‘حقیقی ہندوستانی ہونے کے لیے ہندو ہونا لازمی ہے

اسپیشل فیچر

ہندوستان میں میں چونسٹھ فیصد ہندوؤں کا ماننا ہے کہ ایک حقیقی ہندوستانی ہونے کے لیے ہندو ہونا لازمی ہے۔ یہ نتائج امریکی ادارے ”پیو ریسرچ سنٹر“ کے ایک تازہ ترین سروے میں ہندوستان میں مذہب اور قومیت کے حوالے سے کی گئی تحقیق میں سامنے آئے ہیں

اسی سروے میں یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ دو تہائی ہندو بین المذاہب شادیاں روکنا چاہتے ہیں۔ جبکہ اس سروے کے مطابق کم از کم چھتیس فیصد ہندو نہیں چاہتے کہ ان کا ہمسایہ مسلمان ہو

پیو ریسرچ سنٹر کی اس تحقیق میں تیس ہزار شہریوں سے بات کی گئی جس میں سترہ زبانوں کی مدد سے سروے کیا گیا۔ل

ہندوستان کی آبادی میں اسی فیصد ہندو ہیں، جبکہ چودہ فیصد مسلمان ہیں۔ ان سارے نتائج کے باوجود سروے کے مطابق چوراسی فیصد لوگ مُصر ہیں کہ دوسرے مذاہب کے لیے احترام ہندوستان کی اہم شناخت ہے

تاہم یہ ضرور ہے کہ بہت سے ہندوستانی شہری مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے کے باوجود بہت سے خیالات میں مماثلت رکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر اکیاسی فیصد ہندوؤں کا ماننا ہے کہ دریائے گنگا میں انسان کو پاک کر دینے کے صلاحیت ہے، دوسری جانب  چھیاسٹھ فیصد جین بھی یہی کہتے ہیں. اس کے علاوہ حیران کن طور پر ایک تہائی مسیحی برادری اور ایک چوتھائی مسلمان  بھی اس سے اتفاق کرتے ہیں۔ اسی طرح کارما یعنی یہ یقین کہ آپ کے اعمال کے نتائج ہوتے ہیں، اس میں ستتر فیصد ہندو اور ستتر فیصد مسلمان یقین رکھتے ہیں۔ چوَن فیصد مسیحی لوگ بھی اس سے متفق ہیں

کئی برسوں سے معاشروں کو ‘ملٹنگ پوٹ’ یعنی جس دیگچی میں سب گھل مل گیا ہو، یا پھر سلاد جس میں اجزا تو بہت سے ہوتے ہیں مگر ہر جز علیحدہ پڑا ہوتا ہے، ان دونوں کی مدد سے تشبیہ دی جاتی ہے. ملٹنگ پوٹ ان معاشروں کو کہا جاتا ہے جہاں آنے والے لوگوں کو رائج ثقافت قبول کرنا پڑتی ہے۔ سلاد ان معاشروں کو کہا جاتا ہے جہاں آنے والے نئے مہاجرین اپنی شناخت خود قائم رکھ پاتے ہیں۔ تاہم اس تحقیق نے ہندوستان میں معاشرے کو نہ تو ملٹنگ پاٹ نہ سلاد کا پیالہ ہی قرار دیا ہے

اس تحقیق میں ہندوستان میں ہر مذہب کے شہری مذہبی رواداری اور مذہبی بنیادوں پر امتیاز، دونوں ہی کے حامی ہیں۔ اس تحقیق کی ایک محقق نیہا سیگل کہتی ہیں کہ ‘یہ انڈیا میں معاشرے کی ایک نایاب سمجھ کی جانب اشارہ کرتی ہے۔ اسے آپ ”ہندوستانی تھالی“ کہہ سکتے ہیں۔‘

اسی تحقیق کے ایک اور محقق جوناتھن ایونز کہتے ہیں  ’عوامی رائے میں یہ ممکن ہے کہ لوگوں کے آپس میں متضاد خالات ہوں۔ مثال کے طور پر 2019ع میں پیو کی ایک تحقیق میں مغربی یورپ کے ممالک میں جو لوگ مسیحی تھے، چاہے وہ چرچ جاتے تھے یا نہیں، ان کے اقلیتوں سے نفرت کرنے کے امکانات زیادہ تھے۔’

یہ بات مسیحی تعلیمات جیسے اپنے ہمسائے سے پیار کرو کے بالکل خلاف ہے۔ اس چیز کو یورپیوں کی مشرقِ وسطیٰ سے آنے والے تارکینِ وطن کو قبول نہ کرنے کی پالیسی کی جھلک بھی کہا گیا

لیکن ہندوستان میں کچھ باتیں انتہائی غیر عمومی تھیں۔ صرف اٹھاون فیصد لوگوں نے کہا کہ وہ ایک مسلمان ہمسائے کو قبول کریں گے

اگرچہ دیگر ممالک میں بھی مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک ہوتا ہے لیکن وہاں بہت زیادہ لوگ مسلمان ہمسائے قبول کرنے کو تیار ہوتے ہیں۔ اٹلی میں 65 فیصد، برطانیہ میں 78 فیصد، فرانس میں 85 فیصد اور امریکہ میں 89 فیصد۔ مغربی یورپ میں لوگ اس بات پر بھی منقسم تھے کہ اسلام ان کے ملک کی ثقافت اور اقدار کے منافی ہے

یہ بات حیران کن بالکل نہیں ہے کہ جن لوگوں نے وزیراعظم مودی کو ووٹ دیا تھا ان میں یہ امکان زیادہ ہے کہ وہ اس بات پر یقین رکھتے ہوں کہ ایک سچا ہندوستانی ہونے کے لیے آپ کو ہندی زبان بولنا اور ہندو ہونا اہم ہے۔ مگر کیا ان خیالات کی وجہ سے اقلیتوں کے ساتھ برا سلوک ہوتا ہے؟

سروے کے مطابق کسی بھی دین سے تعلق رکھنے والے ایک چوتھائی لوگوں کا کہنا ہے کہ ان کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جاتا ہے۔ ہر پانچ میں سے ایک مسلمان کا کہنا ہے کہ انھیں مذہبی امتیاز کا بھی سامنا رہا ہے

اور ہر مذہب کے پینسٹھ فیصد افراد نے کہا کہ کرپشن اور خواتین کے خلاف تشدد کے بعد مذہبی فسادات ایک بڑا مسئلہ ہے.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close