ایسی بھی کیا جلدی تھی۔۔ قاضی فائز عیسیٰ کی بطور چیف جسٹس تعیناتی کا نوٹیفکیشن تین ماہ پہلے ہی جاری، وجہ کیا ہے؟

ویب ڈیسک

حیران کن طور پر حکومت کی جانب سے سپریم کورٹ کے آئندہ چیف جسٹس کی تعیناتی کا نوٹیفیکیشن وقت سے بہت پہلے ہی کر دیے جانے کے بعد اس اقدام کی وجوہات پر بحث اور تجزیے جاری ہیں اور سوال کیا جا رہا ہے کہ آخر ایسی بھی کیا جلدی تھی؟

حکومتی نوٹیفیکیشن کے مطابق موجودہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے ریٹائر ہونے پر جسٹس قاضی فائز عیسی یہ عہدہ سنبھالیں گے۔ یاد رہے کہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال 16 ستمبر کو ریٹائر ہوں گے

حکومت کی جانب سے یہ نوٹیفیکیشن ایک ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب ایک جانب برسرِاقتدار وفاقی حکومت اور سپریم کورٹ کے درمیان اختلافات عروج پر ہیں تو دوسری جانب خود سپریم کورٹ کے اندر تقسیم کے واضح اشارے مل رہے ہیں

اس کا ایک ثبوت جمعرات کو اس وقت ملا، جب سپریم کورٹ کے دو سینیئر ترین ججوں، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس طارق مسعود، نے فوجی عدالتوں میں شہریوں پر مقدمات کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت کرنے والے نو رکنی بینچ سے علیحدگی اختیار کر لی، جس کی سربراہی چیف جسٹس عمر عطا بندیال کر رہے تھے

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ”میں اس بینچ کو ’بینچ‘ تصور نہیں کرتا۔ میں کیس سننے سے معذرت نہیں کر رہا، میں اس پر مزید بحث نہیں سُن سکتا“

بظاہر ’با اصول‘ سمجھے جانے والے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے سویلینز پر آرمی کورٹس میں مقدمات کے خلاف درخواست پر بینچ کا حصہ نہ بننا خود ان کے بارے میں کئی سوالات کو جنم دیتا ہے

ایسے میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی بطور چیف جسٹس تعیناتی کے قبل از وقت نوٹیفیکیشن ان سوالات کا جواب بھی دیتا ہے

قانون سے جڑے حلقوں کی جانب سے اس اقدام پر تنقید کی جا رہی ہے جبکہ حکومتی بیانات کے مطابق یہ اقدام اس لیے اٹھایا گیا تاکہ موجودہ چیف جسٹس مبینہ طور پر اپنے ’ممکنہ نامکمل سیاسی ایجنڈے‘ کی تکمیل کے سلسلے میں جوڈیشل ایکٹیوزم نہ کرسکیں

قاضی فائز عیسیٰ کی بطور چیف جسٹس تعیناتی کا نوٹیفکیشن تین ماہ پہلے جاری ہونا اور اس کے فوراً بعد ان کا آرمی کورٹس میں سویلینز کے مقدمات کے خلاف درخواست کی بنچ سے الگ ہونا۔۔ ان دونوں معاملات کا آپس میں کیا تعلق ہے۔۔ اس کا جواب وکیل رہنما اعتزاز احسن نے کچھ یوں دیا

سویلین کے کیسز فوجی عدالتوں میں بھیجنے سے متعلق سماعت کے دوران اعتزاز احسن سے جب صحافیوں نے غیر رسمی گفتگو کے دوران جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وقت سے پہلے نوٹیفکیشن جاری ہونے کے بارے میں پوچھا گیا، تو انہوں نے معنی خیز انداز میں کہا ”نامزد چیف جسٹس نے نو رکنی بینچ سے الگ ہو کر اس ’نوٹیفکشن کی لاج‘ رکھی ہے“

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر اور وکیل رہنما چوہدری اعتزاز احسن کا کہنا ہے کہ حکومت کی طرف سے تقریباً تین ماہ قبل ہی جسٹس قاضی فائز عیسی کی بطور چیف جسٹس نامزدگی کا نوٹیفکیشن جاری کرنے کا اقدام انتہائی نامناسب ہے

انھوں نے کہا ”حکومت اپنے تئیں یہ سوچ رہی ہے کہ اس قسم کا نوٹیفکیشن جاری کر کے وہ موجودہ چیف جسٹس کو دباؤ میں لے آئیں گے تاکہ وہ پنجاب میں انتخابات سے متعلق الیکشن کمیشن کی نظرثانی کی درخواست پر فیصلہ نہ سنا سکیں لیکن وہ اس میں کامیاب نہیں ہوں گے“

انھوں نے کہا کہ حکومت کا اقدام ایک بھونڈی حرکت ہے اور ایک ’کلیرکل ایکٹ‘ ہے

سینئر وکیل اور قانونی ماہر نے مزید کہا ”جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی بطور چیف جسٹس تعیناتی کا نوٹیفکیشن جاری کرکے حکومت نے موجودہ چیف جسٹس کو ایک واضح پیغام دیا ہے کہ جن مقدمات کے فیصلے انھوں نے محفوظ کیے ہوئے ہیں جو کہ حکومت سے متعلق ہیں تو وہ اس بارے میں محتاط رہیں“

اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ انیسویں ترمیم کے تحت اب تو آئین کے سکیشن 175 اے میں یہ واضح طور پر لکھ دیا گیا ہے کہ چیف جسٹس کی مدت ملازمت ختم ہونے کے بعد سپریم کورٹ کا سب سے سنئیر جج اگلا چیف جسٹس ہوگا

انہوں نے کہا کہ اگلا چیف جسٹس صرف اسی وقت اس عہدے پر براجمان ہوگا، جب وہ اپنے عہدے کا حلف لے گا

اعتزاز احسن کا کہنا ہے کہ جب یہ آئین میں نہیں لکھا گیا تھا تو سنہ 1998 میں سپریم کورٹ کے دس رکنی لارجر بینچ نے اسد علی کیس میں یہ اصول طے کردیا تھا کہ چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ کے بعد سپریم کورٹ کا سب سے سنئیر جج پاکستان کا چیف جسٹس ہوگا

سپریم کورٹ کے معاملات پر گہری نظر رکھنے والے صحافی ناصر اقبال کا کہنا ہے کہ حکومت کی طرف سے نامزد چیف جسٹس کی تعیناتی کا نوٹیفکیشن تین ماہ پہلے جان بوجھ کر جاری کیا گیا ہے۔ حکومت کی یہ کوشش ہے کہ موجودہ چیف جسٹس کی اتھارٹی کو ختم کیا جائے

انھوں نے کہا کہ عام شہریوں کے مقدمات فوجی عدالتوں میں بھیجنے کے خلاف درخواستوں کی سماعت شروع ہوتے ہوئے نامزد چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے نو رکنی بینچ سے الگ ہونے سے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ وہ اس بینچ کو تسلیم نہیں کرتے

ناصر اقبال کا کہنا تھا کہ جسٹس عمرعطا بندیال کو جب چیف جسٹس نامزد کیا گیا تھا تو ان کی نامزدگی کا نوٹیفکیشن ان کے حلف لینے سے پندرہ روز قبل جاری کیا گیا تھا

انھوں نے کہا ’وقت سے پہلے کسی کی نامزدگی کا نوٹیفکیشن جاری کرنے سے ڈسپلن خراب ہوتا ہے اور جس کی نامزدگی کا نوٹیفکیشن جاری کیا جاتا ہے وہ کمانڈنگ پوزیشن پر آجاتا ہے اور لوگ ان کی طرف دیکھنا شروع کر دیتے ہیں‘

انھوں نے کہا کہ عام شہریوں کے مقدمات فوجی عدالتوں میں بھیجنے سے متعلق درخواستوں کی سماعت کے دوران نامزد چیف جسٹس جسٹس قاضی فائز عیسی نے بینچ سے الگ ہونے سے پہلے جس طرح کی باتیں اس سے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ جیسے انھوں نے ساری عدالتی کارروائی کو ہائی جیک کرلیا ہےجس کا واضح ثبوت مقامی اور انٹرنیشنل میڈیا میں چلنے والی خبریں ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close