ارطغرل غازی پر علامہ محمد اقبال کی خواہش پر چراغ حسن حسرت کی لکھی گئی تاریخی کتاب

سنگت میگ اسپیشل

پاکستان میں کئی سال سے ترکی کے مختلف ڈراموں کو اردو ڈبنگ کے ساتھ چینلز پر نشر کیا جارہا ہے مگر جو مقبولیت ارطغرل غازی کو ملی ہے، اس کی مثال نہیں ملتی۔ دنیا کے متعدد ممالک میں نشر ہونے کے بعد اب یہ پاکستان ٹیلی ویژن پر نشر کیا جارہا ہے، جو ایک ایسے خانہ بدوش قبیلے کی کہانی بیان کرتا ہے جو موسموں کی شدت کے ساتھ ساتھ منگولوں اور صلیبیوں کے نشانے پر ہوتا ہے۔ ڈرامے میں 13 ویں صدی کا زمانہ دکھایا گیا ہے اور قائی قبیلہ منگولوں کے حملوں سے بچنے کے لیے نئی منزل تلاش کرتا ہے جس کے لیے قبیلے کے سردار کا بیٹا ارطغرل آگے بڑھ کر کردار ادا کرتا ہے۔ اس ڈرامے کا مرکزی کردار ارطغرل نامی بہادر جنگجو ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے سلطنت عثمانیہ کی بنیاد رکھی۔  یہاں ہم سنگت میگ کے قارئین کے ساتھ ایک تاریخی دستاویز شئیر کر رہے ہیں.

آپ کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ اردو ادب میں ارطغرل غازی پر چراغ حسن حسرت نے علامہ محمد اقبال کی خواہش پر  آج سے اسی سال پہلے ارطغرل غازی کی زندگی پر کتاب لکھی تھی۔ یہ عظیم کام علامہ اقبال کی خواہش پر شروع کیے گئے ایک مشن کا حصہ تھا۔ علامہ اقبال کی وفات سے چند ماہ قبل، جون 1937 کا کوئی دن تھا، جب چراغ حسن حسرت جاوید منزل میں حاضر تھے، ان کے ساتھ عبدالمجید سالک اور احمد ندیم قاسمی بھی تھے۔ دورانِ گفتگو علامہ اقبال نے اس بات کا اظہار کیا کہ کچھ عرصہ سے یورپ میں سوانح نگاری کا ایک نیا انداز مقبول ہو رہا ہے، یعنی سوانح نگار جس شخص کے حالات لکھنے بیٹھتا ہے، اس کی عادات و خیالات کو اس انداز میں بیان کر دیتا ہے کہ تصور کی آنکھ اسے دیکھ لیتی ہے۔ اردو میں اس انداز کی کتابیں ابھی نہیں لکھی گئیں۔ اگر کوئی خدا کا بندہ اس کام کا بیڑا اٹھائے اور مسلمان فرماں رواﺅں، عالموں، شاعروں اور ادیبوں کے حالات سیدھی سادی زبان میں اس طرح بیان کر دیے جائیں کہ عام لوگ بھی انھیں ذوق وشوق سے پڑھیں ۔ یہ اُردو کی بہت بڑی خدمت ہو گی۔

علامہ صاحب کی اسی خواہش کو عملی جامہ پہناتے ہوئے چراغ حسن حسرت نے مختلف موضوعات پر قلم اٹھایا، بالخصوص بچوں کے لیے چھوٹے چھوٹے تاریخی، اسلامی، اخلاقی اور سوانحی کتابچے تحریر کیے۔ انھی کتابچوں میں سے ایک ارطغرل بھی ہے۔ جو 23 صفحات پر مشتمل یہ کتابچہ تقریباً 80 برس قبل لکھا گیا۔ ہم اسے سنگت میگ کے قارئین کے لیے یہاں تحریری صورت میں پیش کر رہے ہیں

ارطغرل

چراغ حسن حسرت

(1)

ہندوستان سے اُتر (شمال) کی طرف ہمالیہ کے اس پار ترکستان کا ملک ہے۔ اس ملک میں کہیں اونچے نیچے پہاڑ ہیں۔ کہیں ریگستان اور کہیں کوسوں تک ایسے میدان پھیلے چلے گئے ہیں، جن میں گھاس کے سوا اور کچھ نظر نہیں آتا۔ جاڑے میں یہاں ایسی برف پڑتی ہے کہ زمین اور آسمان سب سفید ہو جاتے ہیں۔ جب یہ موسم گزر جاتا ہے، یسورج چمکتا ہے، برف پگھلتی ہے، جمے ہوئے ندی نالے پھر اچھلتے کودتے پتھروں پر سر پٹکتے بہنے لگتے ہیں تو میدانوں اور پہاڑوں کے ڈھلوانوں پر گھاس اگتی ہے اور ہر طرف چہل پہل اور رونق نظر آتی ہے ۔ لوگ خوشیاں مناتے اور ہر طرف بھیڑ بکریوں کے گلے چراتے پھرتے ہیں۔

ترکستان میں شہر اور قصبے تھوڑے ہیں۔اکثر لوگ شہروں کی گہما گہمی سے دور انہیں میدانوں اور پہاڑوں میں عمریں گزار دیتے ہیں ۔ وہ ایک جگہ جم کر نہیں بیٹھتے، آج یہاں ہیں کل وہاں۔ جہاں بھیڑ بکریوں کے لئے چارہ مل گیا، وہیں کمبل تان کر ڈیرے ڈال دیے۔ ان کے بہت سے قبیلے ہیں۔ ہر قبیلے کا سردار الگ ہوتا ہے اور قبیلے کے سب چھوٹے بڑے اس کے حکم پر جان قربان کر دینے کو اپنا فرض جانتے ہیں۔

محنت مشقت کی زندگی نے ان لوگوں کے جسم لوہے کے سانچے میں ڈھال دیئے ہیں۔ان کی بہادری اور جیالے پن کا یہ حال ہے  کہ آگ کے دریا میں کود پڑنا اور پہاڑ سے ٹکرا جانا ان کے نزدیک ہنسی کھیل ہے۔ آج  اگرچہ ترکستان کی حالت اچھی نہیں۔ اس کے کئی ٹکڑے ہو گئے ہیں۔ ایک حصہ روس کے قبضے میں ہے، ایک حصے پر چین حکومت کر رہا ہے اور تھوڑا سا علاقہ افغانستان کے ماتحت ہے لیکن پرانے زمانے میں اس ملک کے لوگوں نے بڑی سلطنتیں قائم کر رکھی تھیں۔ بابر اور اس کے بیٹے پوتے جو کئی سو سال ہندوستان پر حکومت کر گئے، اسی نسل سے تھے اور جن دلاوروں نے ترکی کے نام سے یورپ میں ایک سلطنت قائم کر رکھی ہے، وہ بھی قوم کے ترک اور انہی لوگوں کے بھائی بند ہیں۔ آ ج ہم ان ترکوں کا حال سناتے ہیں جوتر کستان سے جا کر یورپ میں آباد ہو گئے اور آج تک اس سر زمین میں قدم جماۓ کھڑے ہیں.

(2)

کوئی نو سو سال ہوئے، ترک قبیلے اپنے باپ دادا کے وطن سے تلواریں مارتے نکلے اور جگہ جگہ اپنی حکومتیں قائم کر لیں۔ اس واقعے کوتھوڑے ہی دن ہوئے تھے کہ مغلوں نے، جن کا ملک ترکستان کی سرحد سے ملا ہوا تھا، اپنے ملک سے قدم باہر نکالا اور دیکھتے دیکھتے سارے ایشیا پر چھا گئے۔ ترک تو اسلام کی روشنی سے دلوں کو نورانی کر چکے تھے مگر مغلوں کے سینے اس نور سے خالی تھے۔ وہ ابھی تک اپنے باپ دادا کی رسموں ریتوں کو مانتے اور دیوتاؤں کی پوجا کرتے تھے۔ ان کے ہاں لڑائی کا کوئی قاعدہ قانون نہیں تھا۔ جس ملک پر چڑھ جاتے، عورتوں، مردوں، بچوں بوڑھوں کوقتل کر ڈالتے اور بڑے بڑے شہروں کرلوٹ کھسوٹ کر آگ لگا دیتے تھے ۔

مغلوں کا یہ حملہ سیلاب کی طرح ہوتا تھا، جس میں بہت سے ترک قبیلے بہہ نکلے۔ ان میں سے کچھ مصر پہنچے، کچھ ایران اور ہندستان میں پھیل گئے اور بعض نے ایشیا کے دوسرے ملکوں کا رخ کیا۔ جن ترکوں نے مجبور ہو کر باپ دادا کے وطن کو چھوڑا تھا ۔ ان میں غز قبیلہ بھی تھا ۔ یہ لوگ ترکستان سے چل کر کچھ دن خراسان میں اٹکے۔ مگر جب مغلوں نے وہاں بھی چین نہ لینے دیا تو پچھم (مغرب) کی طرف ہٹے اور دریاۓ فرات کے کنارے بڑھتے چلے گئے۔ کچھ لوگ تو راستے میں اتر گئے، کچھ آگے بڑھے اور طرح طرح کی سختیاں جھیلتے مصیبتیں اٹھاتے ایشیائے کوچک (آج کا ترکی) کے اس حصے میں جا پہنچے، جسے اناطولیہ کہتے ہیں

یہاں پہنچتے پہنچتے قبیلے میں کوئی ہزار بارہ سو آدمی رہ گئے تھے، ان میں بھی صرف چار سو سوار لڑنے بھڑنے کے قابل تھے، باقی کچھ بوڑھے تھے، کچھ بچے اور کچھ عورتیں۔ اس لٹے ہوئے قافلے کا سردار ارطغرل بڑا بہادر شخص تھا۔ اس کا قد لمبا، چوڑا چکلا سینہ، بڑے بڑے ہاتھ پاؤں، گورا رنگ۔ ایشیائے کوچک کی سرحد پر پہنچ کر ارطغرل کو اپنا وطن یاد آگیا۔ کیونکہ یہاں ترکستان کی جھلک سی نظر آتی تھی ۔ پلٹ کر دیکھا تو افق پر دھند کی سفید چادر کے سوا کچھ نظر نہ آیا۔ جی میں کہا کہ اگرچہ ترکستان یہاں سے ہزاروں کوسوں کا پلہ (فاصلہ) ہے اڑ کے بھی جائیں تو نہ پہنچ سکیں ۔ مگر خدا کا شکر ہے کہ دشمنوں سے نجات پائی۔ زندگی رہی تو بدلے کا موقع بھی ہاتھ آ جائے گا۔

(3)

ارطغرل کو اناطولیہ میں سفر کرتے کئی دن ہو گئے ۔ اگر چہ ہر منزل پر پہنچ کر یہی جی چاہتا تھا کہ یہیں اتر پڑیں، مگر یہ خیال کھینچے لئے جاتا تھا کہ کسی طرح یہاں کے بادشاہ کے دربار میں پہنچنا چاہیئے، وہ آخر سلجوق نسل کا ترک اور اپنا بھائی بند ہے، شاید اس کے دربار میں پہنچ کر دل کے حوصلے نکالنے کا موقع ملے ۔ ایک دن یہ بے وطن ایک درہ میں سے گزر رہے تھے، اردگرد پہاڑیاں تھیں، بیچ میں سے ایک چھوٹا سا راستہ، جس میں صرف دو سوار پہلو بہ پہلو گزر سکتے تھے، آگے آگے ارطغرل تھا، پیچھے پیچھے اس کے جانباز ساتھی۔ گلے میں ترکش اور پیٹھ پر ڈھالیں ڈالے، ایک ہاتھ میں نیزہ اور دوسرے میں لگام سنبھالے چلے آتے تھے۔اس لین لے ڈوری کے بیچوں بیچ عورتیں اور بچے تھے. کبھی کسی عورت یا بوڑھے کے گھوڑے کی زین کھسک جاتی تو ایک سوار گھوڑا مار (دوڑا) کے آگے آتا۔ اسے اتار کر گھوڑے کے تنگ (پیٹی) کو کس کر باندھ دیتا اور گھوڑے پر سوار کر کے دو قدم ان کے ساتھ ساتھ چلتا، پھر گھوڑے کو پھرا کے اپنی جگہ چلا جاتا۔ جب بھی کوئی ایسا واقعہ پیش آتا، سارے لوگ تھوڑی دیر کے لئے گھوڑوں کی باگیں روک لیتے۔ ان سب کے پیچھے خچروں پر خیمے لدے ہوئے تھے۔ ان کے پیچھے بھیڑ بکریوں کا ایک گلہ، جس کی دیکھ بھال کے لئے دس بارہ سواروں کا ایک چھوٹا سا دستہ مقرر تھا۔

اس وقت اچھا خاصا دن چڑھ آیا تھا اور ہوا گرم ہو چلی تھی۔ ایکا ایکی ارطغرل کے اصیل گھوڑے نے کان کھڑے کر لئے اور ہنہنانے لگا۔ ارطغرل نے باگ روک لی، اس کے رکتے ہی سارا قافلہ رک گیا۔ اب جو ارطغرل نے کان لگا کر سنا، تو ہلکا سا شور سنائی دیا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ کہیں بہت دور دریا کی لہریں چٹانوں سے سر پٹک رہی ہیں ۔ اس نے گھوڑے کو ذرا تیز کیا، جوں جوں آگے بڑھتا گیا ۔ شور زیادہ اونچا اور صاف ہوتا گیا۔ ایک جگہ پہنچ کر ارطغرل نے اپنے ساتھیوں پر نظر ڈالی، ان میں سے ایک بوڑھا آدمی، جس کے چہرے سے معلوم ہوتا تھا کہ مدتوں بیمار رہا ہے، جسم میں لہو کی ایک بوند بھی باقی نہیں، آگے بڑھا اور کہنے لگا۔ ’’ کچھ سمجھ میں آیا یہ شور کیسا ہے؟‘‘
ارطغرل نے جواب دیا ”میں تو ابھی تک نہیں سمجھ سکا‘‘
بڈھے نے سر اونچا کر کے کہا ’’میرے خیال میں پاس ہی لڑائی ہو رہی ہے.. آگے بڑھے چلئے، آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ کیا معاملہ ہے؟‘‘

کچھ دور جا کر درہ ختم ہوتا تھا۔ یہاں سے آگے اتار تھا اور ایک چھوٹی سی پگڈنڈی جھاڑیوں میں سے گزرتی ہوئی نیچے ایک وادی میں جا پہنچتی تھی۔ یہاں انہوں نے دیکھا کہ وادی میں جہاں تک نظر کام کرتی ہے، تلوار چل رہی ہے اور گھوڑوں کے ہنہنانے تلواروں کی جھنکار اور لڑنے والوں کے نعروں سے آس پاس کی پہاڑیاں بار بار گونج اٹھتی ہیں. ارطغرل کی سمجھ میں یہ بات تو نہ آئی کہ یہ لوگ کون ہیں اور آپس میں کیوں لڑ رہے ہیں؟ لیکن اس نے پہلی ہی نظر میں اتنا جان لیا کہ لڑائی برابر کی نہیں۔ دو پہر ڈھلتے ہار جیت کا فیصلہ ہو جائے گا۔ دونوں لشکروں میں سے ایک کا رخ پچھم (مغرب) کی طرف تھا۔ دوسرے کا پورب (مشرق) کی طرف.. جو لشکر پورب سے پچھم کو بڑ ھ رہا تھا۔ وہ گنتی میں زیادہ تھا ۔اس کے گھوڑے زیادہ مضبوط اور سپاہی زیادہ طاقت ور تھے ۔اس کے علاوہ سورج اس کے پیچھے اور دشمن اس کے بالکل سامنے تھا۔ اس نے دو تین ہلے ایسے کئے کہ دشمن کی صفیں ٹوٹنے لگیں اور ارطغرل کو ایسا معلوم ہوا کہ دو تین حملوں میں لڑائی دوٹوک ہو جاۓ گی.

اگر چہ ارطغرل اور اس کے ساتھی تھکے ماندے تھے  اور لمبے سفر نے ان میں ذرا بھی سکت باقی نہیں چھوڑی تھی، لیکن دو فوجوں کو میدان میں لڑتے دیکھ کر اور کمزور کو زبردست کے قابو میں پا کر ارطغرل کی رگوں میں شجاعت کے خون نے جوش مارا۔ اس کا ہاتھ بے اختیار تلوار کے قبضے پر جا پہنچا اور وہ پلٹ کر کہنے لگا۔’’بھائیو! اگرچہ ہمیں یہ معلوم نہیں کہ یہ لوگ کون ہیں، ان کا مذہب کیا ہے اور یہ کس نسل سے ہیں؟ لیکن تم دیکھ رہے ہو کہ ان میں ایک کمزور ہے اور دوسرا طاقتور۔ دنیا والوں کا قاعدہ ہے کہ وہ نفع کے لالچ اور انعام کی امید میں کمزور کا ساتھ چھوڑ کر طاقت ور سے جا ملتے ہیں، لیکن ہمارے بزرگوں کا یہ قاعدہ نہیں.. کبھی کمزور اور بیکس پر ان کا ہاتھ نہیں اٹھا ۔ مردانگی اور شجاعت کا قانون جو ہماری تمہاری رگوں میں رچا اور بسا ہوا  ہے، یہی کہتا ہے کہ اس جنگ میں کمزور کو طاقتور سے بچائیں۔ دیکھو دشمن کس طرح سمٹ کر بڑھا ہے، صفوں میں قرنا (سینگ کا بگل) پھنک رہی ہے، ترہی (بگل) کی آواز سے دلوں میں شجاعت کے ولولے جاگ اٹھے ہیں، آؤ ایک دفعہ باگیں اٹھائیں اور مل کر دشمن پر جا پڑیں۔‘‘

اس قافلے میں جو لوگ لڑنے بھڑنے کے قابل تھے، سب گھوڑے کُدا (بڑھا) کے ارطغرل کی پشت پر آ جمے۔ کچھ لوگوں کو عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کی حفاظت کے لئے وہیں چھوڑا۔ پھر ایک ساتھ سب نے باگیں اٹھائیں اور ارطغرل انہیں ایک لمبا چکر دے کر طاقت ور فوج کے پہلو پر بجلی کی طرح جا گرا۔ اگرچہ بہادر ترکوں کی تلواریں مدت سے نیام میں تھیں لیکن جب انہیں نکالا گیا تو ایسا معلوم ہوتا تھا  کہ شعلے بھڑک رہے ہیں اور جس طرف بڑھتے ہیں سب کچھ جلا کر بھسم کر ڈالتے ہیں. یہ حملہ ایسا اچانک تھا کہ دشمن کا لشکر جو سیلاب کی طرح برابر بڑھا چلا جا رہا تھا۔ ایکا ایکی رک گیا۔ کچھ سمجھ میں نہ آتا تھا یہ آفت کہاں سے آئی؟ سوچتا تھا کہ آگے بڑھوں یا پیچھے ہٹوں بس یہ رکنا غضب ہو گیا۔ ہارنے والوں نے، جن کے قدم اکھڑنے میں تھوڑی ہی کسر باقی رہ گئی تھی، جب ایک چھوٹے سے دستے کو یوں حملہ کرتے دیکھا اور دشمن کو گھبرایا ہوا پایا، تو انہوں نے سمجھا کہ ہماری مدد کو فرشتے آسمان سے اتر آئے ہیں، اس خیال کے آتے ہی ٹوٹی ہوئی ہمتیں بندھ گئیں۔ اور وہ پھریروں کو تان، جنگی طنبور گڑگڑاتے، اس طرح بڑھے کہ دشمن کی صفیں ٹوٹنے لگیں۔

دشمن کی فوج ان گنت تھی. ارطغرل اور اس کے ساتھی اس طرح بہتے چلے جاتے تھے، جس طرح دریا کا دھارا پتھروں اور کنکروں کو بہائے چلے جا تا ہے۔ وہ اس فوج کی موجوں میں ڈوب ڈوب کر ابھرے اور بار بارصفیں الٹ کے رکھ دیں۔ اب دشمن پر دوطرفہ ایسا دباؤ پڑا کہ اس کے قدم اکھڑ نے لگے۔ جوسردار بڑی بہادری سے قدم جمائے کھڑے تھے، انہوں نے جب دیکھا کہ آس پاس لاشیں ہی لاشیں نظر آتی ہیں اور دو طرف سے لشکر بڑھ رہا ہے، تو وہ ہمت ہار گئے اور اس طرح سر پر پاؤں رکھ کر بھاگے کہ پیچھے پلٹ کر نہ دیکھا۔ افسروں کو بھاگتے دیکھ کر سپاہی بھی جی چھوڑ بیٹھے اور جدھر کسی کا منہ اٹھا، بھاگ نکلا. غرض دن ڈھلتے ہی فیصلہ ہو گیا۔ ہارے ہوؤں کی جیت ہوئی اور جیتے ہوئے ہار گئے۔ جنگ ختم ہوئی تو ارطغرل نے اپنے ساتھیوں کی طرف توجہ کی. کئی بچپن کے رفیق، جنہوں نے بڑے بڑے کٹھن وقتوں میں ساتھ نہ چھوڑا تھا، میدان میں سسک رہے تھے۔ ارطغرل نے بچے کھچے جاں نثاروں کو سمیٹ انہیں اٹھایا ۔ جو زخمی تھے، ان کی مرہم پٹی کی. جو مارے گئے تھے، ان کو دفن کرنے کا انتظام کرنے لگا۔ اتنے میں کچھ لوگ اس طرف بڑھتے نظر آئے۔ ان میں سے ایک سردار گھوڑا مار کے سامنے آیا اور کہنے لگا ۔’’ہمارا بادشاہ تم سے ملنا چاہتا ہے۔ کیونکہ آج کی جنگ تمہاری ہی وجہ سے سر ہوئی۔ ہماری سمجھ میں ابھی تک یہ بات نہیں آئی کہ تم کون لوگ ہو، یہاں کیونکر آئے اورتم نے ہماری مدد کیوں کی؟ سچ تو یہ ہے کہ سب اب تک تمہیں فرشتے سمجھے ہوئے تھے، لیکن جب ہم نے تمہیں اپنے ساتھیوں کے لاشے اٹھاتے اور زخمیوں کی دیکھ بھال کرتے دیکھا، تو سمجھا کہ تم فرشتے نہیں، بلکہ ہماری طرح انسان ہو۔

ارطغرل نے اپنا نام بتایا اور کہا ’’میں ترکوں کے غز قبیلے کا سردار ہوں، مغلوں نے ہمیں اپنے وطن سے نکال دیا۔ جب کہیں سر چھپانے کا آسرا نہ ملا تو ہم اس ملک میں چلے آئے، لیکن مجھے بھی ابھی تک یہ معلوم نہیں ہوا کہ تم لوگ کون ہو، تمہارے بادشاہ کا کیا نام ہے؟ اور جن لوگوں نے تم پر حملہ کیا، وہ کون تھے؟“
وہ سردار بڑے تعجب سے کہنے لگا ’’ایں… کیا پچ مچ تمہیں اتنا بھی معلوم نہیں!! ہم سب تمہاری طرح ترک ہیں ہمارا بادشاہ علاؤالدین کیقباد سلجوقی خاندان کے ترک بادشاہوں کی نسل سے ہے، جنہوں نے ایک زمانے میں ترکستان سے سمندر کے کنارے تک سارے ملک پر قبضہ کر لیا تھا.. اور یہ لوگ مغل تھے، جو دوسرے اسلامی ملکوں کو تباہ کر کے ہمارے ملک پر چڑھ آئے تھے۔“

یہ کہہ کر وہ سردار ارطغرل کو اپنے بادشاہ کے پاس لے گیا۔ وہ ارطغرل سے بڑی مہربانی کے ساتھ پیش آیا اور اس کی بہادری و مردانگی کی بڑی تعریف کی.

(4)

سلجوقی بادشاہ کی مہربانی سے ارطغرل اور اس کے ساتھیوں کے دن بڑے امن اور چین سے کٹنے لگے ۔ لیکن یہاں بھی ان ترک بہادروں نے اپنے باپ دادا کے طور طریقوں کو نہ چھوڑا۔ انہیں شہروں میں رہنا پسند نہیں تھا۔ اس لئے گرمی کے موسم میں بروصہ کے شہر کے پاس ایک میدان میں خیمے گاڑ دیے ۔ وہ بھیڑ بکریوں کے گلے چراتے پھرتے تھے۔ جب جاڑ اشروع ہوتا  اور بروصہ کے آس پاس چارہ نہ ملتا تو سقاریہ کی وادی میں اٹھ جاتے اور سردی کے دن وہیں گزارتے.

مغلوں نے ترکوں کے ہاتھ سے بڑی سخت شکست کھائی تھی، اس لئے ان کے دل میں یہ پھانس برابر کھٹک رہی تھی کہ موقع ملے تو کسی طرح ترکوں سے شکست کا بدلہ لیں۔ روم کے عیسائی بادشاہ، جن سے ترکوں نے ایشیائے کوچک کا علاقہ چھینا تھا، ہمیشہ ایسے موقعوں کی تاک میں رہتے تھے۔ ان کو یہ بات معلوم ہوئی تو انہوں نے مغلوں کو کہلا بھیجا کہ اگر اب کے تم اناطولیہ پر حملہ کرو، تو ہم تمہارا ساتھ دینگے۔

اس دفعہ رومی اور مغل بڑے لاؤ لشکر سے چلے اور اناطولیہ کے میدانوں میں، جہاں تک نظر کام کرتی تھی، رومیوں اور مغلوں کے خیمے ڈیرے نظر آتے تھے۔ ادھر سے کیقباد بھی نکلا اور بروصہ کے شہر سے کچھ دور ہٹ کر دونوں فوجیں آمنے سامنے ہوئیں ۔ارطغرل اور اس کے مٹھی بھر ساتھی آگے آگے تھے ۔ دشمن کی صفیں کائی کی طرح پھٹ جاتی تھیں ۔ تین دن تین رات برابر لڑائی ہوتی رہی، کبھی انہوں نے انہیں دھکیلا، کبھی انہوں نے ریلا ۔ آخر ایک دن کیقباد نے فوج کے کئی حصے کر کے، انہیں الگ الگ سرداروں کے حوالے کر دیا  اور ان سے یہ کہہ دیا کہ جب ارطغرل اپنے سپاہیوں کے ساتھ دشمن پر جا گرے۔تم بھی نقارے لے پر چوٹ لگا دشمن پر دہنے بائیں سے آ گرنا۔

پہر دن باقی تھا، کہ ارطغرل نے گھوڑے کو ایڑ لگائی اور دشمن کے لشکر کی صفوں کو توڑتا ہوا بڑھا۔ اس کے بڑھتے ہی دہنے بائیں سے اس زور کا حملہ ہوا کہ جو رومی اور مغل سردار اپنے لشکر کے بیچوں بیچ کھڑے سپاہیوں کو بڑھاوے دے دے کر لڑا رہے تھے، وہ بھی اپنی جگہ سے ہٹ گئے. ساتھ ہی سلطان نے اپنی رکاب کے سواروں کو اشارہ کیا کہ ہاں یہ بھگوڑے جانے نہ پائیں۔ یہ حملہ ایسا سخت تھا کہ رومی اور مغل جو پہلے ہی جی چھوڑے ہوئے تھے۔ایسے بھاگے کہ پیچھے مڑ کر نہ دیکھا۔

چونکہ اس معرکے میں ارطغرل نے بڑی بہادری دکھائی تھی، اور اصل بات تو یہ ہے کہ یہ لڑائی اس کی ہمت سے فتح ہوئی تھی، اس لئے سلطان نے اسے بہت سا روپیہ انعام دیا اور عسکی شہر کا علاقہ اس کی جاگیر مقرر ہوا۔ یہ علاقہ روم کی عیسائی حکومت اور ایشیائے کوچک کی سلجوقی سلطنت کی سرحد پر تھا ۔اس طرف سے ہمیشہ رومیوں کے حملے کا کھٹکا رہتا تھا۔مگر ارطغرل نے اس علاقے کا ایسا انتظام کیا کہ رومیوں کو اس طرف آنکھ اٹھا کے دیکھنے کی جرات نہ ہوتی تھی۔

اس علاقے میں گھاس اور پانی کی بہتات تھی۔ ہر طرف سرسبز میدان، جس میں غز قبیلے کے لوگ گلے چراتے پھرتے تھے۔ جگہ جگہ باغ تھے، جن میں ہر قسم کے پھل اور پھول پیدا ہوتے تھے۔ یہاں خدا نے اس قبیلے کو بہت برکت دی اور وہ طاقت اور دولت میں اس ملک کے دوسرے تمام ترک قبیلوں سے بڑھ گیا۔ کچھ عرصے کے بعد ارطغرل کو موت کا بلاوا آ گیا اور اس کی جگہ اس کا بیٹا عثمان قبیلے کا سردار مقرر ہوا۔

اسے ارطغرل کی نیت کا ثمرہ کہہ لو یا کچھ اور، کہ یہ پردیسی، جو میدانوں کو الٹ کر ہزاروں کوسوں کے فاصلے سے یہاں آۓ تھے، ساڑھے چھ سو سال ایشیا اور یورپ کی قسمت کے مالک بنے رہے. ترکی کے سلطان، جو ارطغرل کے بیٹے عثمان کے نام پر عثمانی ترک کہلاتے ہیں، اس بہادر شخص کی نسل سے تھے ۔ اگرچہ اب عثمانی خاندان میں حکومت نہیں رہی، لیکن ارطغرل کے قبیلے کے لوگ آج بھی ترکی پر حکومت کر رہے ہیں اور ایشیا اور یورپ کے دونوں براعظموں میں قدم جمائے کھڑے ہیں

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close