شراب ڈال کر پی تھی

جبکہ جوتے میں شراب ڈال کر پینے یا شوئی کے حوالے سے سب سے مقبول نام آسٹریلوی فارمولا ون ریسر ڈینیئل رکیارڈو کا ہے، جو 2016ع کے بعد سے اب تک متعدد مرتبہ یہ عمل کر انجام دے چکے ہیں.

تب اس حوالے سے، جب ان سے پوچھا گیا تھا، تو ان کا کہنا تھا کہ میں نے اسے شروع نہیں کیا، بلکہ یہ چند ڈھیلے میڈ ہیوز آسٹریلوی تھے، جنہیں میں نے یہ کرتے دیکھا تھا. وہ سرفیز اور مچھیرے ہیں اور صرف ڈھیلے لڑکے ہیں۔ وہ ماہی گیری، سرفنگ اور جو کچھ بھی دنیا کا سفر کرتے ہیں اور اور یہیں سے شوئی کا آغاز ہوا

جب کہ کچھ کا خیال ہے کہ تسمانیہ میں ایک بار کسی کا جوتا کھو گیا، جب وہ جوتا اسے ملا تو اس نے خوشی سے اس میں شراب بھر کر پی لی تھی. یہیں سے اس کریہہ روایت کی ابتدا ہوئی تھی.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button
Close
Close